ایک دوسرے کو برے القابات سے مت پکارو

سچ پوچھیں تو اب ملک کی سیاسی اخلاقیات سے باقاعدہ مایوسی سی ہوتی جا رہی ہے اور کسی بہتری کی توقع سے جی اٹھتا جا رہا ہے۔ گفتگو کا معیار‘ تقریروں کی زبان اور بیانات کی گراوٹ اس درجہ پستی میں جا چکی ہے کہ افسوس سے زیادہ مایوسی اور دلگرفتگی کی کیفیت طاری ہے۔ سیاست میں مخالفت نہ تو حیران کن شے ہے اور نہ ہی غیر معمولی چیز ہے کہ سیاست تو اسی کشمکش کا نام ہے جس میں فریقین اپنا اپنا نظریہ‘ منشوراور پروگرام دیتے وقت مخالفین کے لتے بھی لیتے ہیں اور بخیے بھی ادھیڑتے ہیں‘ لیکن ان سب میں اخلاقیات کا دامن نہیں چھوڑا جاتا اور بات اصولی اختلافات اور منطقی دلائل سے آگے نہیں جاتی ‘مگر افسوس‘ صد افسوس کے ہمارے ہاں سیاست میں اخلاقیات تو یوں سمجھیں کہ گویا رخصت ہی ہوتی جا رہی ہے۔
ویسے تو ہمارے ہاں اپنے سیاسی مخالفین کو برے برے القابات سے پکارنا اور ان کا ٹھٹا اڑانا کوئی آج کی بات نہیں۔ ہمارے ہاں یہ میری یادداشت کے مطابق کم از کم پینتالیس چھیالیس سال پرانی ہے؛ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں بہتری یا کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہوا ہے اور ہماری سیاسی اخلاقیات مسلسل ترقیٔ معکوس کی جانب گامزن ہے۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ ساری تقریر میں ایک آدھ جملہ‘ اکا دکا جگتیں‘ ایک دو پھبتیاں اور دو چارطنزیہ فقروں پر بات تمام ہو جاتی تھی لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ساری کی ساری تقریر اور ساری کی ساری گفتگو ہی دشنام طرازی‘ القاب بازی اور طعن و تشنیع کی نذر ہو کر رہ گئی ہے۔ میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ چلیں ہماری تو گزر گئی ہے‘ ہم اپنی اگلی نسل کیلئے کیا رول ماڈل چھوڑ کر جا رہے اور ان کیلئے کیا معیار بنا کر جا رہے ہیں؟
پوائنٹ سکور کرنا‘ فریق ثانی کی ناکامیوں پر روشنی ڈالنا‘ مخالف کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا‘ فریق مخالف کی کرپشن اور بدعنوانی کو اجاگر کرنا جمہوریت کا حسن بھی ہے اور ہرفریق کا حق بھی۔ اس سارے عمل میں استعمال ہونے والی زبان کا معیار اور طرزِ تخاطب کو اگر اخلاقیات کے دائرہ کار میں رکھتے ہوئے تنقید کی جائے تو اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں اور مہذب معاشروں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر دلائل و براہین میں جان ہو تو اخلاقیات کے معیار سے گرے بغیر بھی آپ کی بات میں دم ہو گا اور اس کی اثر پذیری کسی صورت کم نہیں ہو گی‘ لیکن ہماری سیاست میں دوسرے کو رگڑا لگانے کیلئے بد زبانی اور بدکلامی کا جو چلن زور پکڑ رہا ہے اگر اسے اب نہ روکا گیا تو ہمارے سیاسی مباحثوں‘ جلسوں کی تقریروں اور پریس کانفرنسوں کی گفتگو محض پھکڑ پن بن کررہ جائے گی۔ خدا نہ کرے کہ ہمارا سیاسی سٹیج گرتے گرتے بالآخر سٹیج ڈراموں کے معیار پر آ جائے جنہیں کوئی بھی شخص اب اپنی فیملی کے ساتھ دیکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حال یہ ہے کہ ہمارے سیاسی تھیٹر اور سٹیج ڈراموں والے تھیٹر کے اخلاقی معیار کا باہمی فاصلہ روز بروز کم ہوتا جا رہا ہے۔ خدا خیر کرے!
جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ اس رویے کی ابتدا نئی نہیں؛ تاہم اس میں جو زور و شور تحریک انصاف نے پیدا کیا ہے اس سے لگتا ہے کہ شاید یہ تحریک انصاف اور عمران خان کی ایجاد ہے حالانکہ ایسا نہیں۔ فی الوقت تو میں صرف اپنی یادداشت کی حد تک بات کروں گا‘ ممکن ہے یہ معاملہ اس سے بھی پرانا ہو لیکن میری یادداشت میں اس قسم کا جو اولین نقش ہے وہ 1977ء کے الیکشن سے پہلے مرحوم ذوالفقار علی بھٹو کی تقریروں نے کندہ کیا ہے۔ بھٹو صاحب بڑے عوامی مقرر تھے اور اپنے مخالفین کو ہر طرح کا رگڑا لگانے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پر پوری طرح عمل بھی کرتے تھے۔ دلائی کیمپ تو انہی کے زمانے میں ایک استعارہ بنا اور سیاسی مخالفین کو آخری حد تک جا کر اذیت اور تکلیف پہنچانے کے معاملے میں بھی وہ ہمارے پہلے جمہوری حکمران تھے جن کے زمانے میں ان کے سیاسی مخالفین کو شاہی قلعے کی زیارت نصیب ہوئی۔ انتخابات میں مخالف امیدواروں کو اغوا کرنے کی روایت نے جنم لیا۔ اسمبلی میں اپنے شدید ناقدین کو راہیٔ عدم کرنے کی بدعت ایجاد کی۔ میاں طفیل محمد جیسے نجیب آدمی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ مولانا جان محمد عباسی کے اغوا سے لے کر ڈاکٹر نذیر احمد کی شہادت تک مخالفین کو دبانے‘ چپ کروانے اور رگڑا لگانے کی ایک طویل داستان ہے لیکن اپنے مخالفین کو برے القابات اور ناموں سے پکارنے کی روایتِ بد کا آغاز بھی بدقسمتی سے انہی کے کھاتے میں لکھا جائے گا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ خان عبدالقیوم خان کو ڈبل بیرل خان کے لقب سے پکارتے تھے۔ چلیں! یہاں تک تو خیر ہے لیکن وہ مرحوم اصغر خان کیلئے ”آلو‘‘ کا نام استعمال کرتے تھے اور مرحوم میاں ممتاز دولتانہ کو چوہا کہہ کر ان کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ ان کے بعد بھی حالات میں بہتری کے بجائے تنزلی ہی ہوئی‘ کوئی کسی کو پیلی ٹیکسی کا جملہ اچھالتا تھا اور کوئی اسمبلی کے فلور پر شیر کے حوالے سے ایسی ذومعنی بات کرتا تھا کہ قلم اس کو دہرانے کی تاب نہیں لا سکتا۔ ہمارے ہاں عجب شرمناک صورتحال ہے کہ معاملات بہتری کی طرف جانے کے بجائے خرابی کی طرف گامزن ہیں اور سیاست میں تہذیب رفتہ رفتہ رخصت ہوتی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف اور اس کے بانی عمران خان نے تو اس روایت کو نئی جہتیں عطا کیں اور سوشل میڈیا سے لے کر جلسہ عام تک اپنے مخالفین کی بدکلامی اور دشنام طرازی کے زور پر وہ درگت بنائی کہ شرفا تو ”پسینو پسینی‘‘ ہو کر پی ٹی آئی کے بارے میں کچھ کہنے سننے سے تائب ہو گئے۔ زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ کام ان کے ہاتھوں بامِ عروج پر پہنچا جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے دعویدار تھے اور مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس پر کسی کو شرمندگی نہیں۔
خان صاحب جب حکومت میں نہیں تھے تب بھی مخالفین کیلئے خاصی سخت زبان استعمال کرتے تھے اور انہیں چور‘ ڈاکو وغیرہ کے لقب سے پکارتے تھے لیکن جنہیں وہ تب چور‘ ڈاکو کہتے تھے ان کی کرپشن کے تناظر میں یہ القابات کسی کو نامناسب نہیں لگتے تھے مگرجوں جوں اللہ انہیں عزت دیتا گیا اور ان کے دنیاوی درجات بلند ہوتے گئے ان کی زبان کی کاٹ اور تندی بڑھتی گئی۔ یہ بات طے ہے کہ اپوزیشن کے عام لیڈر اور سربراہ مملکت کی زبان اور گفتگو میں بہرحال فرق ہونا چاہیے جو خان صاحب نے مٹا کر رکھ دیا ہے۔ مخالفین کو بوٹ پالش کرنے والا کہنا۔ اوئے سے مخاطب کرنا‘ بندوق کی شست پر رکھنے جیسے الفاظ استعمال کرنا‘ فضلو کے نام سے للکارنا اور اپنی بات کی تائید نہ کرنے والوں کو جانور قرار دینا ایسی روایات کا آغاز ہے جس سے ہماری پہلے سے گہنائی ہوئی سیاسی روایات مزید بدنما ہو گئی ہیں۔
ایسی باتیں اقتدار سے محروم لوگ اگر فرسٹریشن میں کریں تو چلیں بات سمجھ میں آتی ہے لیکن مسندِ وزارتِ عظمیٰ پر بیٹھے ہوئے مقتدر شخص سے ایسی زبان کی توقع بہرحال نہیں کی جا سکتی اور خاص طور پر جبکہ وہ اپنے ملک کو ریاست مدینہ قرار دیتا ہو اور خود کو اس مقدس نام سے معنون کی گئی ریاست کی روایات کا امین بھی سمجھتا ہوں۔ خود کو ریاست مدینہ کاحکمران کہنے کیلئے ضروری ہے کہ بندہ احکاماتِ خداوندی کی پابندی کرے۔ سورۃ الحجرات کی آیت نمبر گیارہ میں بڑے واضح طور پر اللہ نے حکم دیا ہے کہ وَلَا تلمِزْوا انفْسَکْم ولاتنا بَزْواْ بِالاَلقاب‘ ترجمہ: آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ہی ایک دوسرے کو برے القابات سے پکارو۔ یہ میرے مالک کا حکم ہے اور ریاستِ مدینہ کی حکمرانی کے دعویدار کو یہ رویہ سجتا نہیں۔ کالم اختتام کو پہنچا لیکن سوچتا ہوں کہ پہلے کسی نے ہماری کب سنی ہے جو اب سنے گا؟ تاہم کہنا تو ہمارا فرض ہے۔