ملتان کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے والے… (1)

ملتان کا حال پہلے سے ہی خاصا خراب و خستہ ہے اور اب بارشوں نے اس کا مزید بیڑہ غرق کر دیا ہوگا۔ اور ملتان پر ہی کیا موقوف؟ ان بارشوں نے سارے پاکستان کا حشر کر کے رکھ دیا ہے‘ کیا امیروں کی کالونیاں اور کیا غریبوں کی آبادیاں‘ تقریباً ہر جگہ ایک سا برا حال ہے؛ تاہم جن جگہوں کا حال بارشوں سے پہلے ہی قابلِ رحم تھا ان کے بارے میں تو صرف اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں اب کیا حال ہوگا۔ مثلاً ملتان کی نواب پور روڈ۔ بلامبالغہ ایک سال سے زیادہ ہو گیا ہے اور یہ سڑک اب بھی اس قابل نہیں کہ کوئی اس پر سفر کر سکے۔ اللہ نواز سے دریافت کیا کہ سڑک کا کیا حال ہے تو اس نے بتایا کہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا اُس وقت تھا جب آپ میری اہلیہ کی تعزیت کے لیے آئے تھے اور اپنی گاڑی کھڑی کر کے ایک کلو میٹر پیدل چل کر میرے گھر پہنچے تھے۔ اب اس بات کو سال سے زیادہ ہو چکا ہے۔ میں صرف تصور کر سکتا ہوں کہ بارشوں کے بعد اس سڑک اور اس کے ارد گرد رہنے والوں کا کیا حال ہو گا۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے زکریا ٹائون ملتان میں رہائش پذیر اپنی ایک قریبی عزیزہ کو ملنے کے لیے ادھر آنا ہوتا تھا۔ اپنے ایک دوست کے ہاں تعزیت کے لیے اسی علاقے میں آئے تو ٹوٹی پھوٹی اور خستہ حال سڑک کے حوالے سے ان کی عزیزہ اور دوست نے فرمائش کر دی۔ عثمان بزدار صاحب نے فوری حکم جاری کیا اور چند دن کے اندر اندر سڑک تیار ہو گئی۔ ایک کہاوت ہے کہ ”جلدی کا کام شیطان کا ہوتا ہے‘‘، سو افراتفری میں بنائی گئی نئی نویلی سڑک چند روز بعد ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہو گئی۔ گٹر کے ڈھکن جو ہماری نالائقی کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں اور کبھی سڑک سے اونچے اور کبھی سڑک کی سطح سے کئی انچ نیچے لگائے جاتے ہیں‘ اس خوبصورتی سے لگائے گئے کہ گاڑیوں والے اگر ایک ڈھکن سے ٹکرا کر اچھلتے تھے تو دوسرے ڈھکن کے گڑھے میں گر کر جھٹکا کھاتے تھے لیکن یہ سارے جھنجھٹ جلد ہی ختم ہو گئے اور یہ ڈھکن سرے سے ہی بیٹھ گئے۔ سابقہ ڈپٹی کمشنر عامر کریم نے ان ڈھکنوں کو ٹھیک کروا دیا مگر حالیہ بارشوں نے ہماری تعمیراتی انجینئرنگ کا پول کھول کر رکھ دیا ہے اور شنید ہے کہ جو ڈھکن پچھلی بار بیٹھنے سے بچ گئے تھے وہ اب بیٹھ گئے ہیں۔
عامر کریم کے ذکر سے یاد آیا کہ میں عموماً حکمرانوں اور افسروں کو ملنے سے گریز کرتا ہوں اور دربار سرکار سے دور رہتا ہوں۔ اس میں خدانخواستہ اکڑ وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں۔ فقیری طبیعت میں اکڑ کا بھلا کیا کام ہے؟ بس مزاج ہی ایسا ہے۔ اس لیے ملتان کی بڑی بوڑھیوں والی دعا مانگی تھی کہ ”اللہ حاکم حکیم سے محفوظ رکھے‘‘۔ سو میرے مالک کا کرم ہے کہ اس نے کم از کم اس عاجز کی آدھی دعا تو قبول فرما لی ہے اور اس عاجز کو حاکم کے در کی حاضری سے محفوظ کیا ہوا ہے؛ تاہم دو‘ تین دوستوں کے اصرار پر تب کے وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار سے ملنے کی ہامی بھر لی اوراس ملاقات کا واحد ایجنڈا یہ تھا کہ ملتان کی حالت سنوارنے کے لیے اس شہر کا پیدائشی رہائشی ہونے اور اس شہر کا ممنون احسان ہونے کے ناتے اس کی بہتری کے لیے کچھ تجاویز دے کر اس شہر کے احسانات کا کچھ قرض اتارا جا سکے۔ سو ملنے کی ہامی بھر لی۔ یہ ملاقات سترہ ستمبر 2020ء کو سرکٹ ہاؤس ملتان میں ہوئی جس میں اس عاجز نے وزیراعلیٰ کو نو عدد تجاویز دیں جو صرف اور صرف ملتان اور اس کے اردگرد کے لوگوں کی بھلائی اور فلاح و بہبود سے تعلق رکھتی تھیں۔ ملاقات کے اختتام پر عثمان بزدار نے مجھ سے بڑے معنی خیز انداز میں پوچھا کہ میرے لائق کوئی اور کام ہو تو بتائیں۔ اس فقیر کو بھلا ان سے اور کیا کام ہو سکتا تھا؟ ان کا شکریہ ادا کیا اور مکرر عرض کی کہ بس یہ کام کروا دیں تو عاجز آپ کو تا عمر دعائیں دے گا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ان تمام تجاویز پر مرحلہ وار عملدرآمد کروا دیں گے۔
کچھ عرصہ بعد ملتان میں عامر کریم بطور ڈپٹی کمشنر آئے اور مجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ آپ کی پیش کردہ ان نو تجاویز میں سے کچھ پر عملدرآمد شروع ہو گیا ہے اور اس سلسلے میں انہیں وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو ان میں سے ممکنہ تجاویز پر کام شروع کر دیا جائے۔ ان نو تجاویز میں پہلی یہ تھی کہ ملتان تا ہیڈ محمد والا روڈ کو دو رویہ کیا جائے کہ اس سڑک پر ٹریفک بہت ہی زیادہ بڑھ چکی ہے اور آئے روز اس پر حادثات ہو رہے ہیں جس سے بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہو رہا ہے۔ پھر میں نے ہنس کر سردار عثمان بزدار سے کہا کہ یہ سڑک مستقبل میں آپ ہی کے کام آئے گی کہ ملتان سے تونسہ جانے کے لیے یہ سب سے مختصر اور آسان راستہ ہے۔ ظاہر ہے آپ نے ساری عمر وزیراعلیٰ نہیں رہنا مگر بہرحال تونسہ ضرور جانا ہے، اس بہانے سے ان ہزاروں لوگوں کو آسانی ہو جائے گی۔ یہ ملتان سے لیہ‘ بھکر‘ میانوالی‘ خوشاب‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ بنوں اور پشاور جانے کے لیے سب سے مختصر راستہ ہے۔ اس کو دو رویہ کرنے سے بے شمار مخلوقِ خدا کو آسانی ملے گی۔ وہ اس پر بخوشی راضی ہو گئے۔ اس سلسلے میں ضروری دفتری طریقہ کار سے گزرتے ہوئے بالآخر اس سڑک کی تعمیر کے لیے ٹینڈر اخبار میں آ گیا لیکن اس کے بعد راوی مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس سلسلے میں دوسری تجویز ملتان شہر کے اندر فصیل کے گردا گرد موجود سرکلرروڈ کو کشادہ کرنے کے لیے گزارش کی تھی۔ اس سلسلے میں ملتان کے ایک سابقہ کمشنر بلال بٹ نے‘ جو خود نہ صرف انجینئر تھے بلکہ بہت زیادہ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے‘ ایک باقاعدہ سٹڈی کروا کر ایک فزیبلٹی رپورٹ بھی بنوائی تھی کہ اس سڑک کی کشادگی نہ صرف اندرونِ شہر کے رہائشیوں کے لیے سہولت کا باعث بنے گی بلکہ ان کا طرزِ زندگی اور معاشی گراف بھی کہیں اونچا لے جائے گی مگر جیسے یہ رپورٹ کہیں گرد آلود پڑی ہے‘ ویسے ہی میری یہ تجویز کہیں الماری میں بند پڑی ہے۔ بلامبالغہ لاکھوں لوگ شہر میں چلنے والی ٹریفک کے لیے کہیں ناکافی اس سڑک کے کشادہ نہ ہونے سے عشروں سے قابلِ رحم زندگی گزار رہے ہیں۔
تیسری تجویز نشتر ہسپتال جو اس خطے کا نہ صرف سب سے بڑا ہسپتال ہے بلکہ یہ ارد گرد کے سینکڑوں میل میں واحد تیسرے درجے کے علاج (Tertiary Care) کا ہسپتال ہے اور عرصہ دراز سے مرمت اور دیکھ بھال کے لیے دیے جانے والے فنڈز کے ناکافی ہونے کے باعث ابتری کا شکار ہے۔ دو ہزار مریضوں‘ اکتیس عدد وارڈز‘ پندرہ آپریشن تھیٹرز‘ آؤٹ ڈور اور ایمرجنسی پر مشتمل اس ہسپتال کا سالانہ مرمتی فنڈ محض اڑھائی لاکھ روپے ہے‘ اس میں اضافہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک اور تجویز یہ تھی کہ نشتر ہسپتال کے غسل خانوں اور ٹوائلٹس کی نئے سرے سے تعمیر نو کی جائے کہ اب یہ ناقابلِ مرمت حد تک خراب ہو چکے ہیں۔ اس سلسلے میں عامر کریم خان نے نشتر ہسپتال کے کل 449واش رومز کو نئے سرے سے تعمیر کروانے کے لیے پانچ کروڑ روپے منظور کروا لیے اور کام شروع کردیا۔ اسی دوران صوبے کی سربراہی تبدیل ہو گئی۔ عثمان بزدار کی جگہ حمزہ شہباز نے لے لی۔ حسبِ معمول تبادلوں کا سیلاب آیا اور عامر کریم اس سیلاب میں بہہ گئے۔ لاگت بڑھ جانے کے باعث باتھ رومز کی تعداد کم کرکے 225 کر دی گئی۔ جون میں فنڈ لیپس ہوگیا تو بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ نے واش رومز کی تعداد مزید کم کر دی۔ (جاری)
تصحیح: گزشتہ کالم میں شاہ محمود قریشی کے بھانجے کا نام احمد کبیر قریشی چھپ گیا جبکہ ان کا اصل نام سیف احمد قریشی ہے۔