حالیہ گھڑمس میں پتلی گلی سے نکلنے والے

ابھی یہ تماشا بہت دن چلے گا۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی جانب سے بھیجی گئی رپورٹ‘ جو آج کل دھمکی آمیز خط کے نام سے ہر جگہ زیر بحث ہے‘ اب اگلے کئی سالوں کیلئے عمران خان کا بیانیہ بن کر ہمارے دماغ کی چولیں ہلاتی رہے گی۔ اول تو مجھے امید ہی نہیں کہ اس رپورٹ کا کوئی منطقی نتیجہ برآمد ہوگا اور اگر ہو بھی گیا تو اس کو حسب معمول ایک فریق مانے گا اور دوسرا یکسر رد کر دے گا۔ سیاسی طور پر اس خط کا وہی حال ہوگا جو قطری خط کا ہوا تھا۔ مسلم لیگ (ن) والے اس خط کو صحیفے کا درجہ دیتے تھے جبکہ دوسرا فریق اسے محض جھوٹ کا پلندہ قرار دیتا تھا۔ ہماری سیاسی خلیج اس حد تک وسیع ہو چکی ہے کہ اسے دلیل، منطق یا گفتگو سے نہیں پاٹا جا سکتا۔
تاہم اس افراتفری میں کسی کو یہ خبر نہیں کہ ملک عزیز میں رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور کم از کم پنجاب کی حد تک ضلعی انتظامیہ کو سمجھ نہیں آرہی کہ اسے کیا کرنا ہے‘ ان کا وزیراعلیٰ کون ہے؟ رمضان بازاروں کے اشتہاری میٹریل، پینا فلیکسز اور بورڈوں پر کس کی تصویر لگانی ہے؟ کس کے آگے نمبر بنانے ہیں اور اس سے کس نے پوچھ تاچھ کرنی ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں اور صحیح معنوں میں طوائف الملوکی کی سی صورتحال ہے۔ ڈپٹی کمشنر اپنے اپنے ضلع کا ایسا وزیر اعلیٰ ہے جو نالائقی اور نااہلی میں اپنے سابقہ قائد جناب عثمان بزدار کا ریکارڈ برابر کرنے کے چکر میں ہے۔ برابر کرنا اس لئے لکھا ہے کہ ہمارے پیارے عثمان بزدار صاحب کا ریکارڈ توڑنا کسی ہما شما کا کام نہیں ہے۔
اب یہ بات لکھتے ہوئے تو باقاعدہ شرم آتی ہے کہ رمضان کے آتے ہی اللہ تعالیٰ ہم پر کرم کرتے ہوئے شیطان کو قید کر دیتا ہے تو ہمارے ایماندار کاروباری حضرات مہنگائی کا عفریت کھول دیتے ہیں۔ کیا چھوٹا اور کیا بڑا؟ ہر شخص اپنی اپنی استطاعت کے مطابق لوٹ مار پر اتر آتا ہے۔ جو چیز چند روز قبل آدھے بھائو پر مل رہی ہوتی ہے وہ اس ماہ مبارک میں دوگنی قیمت پر فروخت ہوتی ہے اور اس دھڑلّے سے فروخت ہوتی ہے کہ اب اس پر احتجاج وغیرہ کرتے ہوئے ازخود شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کیا ہر سال ایک ہی بات کا رونا رونے لگ پڑتے ہیں۔ ہمیں لکھتے ہوئے بھی اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ نہ تو اس کا کوئی نتیجہ نکلنا ہے اور نہ ہی کوئی حل سامنے آنا ہے مگر کیا کریں؟
اس ملک میں المیہ یہ ہے کہ امیر اور غریب کے مابین باہمی توازن روز بروز خراب ہوتا جا رہا ہے۔ کسی سپر سٹور میں جائیں تو وہاں لوگوں کو اندھادھند خریداری کرتے، شیلفوں میں سے بے تحاشا چیزیں بلا سوچے سمجھے اٹھاکر ٹرالیوں میں ٹھونستے دیکھیں تو لگتا ہے کہ لوگوں کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ انہیں ادائیگی کی رتی برابر فکر نہیں۔ گھر میں رمضان کے حوالے سے تین چار چیزیں درکار تھیں۔ میں غلطی سے گھر کے نزدیک واقع ایک سپر سٹور پر چلا گیا۔ وہاں پہلا جھٹکا یہ لگا کہ گاہکوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ ٹرالیاں ختم ہو چکی تھیں اور لوگ ایک قطار بنا کر خالی ہوکر آنے والی ٹرالیوں کیلئے انتظار کررہے تھے۔ میں نے صرف چند چیزیں لینی تھیں اور مجھے ٹرالی کی ضرورت نہیں تھی۔ میں نے شیلفوں سے اپنی ضرورت کی وہ چیزیں ہاتھ میں پکڑیں اور ادائیگی کیلئے بنے ہوئے کائونٹرز کے بائیں طرف آخر میں ان کائونٹرز کی طرف چلا گیا جہاں دس سے کم اشیا کی ادائیگی کی سہولت تھی۔ عموماً ان تین کائونٹر پر دو تین سے زیادہ لوگ ادائیگی کے منتظر نہیں ہوتے مگر ایسا لگتا تھا کہ شاید آج اس سٹور میں رمضان المبارک کی خوشی میں ہر شے مفت مل رہی ہے۔ عام کائونٹرز پر ایک ایک شخص دو دو ٹرالیاں بھر کر کھڑا تھا اور ہر کائونٹر کے سامنے اتنی لمبی قطار لگی ہوئی تھی کہ دیکھ کر گھبراہٹ ہورہی تھی۔ ان بائیں ہاتھ والے کائونٹرز پر جہاں عموماً دو چار لوگوں کے علاوہ اور کوئی نہیں ہوتا‘ وہاں یہ عالم تھا کہ میں نے گھبرا کر اپنی مطلوبہ دو تین چیزیں دوبارہ شیلفوں میں رکھیں اور باہر نکل آیا۔ اس سٹور کے باہر درجن بھر ضعیف عورتیں اور بچے ہر بھری ہوئی ٹرالی کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ہر آتے جاتے کے آگے ہاتھ پھیلا کر کھانے کی معمولی چیزوں کی طرف اشارہ کرکے مانگ رہے تھے۔ دل اتنا خراب ہواکہ میں راستے میں بھی کسی جگہ نہ رکا اور سیدھا گھر آگیا۔ سوچا‘ ہم صرف دو لوگ ہی تو ہیں‘ اگر یہ دو تین چیزیں نہ بھی خریدیں تو کیا قیامت آجائے گی؟ سچ پوچھیں تو دل بالکل مرجھا سا گیا۔
رمضان میں پکوڑے اور لیموں کی سکنجین یوں سمجھیں کہ میری کمزوری ہیں۔ اسی سٹور میں پچھلی جانب سبزیوں اور پھلوں والے سیکشن میں گیا اور سیدھا لیموں والی شیلف کی طرف۔ ریٹ دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ دیسی لیموں چند روز قبل دو سو اسی روپے کلو کے حساب سے فروخت ہورہے تھے تب بھی اتنی قیمت پر خریدتے ہوئے کافی تکلیف ہوئی تھی۔ اب محض پانچ دن بعد دوبارہ آیا تو لیموں کا ریٹ پانچ سو ننانوے روپے فی کلوگرام ہوچکا تھا۔ یہ ایک روپے والی پخ بھی خواہ مخواہ ساتھ لگی ہوئی وگرنہ یہ سیدھا سیدھا چھ سو روپے کلو تھا۔ غضب خدا کا! لیکن صرف لیموں پر ہی کیا موقوف‘ لہسن چار سو روپے کلو اور ادرک تین سو روپے کلو کے لگ بھگ تھا۔ دیسی لیموں تو مقامی چیز تھی اس کا تو ڈالر کے ریٹ کے بڑھنے سے بھی کوئی تعلق نہیں تھا‘ پھر بھی ریٹ آسمان کو چھو رہا تھا اور مزید غضب یہ کہ صرف رمضان کی وجہ سے زائد منافع کے لالچ میں ایسا لیموں بھی اتار لیا گیا تھا جو ابھی پوری طرح پکا بھی نہیں تھا۔
ملبورن سے بیٹی نے بتایا کہ وہاں اس کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ایک سٹور نے رمضان کیلئے مسلمانوں کی سہولت کی خاطر کئی اشیا پر خصوصی سیل لگائی ہوئی ہے اور مزے کی بات یہ کہ سیل خاص طور پر ان چیزوں پر لگائی گئی تھی جو ہم عموماً افطار اور سحر کیلئے استعمال کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں سٹور انتظامیہ نے ایک عام استعمال ہونے والا مشروب خصوصی طور پر سٹور میں داخلے والی جگہ پر نمایاں کرکے رکھا ہوا تھا۔ اب یہ بات کتنی بار لکھی جائے کہ جن لوگوں کی بربادی کی دعائیں ہم رمضان کے مہینے میں عبادت کے بعد بطور خاص کرتے ہیں وہ کم ازکم رمضان کے حوالے سے ہم مسلمانوں کا اس سے کہیں زیادہ خیال رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جتنا ہمارے عبادت گزار، حاجی اور عمرے کرکے پچھلے گناہ معاف کروا کر نئے گناہوں کے دھلے دھلائے ہوئے کاروباری حضرات کرتے ہیں۔
ہر طرف گھڑمس کی سی صورت حال ہے اور اس پر ہر بندہ اپنے اپنے حساب سے دائو لگانے میں مصروف ہے۔ حالات کو سازگار دیکھ کر علیم خان بھی میدان میں کود پڑے ہیں اور اپنی پاکیٔ داماں کے قصے اتنے تیقن سے سنا رہے ہیں کہ ان کے ہاتھ چومنے کو دل کر رہا ہے۔ اسی افراتفری اور نفسانفسی کا فائدہ اٹھا کر خاتون اول کی دست راست آنکھ بچا کردبئی نکل گئی ہیں۔ ان کے شوہر نامدار‘ جو ضلع کے سب سے بڑے پولیس افسر کو کھڑے کھڑے معطل کروا کر خاصی شہرت حاصل کر چکے تھے‘ اسی اثنا میں امریکہ نکل چکے ہیں۔ خان صاحب کرپشن کی لکیر پیٹتے پیٹتے اب خط پر آ گئے ہیں جبکہ ان کے زیر سایہ پیداگیری کرنے والے سارے کردار بشمول معاون خصوصی، مشیران، احسن جمیل گجر اور ان کی اہلیہ پتلی گلی سے ادھر ادھر نکل گئے ہیں۔