پتلی گلی سے فرار

جس طرح پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت مٹی کا ڈھیر ثابت ہوئی ہے‘اس کا شاک اتنا زیادہ ہے کہ اس جماعت کے حامی صدمے کی کیفیت میں ہیں۔ انہیں یقین نہیں آرہا ہے کہ چند دن پہلے تک جن لیڈروں کی تقریروں سے درو دیوارہل جاتے تھے‘حکومتیں کانپ جاتی تھی‘ مخالفوں پر سناٹا طاری ہوجاتا تھا‘ وہی جماعت ایک ہفتے کے اندر اندر تنکوں کی مانند بکھر گئی ہے۔
جب پارٹی کا ترجمان اور سیکرٹری جنرل ہی چھوڑ جائے تو پھر کارکنان میں بددلی اور خوف کا پھیلنا ضروری ہے۔ خان صاحب نے بڑی محنت سے اپنی جارحانہ ٹیم تیار کی تھی‘ سوشل میڈیا کے لیے الگ ٹیمیں تیار کی گئیں جبکہ سڑکوں پر پولیس اور فورسز سے لڑنے کے لیے خیبرپختونخوا کے جنگجو نوجوانوں سے باقاعدہ حلف لیا گیا کہ وہ بھاگیں گے نہیں۔ اس صوبے کے نوجوان بھی سب کچھ چھوڑ کر کچھ دن لاہور میں زمان پارک کے باہر اچھا شغل میلہ کرتے رہے۔ ایک دفعہ پولیس کے ساتھ ٹکرا گئے‘ درجنوں زخمی ہوئے‘ ایک آدھ جان سے گیا‘لیکن اس لڑائی سے یہ تاثر ابھرا کہ نوجوانوں نے زمان پارک پر پولیس کا پہلا حملہ پسپا کر دیا ہے۔ یوں ان کے حوصلے بڑھ گئے اور اس کا نتیجہ نو مئی کو نکلا جب لاہور کور کمانڈر ہاؤس کو جلایا گیا‘ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا‘ میانوالی میں جہاز کو جلایا گیا‘ ائیرفورس بیس پر حملہ کیا گیا۔
عمران خان ایک بات نہ سمجھ سکے کہ جس دن سپریم کورٹ نے انہیں ضمانت دے کر پروٹوکول کے ساتھ ایک فاتح کی طرح لاہوربھجوایا اس وقت انہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت تھی۔ اس دن وہ اپنی مقبولیت اور طاقت کی معراج پا چکے تھے۔اس وقت انہیں ٹھہرائو کی ضرورت تھی۔ انہیں اس وقت جوش سے زیادہ ہوش کی ضرورت تھی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو اندازہ تھا کہ عمران خان کے حامی جو کارنامہ ان کی گرفتاری پر سرانجام دے چکے ہیں وہ کوئی بڑا گل کھلائے گا‘ لہٰذا چیف جسٹس نے بہترین مشورہ خان صاحب کو دیا کہ وہ عدالت سے باہر نکل کر نو مئی کے واقعے کی مذمت کریں۔ خان صاحب نے ڈپلومیسی سے کام لیا کہ جناب وہ تو اندر بند تھے انہیں کیا پتہ کہ باہر کیا ہورہا تھا۔ چلیں اگر پتہ نہیں تھا تو انہیں اب عدالت نے بتا دیا تھا‘ انہیں سمجھداری سے باہر نکلتے ہی پریس کانفرنس کرنی چاہئے تھی اور اپنی اس وکٹری کو سنبھال کر رکھنا چاہیے تھا۔ اس دن وہ پوری ریاست پر اکیلے بھاری پڑ گئے تھے۔ حکومت‘نیب اور ہزاروں اہلکار ان سے شکست کھا گئے تھے۔ انہوں نے اپنے حامیوں کے زور پر اکیلے ہی سب سے نمٹ لیا تھا۔ اس موقع پر کوئی بھی بندہ ہوتا تو وہ حواس کھو بیٹھتا کہ جو لوگ دو دن پہلے آپ کو گھسیٹتے ہوئے لے گئے وہی پورے پروٹوکول کے ساتھ لاہور گھر چھوڑنے جارہے تھے۔
شاید خان صاحب کو بھی سپریم کورٹ سے نکل کر وہی لگاجو نوازالدین صدیقی کو نیٹ فلیکس کی سیریز Sacred Games میں لگا تھا کہ ‘کبھی کبھی تو اپن کو لگتا ہے کہ اپن ہی بھگوان ہے‘۔ شیکسپیئر کا جملہ بھی عام ہے کہ خدا جب کسی کو سزا دینے پر آتا ہے تو پہلے اس کا دماغ خراب کرتا ہے۔ خان صاحب کو گھر پہنچتے ہی بتایا گیا کہ نیب افسران بشریٰ بیگم کو پکڑنے آئے تھے۔ اس بم شیل خبر پر خان صاحب نے پہلے نیب افسران کو گالی دی جو کیمرے پر ریکارڈ ہو کر پوری دنیا میں پھیل گئی اور پھر فوراً خان صاحب نے فرمایا ان کی لائیو تقریر کا بندوبست کیا جائے۔ پھر انہوں نے لائیو نیب اور ان کے ہینڈلرز کو گالیاں دیں اور پھر ڈی جی آئی ایس پی آر کو خوب سنائیں۔میرے خیال میں یہ وہ لمحہ تھا جب فیصلہ ہوا کہ اب کافی ہوگیا۔ نو مئی کی تپش پہلے سے موجود تھی۔ عدالت نے عزت کے ساتھ خان کو رہا کر کے انہیں وہ بارو ددے دیا تھا جس کی مدد سے وہ اب سب کچھ جلانے پر تُل گئے تھے۔ خان صاحب کے ہاتھ لگی جس ماچس سے انہوں نے پہلے دوسروں کو جلایا تھا اب اسی سے اپنا گھر جلا بیٹھے۔ بار بار انٹرویوز میں کہہ رہے ہیں کہ وہ تو آرمی چیف سے ملنے کو تیار ہیں‘کئی پیغامات بھجوائے ہیں لیکن ان کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔اب وہ کیاکریں۔
اب ان کی پارٹی کی بوری سے لیڈر دانوں کی طرح گر رہے ہیں۔لوگ اندھا دھند روزانہ خان صاحب کو چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں۔ اب خان صاحب اور ان کی سوشل میڈیا ٹیمیں جو کبھی سنبھالی نہیں جاتی تھیں اور میڈیا اینکرز کو ڈرایا دھمکایا ہوا تھا‘ انہیں اپنے ٹوئٹس اور ری ٹوئٹس‘ واہ واہ اور بلے بلے کا غلام بنایا ہوا‘ وہ سب غائب ہیں۔ اچانک سوشل میڈیا پر گالی گلوچ بریگیڈ غائب ہوگئی ہے۔ اچانک سوشل میڈیا ایک مہذب اور پڑھا لکھا فورم لگنے لگا ہے۔ خان صاحب کو بھی بریک لگ گئی ہے۔ خیر قصور خان صاحب کا بھی نہیں تھا کہ وہ اب تک مٹی میں بھی ہاتھ ڈال رہے تھے تو وہ سونا بن جاتی تھی۔ میری اکثر دوستوں کے ساتھ بحث ہوتی تھی کہ ہر انسان کو اپنی خوش قسمتی کا کوٹہ احتیاط کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے۔ اگر یہ کوٹہ زیادہ استعمال کر لیا جائے تو ایک دن ختم ہو جائے گا‘ جیسے کسی صحرا میں سے گزرتی طویل سڑک پر آپ کی گاڑی جواب دے جائے۔ قسمت بھی کبھی کبھاراس طرح جواب دے جاتی ہے۔
خان صاحب کو خود بھی احساس تھا کہ ان سے پچھلے سال اپریل سے بہت غلطیاں کرائی گئیں‘ جس کا اظہار انہوں نے حامد خان صاحب کے ساتھ کیا بھی تھا اور انہوں نے خود میرے پروگرام میں یہ کہا تھا کہ خان صاحب کو احساس ہے کہ انہیں غلط مشورے دیے گئے۔ ڈپٹی سپیکر سے رولنگ دلوانا‘ اسمبلی سے استعفیٰ دلوانا‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تڑوانا بڑے بلنڈرز تھے جنہوں نے ان کی پارٹی کا بھٹا بٹھا دیا۔ وہ بلنڈر پر بلنڈر مارتے گئے۔
انہیں جان بوجھ کر ڈھیل دی گئی کہ کسی دن کوئی اس طرح کا بڑابلنڈر ماریں گے جیسے الطاف حسین نے مارا تھا۔ کسی دن بم کو لات ماردیں گے‘اور وہی ہوا‘ سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد انہوں نے ٹھنڈے دل سے مزاحمت کی پالیسی پر غور کی بجائے جنگ تیز کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اب ان کے اعتماد کا لیول آسمان کو چھو رہا تھا‘ جیسے کبھی رومن جنرل سیزر نے گال کا علاقہ فتح کرکے رومن شہریوں کے نزدیک ایک ناقابلِ یقین کارنامہ سرانجام دیا تھا اسی طرح عمران خان بھی سپریم کورٹ‘ نیب اور وفاقی حکومت فتح کرنے کے بعد لاہور پہنچے تھے۔
خان کو احساس ہوا کہ ان کا راستہ کوئی نہیں روک سکے گا۔ اب وہ دیوتا کا درجہ حاصل کر چکے تھے۔ خود ریاست بن چکے تھے۔ اب فیصلہ ہونا تھا کہ ریاست نے رہنا ہے یا ریاست کے اندر ایک اور ریاست بنے گی۔ خان صاحب نے خود لُوز بالز کیں۔ ایک سال میں دیکھا جائے تو ایک دو نہیں انہوں نے درجنوں لُوز بالز کیں جن کی سزا ان کے علاوہ ان کی پارٹی اور ان کے ہزاروں ورکرز نے بھگتی ہے۔
میرے پروگرام کی ہوسٹ نے کیا خوبصورت بات کی کہ برسوں تک نوجوانوں کو ایک نظریے کے نام پر اکٹھاکرکے‘ ان کے اندر زہر بھر کر بارود سے لاد دیا گیا۔ آج جب غریبوں کے ہزاروں بچے پی ٹی آئی لیڈروں کے نظریات سے متاثر ہوکرجلائو گھیرائو کے بعد ملٹری کورٹس میں سزائوں کا انتظار کررہے ہیں اس وقت وہ سب لیڈرز جنہوں نے وہ نظریہ ان نوجوانوں کو بیچا تھا وہ بڑے سکون سے پتلی گلی سے نکل گئے ہیں‘ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔