معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
تباہی کا منصوبہ
تصور کریں ہر ہفتے کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم صاحب کے سامنے ای سی سی کے فیصلے لائے جاتے ہوں‘ گندم کم پڑ گئی‘ باہر سے منگوانے کا ٹینڈر دینا ہے، اگلے ہفتے پتہ چلے چینی کم پڑ گئی ہے‘ اس سے اگلے ہفتے پھر ای سی سی منٹس لائے جائیں کہ جناب دالیں ملک میں کم پڑ گئی ہیں وہ منگوانی ہیں، چوتھے ہفتے پتہ چلے کاٹن کم ہے دو ارب ڈالرز کی منگوانی ہے اور اوپر سے کھاد نہیں مل رہی تو دو لاکھ ٹن چین سے منگوا لیں‘ اور وہ سربراہ حکومت پھر بھی بلڈرز اور ٹھیکیداروں میں سوا لاکھ دریائی اور زرخیز زمینیں بانٹ رہا ہوکہ دھرتی کے سینے میں بیج کے بجائے سیمنٹ، سریا، بجری ٹھوک دو‘ تو آپ کو کیسا لگے گا؟
ہو سکتا ہے آپ کو لگے‘ میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ وزیر اعظم صاحب کو تو کھیتوں میں کسانوں کے ساتھ ہونا چاہئے تھاکہ انہیں کھاد نہیں ملی، مہنگی زراعت ہے‘ گندم اس سال پھر کم ہو سکتی ہے۔ انہیں تو اپنے ڈالرز بچانے کے لیے کسانوں کے منت ترلے کرتا پایا جانا چاہئے تھا کہ وہ اپنی زمینیں ہرگز بلڈرز یا ٹھیکے داروں کو نہ بیچیں‘ وہ اپنے باغات اور کھیت بچائیں۔ وزیر اعظم کو تو نئے سخت قوانین بنانے چاہئیں کہ کوئی دریائی، زرخیز یا زرعی زمین بلڈرز کو نہیں بیچی جا سکتی بلکہ انہیں تو فوراً ایسی سوسائٹیز پر پابندی لگا دینی چاہئے تاکہ اس ملک کی زراعت کو مزید برباد ہونے سے روکا جائے۔اب کابینہ اجلاس میں سوال اٹھتا ہے کہ اربوں ڈالرز کہاں سے آئیں گے جس سے گندم، دالیں، پام آئل، چینی اور کاٹن منگوائی جائے گی تو وزیر اعظم سعودی عرب سے دو تین ارب ڈالرز ادھار مانگ لیتے ہیں اس شرط پر کہ جہاں ان پر تین فیصد سے زائد سود ہو گا‘ وہیں پاکستان یہ اڑتالیس گھنٹوں میں واپس کرے گا اگر واپس مانگ لیے گئے۔ پھر کابینہ میں ہی پتہ چلا کہ گندم دوبارہ کم پڑ گئی ہے اور روس سے منگوانی ہے، چینی بھی پوری نہیں ہورہی تو اس بار چین سے ادھار مانگا جاتا ہے۔ پھر دو ارب ڈالرز کی کاٹن منگوانی ہے تو ابھی ایک اور موٹروے گروی رکھ کر ایک ارب ڈالرز کے سکوک بانڈز جاری کیے گئے ہیں جن پر پرافٹ 7.50 فیصد بتایا جارہا ہے۔
اس وقت تیل، گیس کے بعد سب سے بڑی امپورٹ زرعی اشیا کی ہورہی ہے اور مہنگائی عروج پر ہے کیونکہ سب کچھ ڈالرز دے کر منگوایا جاتا ہے اور ملک میں ڈالرز بھی نہیں ‘ جو ہیں‘ ان کا ریٹ ایک سو اسی روپے تک پہنچا ہوا ہے۔ اگر ہم زراعت پر فوکس کرتے تو آج پاکستان سعودیوں، چینیوں یا آئی ایم ایف سے اربوں ڈالرز قرضہ مانگ کر گندم، چینی، کاٹن، دالیں یا پام آئل امپورٹ نہ کرتا بلکہ آج یہ دس ارب ڈالرز ہم خود کماتے جب دنیا کو خوراک کی ضرورت پڑ گئی ہے۔ ابھی ہم نے ایک ارب ڈالرز کی چالیس لاکھ ٹن گندم روس کے کسانوں سے خریدی ہے۔ اندازہ کریں یہ ایک ارب ڈالر ہم کما سکتے تھے لیکن ہم گاہک بن کر رہ گئے ہیں۔
جب پاکستان دس ارب ڈالرز کی اشیا باہر سے قرضہ لے کر منگوا رہا ہے اس وقت آپ کو اپنی زمینوں کو بچانے کی ضرورت ہے یا ٹھیکیداروں کو دینے کی؟ بڑی مزے کی بات ہے‘ ایک ماہ پہلے ہی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم نے فیصلہ کیا تھاکہ زرعی زمینیں کسی صورت بلڈرز کو نہ دی جائیں بلکہ یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ ہائوسنگ سوسائٹیز وغیرہ کے اختیارات ڈپٹی کمشنر یا کمشنر سے لے کر صوبائی کابینہ کو دیے جائیں۔ مطلب پہلے بابوز لمبا ہاتھ مارتے تھے اب ایم پی ایز، ایم این ایز، صوبائی وزیر یا وزیراعلیٰ تک بھی ‘برکت‘ پہنچے اگر منظوری لینی ہے‘ لیکن اب ایک ماہ بعد وہی وزیراعظم اجڑے ہوئے دریائے راوی کے کنارے کھڑے ہوکر کالے سن گلاسز لگا کر سوا لاکھ ایکڑ بلڈرز کو دے رہے ہیں۔ ساتھ میں وہ یہ بھی فرما رہے ہیں کہ یہ ہائوسنگ سوسائٹی نہیں بن رہی بلکہ ایک نیا شہر بن رہا ہے۔ مطلب یہ کہ سوا لاکھ ایکڑ زرعی زمین نئے شہر کے لیے دی جاسکتی ہے لیکن ہائوسنگ سوسائٹی کے لیے نہیں۔ حیرانی ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں‘ کہاں سے آئے ہیں اور اس ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ کیا اس لیے کہ بلڈرز بہت عزیز ہیں کیونکہ وہ کھل کر چندہ دیتے ہیں۔ رشوت کا نام اب چندہ رکھ دیا گیا ہے۔ مطلب کان ایک ہاتھ سے نہیں‘ دوسرے سے پکڑ لو۔
یہ بلڈرز صرف زرعی، زرخیز اوردریائی زمینوں پر ہی کیوں حملہ آور ہوتے ہیں؟ اگر دبئی اور دیگر عرب ممالک اپنے صحرا آباد کرسکتے ہیں اور نئے شہر بسا سکتے ہیں تو یہاں بلڈرز اور ٹھیکیدار کیوں ہمارے بچوں کے مستقبل کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں؟ میں کچھ عرصہ پہلے ملتان گیا تو صدمے کا شکار ہواکہ جہاں ملتان کے اردگرد تاحد نظر آسمان اور ہرے بھرے کھیت نظرآتے تھے وہ سب غائب تھے۔ جہاں آموں کے باغات تھے وہاں بڑی بڑی عمارتیں بن چکی تھیں۔ گرمی‘ جو پہلے ہی ملتان اور دیگر علاقوں میں زیادہ ہوتی تھی‘ کی شدت بڑھ چکی ہے۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ مری میں مدت بعد برف کا طوفان آیا جو بائیس لوگوں کی جان لے گیا۔ اب ہو سکتا ہے سیلاب آئیں‘ جیسے پہلے دو ہزار دس میں آیا تھا اور بڑے پیمانے پر بربادی کرگیا تھا۔ لاہور کی یہ حالت ہوچکی ہے کہ وہاں سموگ نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ اکبر چوہدری امریکہ سے آئے ہوئے تھے۔ چند دن لاہور میں گزارنے کے بعد اسلام آباد نکل آئے کہ گلا گرد اور سموگ نے پکڑ لیا تھا۔ یاد پڑتا ہے محکمہ موسمیات کے ایک افسر نے بتایا تھا کہ کچھ برس بعد لوگ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سے ہجرت کر جائیں گے کیونکہ یہ تینوں شہر آلودگی کا شکار ہورہے ہیں اور وہاں انسانوں کا جینا حرام ہو جائے گا۔ جس وقت موسم بے چین ہورہے ہیں اور ہمیں اپنی زراعت اور ماحول کو بچانا ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیاں ہم پر گھنائونے اثرات نہ ڈالیں اس وقت ہی حکمرانوں نے سوا لاکھ ایکڑ زمین بلڈرز کو دینے کی ٹھان لی ہے۔ اب آپ بتائیں‘ جب لاہور شہر کی شہ رگ پر یعنی سوا لاکھ ایکڑ دریائی زمین پر لاکھوں ٹن سیمنٹ، سریا، بجری ڈالی جائے گی، کھدائیاں ہوں گی وہاں ٹمپریچر کہاں جا پہنچے گا؟ آپ یاد رکھیں جو بلڈرز اب کہہ رہے ہیں کہ دریائے راوی کا پانی ٹھیک کر دیں گے یہی لوگ دھیرے دھیرے اسی دریا میں پتھر اور مٹی ڈالنا شروع کرکے اس پر بھی عمارتیں تعمیر کردیں گے۔ ہمارے اکثر دریا‘ جھیلیں اسی طرح ان بلڈرز کے قبضے میں گئی ہیں۔ کئی سوسائٹیز قبرستان، پارکس تک کی زمین کھا گئی ہیں۔
شکر ہے لاہور ہائیکورٹ نے اس پروجیکٹ کو غلط قرار دے کر روک دیا ہے‘ لیکن وزیراعظم اب بھی ڈٹے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ وہ اب سپریم کورٹ کو خود سمجھائیں گے کہ سوا لاکھ ایکڑ دریائی زمین ٹھیکیداروں اور چندہ گروپ کو دینا کتنا ضروری ہے چاہے قوم کل کو کنسٹرکشن میٹریل کھائے۔ ہم امید کرتے تھے خان صاحب اس اجڑے راوی دریا کو جاکر دوبارہ آباد کرائیں گے‘ وہاں کے کسانوں کو حوصلہ دیں گے لیکن وہ الٹا ارب پتی ٹھیکیداروں کو بغل میں لیے سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے بھارتی مورخ ابراہم ارلی کی سلطنت دہلی کے مسلمان حکمرانوں کے تین سو سالہ اقتدار پر شاندار کتاب پڑھی تھی۔ ان تین سو سالوں میں 33 حکمرانوں نے دہلی پر حکومت کی۔ ان میں سے صرف تین اچھے حکمران تھے اور ان کا دور حکمرانی بھی سب سے کم تھا۔ ہمیں تو ان چوہتر برسوں میں ابھی تک ایک بھی نہیں ملا، دیکھتے ہیں‘ شاید اگلے 74 برسوں میں ایک مل جائے‘ وہ بھی دو تین سال کیلئے کیونکہ اچھے درد دل رکھنے والے حکمران نہیں ملتے۔ مل بھی جائیں تو دو تین سال سے زیادہ نہیں رہتے۔ کم از کم دہلی کے مسلمان بادشاہوں کی تاریخ تو یہی بتاتی ہے۔