کہیں پانی سر سے نہ گزر جائے

ایمانداری کی بات ہے کہ ملک میں اس وقت وہ صورتحال ہے جس کیلئے لغت میں کوئی ایک لفظ ایسا نہیں کہ وہ اس کی درست منظر کشی کر سکے۔ جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ دیتا ہے اور جس کا جو جی چاہتا ہے کر رہا ہے۔ عدل‘ انصاف اور قانون وغیرہ نامی چیزیں ہم عام تام لوگوں کیلئے باقی رہ گئی ہیں۔ اگر کسی تگڑے اور زور آور کا دل کرے اور وہ قانون کی کسمپرسی پر ترس کھاتے ہوئے از راہ ِکرم اس کا احترام کرے تو اس کی مہربانی وگرنہ کوئی پوچھنے والا تو بہرحال موجود نہیں ہے۔
گزشتہ سے پیوستہ کالم میں ایک دوست کے حوالے سے لکھا تھا کہ اس نے حنیف عباسی ایفیڈرین والے کے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی مقرر کیے جانے پر میرے استفسار پر بتایا تھا کہ موصوف کو اس بلند منصب پر اس لیے تعینات کیا گیا ہے کہ وہ مخالفین کی بے عزتی کرنے‘ دشنام طرازی کرنے اور پگڑی اچھالنے میں اپنا ایک خاص مقام رکھتے ہیں اور انہیں وزیراعظم کا معاونِ خصوصی بنانے کے پس منظر میں ان کی یہی خوبیاں تھیں کہ فی الوقت حکومت کو عمران خان اینڈ کمپنی کو زبانی کلامی محاذ پر رگڑا لگانے کے لیے جس قسم کے لوگوں کی ضرورت ہے‘ حنیف عباسی اس ساری اہلیت پر پورا اترتا ہے‘ اس لیے موصوف کو سرکاری سطح پر لوگوں کی بے عزتی کرنے کے لیے یہ عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
ہمارے اس دوست کا اندازہ سو فیصد درست نکلا اور حنیف عباسی نے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی بدرجہ وفاقی وزیر بنتے ہی اپنا پہلا سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ شیخ رشید کی وِگ اتارنے والے کو مبلغ پچاس ہزار روپے انعام عطا کریں گے۔ ایمانداری کی بات ہے کہ میں یہ بیان پڑھ کر مزید دکھی ہوا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ ہمارے ملک کا سیاسی کلچر کس طرف گامزن ہے اور مستقبل میں اس ملک میں کیا صورتحال ہوگی؟ کیا ایسی صورت میں کوئی بھی شریف آدمی اپنی الیکشن کمپین اس صورت میں چلا سکے گا کہ اسے کسی جلسہ ٔعام میں جوتے نہ پڑیں‘ اس پر سیاہی نہ پھینکی جائے‘اس کا منہ نہ کالا کیا جائے اور اس کو باقاعدہ تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ میرا خیال ہے کہ آئندہ الیکشن میں یہ سب کچھ ہونے کے امکانات سو فیصد کے لگ بھگ ہی سمجھیں تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ حنیف عباسی کا بیان مستقبل کی امکانی صورتحال پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ کسی حکومتی ذمہ دار نے اس بیان کی مذمت نہیں کی۔
اگلے روز اخبار میں اس بیان کے حوالے سے حنیف عباسی کی جانب سے تصحیح کی گئی تو میں نے خوامخواہ ہی اندازہ لگایا کہ یقینا معاونِ خصوصی موصوف کو شاید وزیراعظم نے یا کسی اور ذمہ دار نے سمجھایا ہوگا کہ اب ہم اپوزیشن میں نہیں بلکہ حکومت میں ہیں اور اس قسم کی اشتعال انگیزی کم از کم ہمیں زیب نہیں دیتی اور ویسے بھی اگر یہ چلن چل نکلا تو زیادہ پھینٹی حکمرانوں کی لگے گی کہ نوجوانوں کی اکثریت تو فی الوقت عمران خان کے ساتھ ہے اور اگر اس قسم کا مقابلہ چل پڑا تو خود حنیف عباسی کی واسکٹ بچے بالے بانس پر لٹکا کر راجہ بازار میں نعرے مارتے پھریں گے اور سارے پاکستان سے موجودہ حکمران اتحاد کے امیدواروں کی اتنی وگیں اتار کر شیخ رشید کو تحفے میں بھجوائیں گے کہ شیخ صاحب اگر روز نئی وگ بھی لگائیں تو ایک سال مزے سے گزار سکتے ہیں۔
جب میں نے حنیف عباسی کا درست شدہ بیان پڑھا تو علم ہوا کہ حنیف عباسی نے شیخ رشید کی وِگ اتارنے کے اپنے بیان کی تردید نہیں کی بلکہ انعامی رقم بڑھاتے ہوئے اسے پچاس ہزار روپے سے پانچ لاکھ روپے کر دیا ہے۔ جس ملک میں لوگ چند روپوں کی خاطر دوست کی جان لے لیں‘ چند ہزار روپے کی خاطر یتیموں کا حق مار لیں اور چند لاکھ کی جائیداد کے لالچ میں ماں باپ کو گھر سے نکال دیں وہاں پانچ لاکھ روپے کی خاطر کسی کی وِگ اتار کر دو چار دن جیل چلے جانا اور اپنی سیاسی پارٹی کے لوگوں میں ہیرو بن جانا بھلا کون سا مشکل کام ہے؟ لیکن یاد رہے کہ یہ جن ایک بار بوتل سے پوری طرح نکل آیا تو پھر اسے دوبارہ بوتل میں بند کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔ لوگوں کی وگیں برسر عام اتریں گی‘ لیڈروں کو جلسوں میں جوتے پڑیں گے‘ الیکشن کمپین کے دوران امیدواروں کو تھپڑ اور گھونسے بھی پڑیں گے۔ ایسے میں خدا نہ کرے کہ کسی کی جان چلی جائے ‘مگر یاد رہے کہ تشدد کی شروعات ہوجائیں تو اس کی انتہا کے بارے میں آپ کے سارے اندازے غلط ثابت ہو جاتے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکانِ اسمبلی پروٹوکول کے نام پر حفاظتی حصار میں ہیں۔ آج کل ہر لوٹا‘ میرا مطلب ہے ہر منحرف رکن اسمبلی اپنے دوستوں کو بہت خوش ہو کر یہ بتا رہا ہے کہ نئی حکومت نے اس کے ساتھ ماضی میں ہونے والی ان ناانصافیوں کا ازالہ کر دیا ہے جن سے تنگ آ کر اس نے اصولی بنیادوں پر اپنی پارٹی چھوڑی تھی اور اسے بہت زیادہ پروٹوکول اور عزت بخشی جا رہی ہے۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ساتھ چلنے والے دو عدد ”ڈالوں‘‘ کی طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ یہ دو عدد ڈالے مع دس عدد پولیس اہلکار جن کی سربراہی ایک عدد ڈی ایس پی کر رہا ہے موجودہ حکومت نے اسے ازراہِ پروٹوکول عطا کیے ہیں‘ حقیقت جاننے والے دل ہی دل میں ہنستے ہیں کہ عوامی غیظ و غضب اور اپنے حلقے کے ووٹروں کے متوقع ردعمل سے ڈرے سہمے ہوئے یہ ارکانِ اسمبلی جسے پروٹوکول کا نام دے رہے ہیں دراصل یہ ان کا وہ حفاظتی دستہ ہے جس کے بغیر اب نہ تو وہ آزادانہ نقل و حرکت کر سکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حلقے میں لوگوں سے اس طرح گھل مل سکتے ہیں جس طرح وہ اپنے حلقے کے ووٹروں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانے سے قبل بے خطر اور بے دھڑک مل لیتے تھے۔
یہ ابھی ابتدا ہے۔ آگے آگے دیکھئے کیا ہوتا ہے؟ یہ بات درست ہے کہ سیاسی عدم برداشت کو جتنا بڑھاوا سابقہ حکمرانوں نے یعنی پی ٹی آئی والوں نے دیا تھا اس کی مثال بھی ہمارے ہاں کم ہی ملتی ہے لیکن یہ بات طے ہے کہ خرابی کا مقابلہ خرابی سے کر کے کبھی درست نتیجہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور ایک خرابی کا جواب دوسری خرابی سے دے کر کبھی درست جواب حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ جلتی آگ پر تیل ڈال کر یہ توقع کرنا کہ آگ کی شدت کم ہو جائے گی حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ حکمران جماعت کا کام جلتی آگ پر مزید تیل ڈالنا نہیں بلکہ پانی ڈالنا ہوتا ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے بھی اس خرابی کا حل نکالنے کیلئے اپنے زبانی کلامی گولہ باری کرنے والے منہ زور بریگیڈ کو از سرِ نو فعال کر دیا ہے اور اپنے سارے بد زبان لوگوں کو بے لگام چھوڑ دیا ہے۔
اس ساری صورتحال کا جو متوقع نتیجہ کم از کم مجھے نظر آ رہا ہے وہ کچھ خوشگوار نہیں اور صورتحال اس حد تک خرابی کی طرف جا رہی ہے کہ اب سیاسی مخالفت نظریات‘ گفتگو اور دلیل کی حد سے نکل کر عدم برداشت کی اس حد تک پہنچ چکی ہے جہاں سے تشدد کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر حالات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو آئندہ الیکشن میں ایسی جوت پیزار دیکھنے کو ملے گی کہ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس نئی افتاد کے رگڑے میں سبھی آئیں گے‘ کوئی کم اور کوئی زیادہ۔ کیا معزز اور کیا کوئی تگڑم خان۔ اس ریلے میں سبھی بہہ جائیں گے‘ امان کسی کو نہیں ملے گی۔ ساری ملکی سیاسی قیادت کو اس بارے میں سنجیدہ قدم اٹھانا ہوگا ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے اور معاملہ سب کے ہاتھ سے نکل جائے۔