معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
پہلی دفعہ!
پہلی دفعہ سنا کہ ٹماٹروں کا بھی مذہب ہوتا ہے، پہلی دفعہ سنا کہ کفار کی امداد منہ پھیر کرلی جائے تو کم گناہ ملتا ہے،امداد سامنے سے لی جائے تو بندہ جہنمی ،پہلی دفعہ کسی حکمران سے سنا کہ سیلابی تباہی عوام کے گناہوں کا نتیجہ ،پہلی دفعہ کسی حکمران سے سنا کہ سیلابی پانی میں غرق غریبوں کے گھروں کو دیکھ کر اٹلی کا شہر وینس بھی یاد آسکتا ہے اور پہلی دفعہ دیکھا، ہر چھٹا پاکستانی سیلابی تباہی سے دوچار مگر حکمران باہم دست وگریباں، وڈیرے شغل میلوں میں اور عوامی نمائندے ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔
ہمارے حکمران، کیاعجوبے ،پست ذہن، سستی سطحی باتیں ، آنکھوں کی بھوک مٹے نہ پیٹ بھریں ، 2005کا زلزلہ ، نجانے کتنی امداد آئی، نجانے یہ بھیک ،یہ مسکینوں کا مال کون کھا گیا ،2010کا سیلاب آیا، جو کچھ ملا، اس کا 30 فیصد بھی حق داروں تک نہ پہنچا، 2022 کا سیلاب، کروڑوں کوڑی کے نہ رہے، مگر ہزاروں کی لاٹری نکل آئی، ابھی ریسکیوبھی مکمل نہیں ہوا، کرپشن ،لوٹ مار، چوربازاری ، عروج پر ،ہر کوئی اپنے منہ کے حساب سے کھا رہا، اس بار بھی غریبوں تک دس بیس فیصد ہی پہنچ پائے گا، ہم نے 2010 کے سیلا ب سے کچھ نہ سیکھا، ہم نے 2022 کے سیلاب سے بھی کچھ نہیں سیکھنا، خدانخواستہ 2032 میں سیلاب آیا تو یہی تباہی، یہی بربادی، یہی رونا دھونا، یہی حال دہائیاں ہورہی ہوں گی، 6 مہینے عوام بارش کی دعائیں اور 6 مہینے نکونک پانی میں، کل بلاول بھٹو فرمارہے تھے کہ سندھ کا پانی چوری ہورہا، سندھ کو پانی نہیں مل رہا، جی کرے بلاول بھٹو سے پوچھوں کیا اب پانی کافی ہے یا اور چاہئے، آپ تو اپنے لاڑکانہ کو بھی نہ سنبھال پائے، کالا باغ ڈیم نہیں بنانا، کالا باغ ڈیم بن گیا تو ہم ڈوب جائیں گے، کوئی پوچھے اب کالا باغ ڈیم نہ بنا کر ڈوبنے سے بچ گئے؟، دکھ نہ ہوا جب اپنا سیاسی قبلہ لاڑکانہ پانی میں تیرتا دیکھا؟ بلاول صاحب یقین کریں اگرلاڑکانہ میرے نانا کو وزیراعظم، میری والدہ کو وزیراعظم اور مجھے وزیر خارجہ بناتا تو میں اسے دنیا کا حسین ترین، محفوظ ترین شہر بنا دیتا، آج لاڑکانہ ایڈ زدہ نہ ہوتا، گٹر زدہ نہ ہوتا، سیلاب میں غرق نہ ہوتا، بس باتیں کروا لو اور ہاں جس نے ترقی دیکھنی ہے سندھ آکر دیکھے یہ فرمانے والے اپنے خورشیدشاہ نجانے کب سے ایم این اے، اب بیٹا ایم پی اے، بھتیجا ایم پی اے اور سندھ کی ترقی کا یہ عالم کہ سکھر میں کشتیاں چل رہیں ۔
ہمارے حکمران، کیا عجوبے، پست ذہن ، سستی سطحی باتیں ،آنکھوں کی بھوک مٹے نہ پیٹ بھریں ، ساراسال مانگیں ،کوئی ملک ،کوئی ادارہ ،کوئی درنہ چھوڑا، جو دے اس کا بھلا، جو نہ دے وہ اگلی مرتبہ دیدے،ہاتھ میں کشکول ،باتیں غیرت، خودداری کی،آئی ایم ایف کے سامنے کان پکڑے کھڑے، وہ شہباز شریف جو کہیں ،ہم بھکاری ،بھکاریوں کے پاس بھلا کیا چوائس ،وہی شہباز شریف صبح وشام اپنی تقریروں کو علامہ اقبالؔ کے خودی بھرے شعروں سے تڑکہ لگائیں ، صبح وشام بتائیں ہم آزاد قوم ، ’سواہ تے مٹی ‘آزاد قوم ،جب تک آپ جیسے ہم پر مسلط، ہم غلام ، ہم مجبور، ہم بھکاری ،ہم پر قدرتی آفت آئے نہ آئے ،آپ کی صورت آزمائش مسلط ، سندھ ڈوب گیا ،زرداری صاحب فرمائیں ،صحت اجازت دیتی تو سیلاب زدگان کے ساتھ ہوتا، بجا فرمایا ،محترم آپ کی صحت بھی کمال کی عقلمند ، آپ آئے روز کراچی سے اسلام آباد آئیں، لمبی لمبی خفیہ ملاقاتیں کریں ،صحت اجازت دیدے، آپ پنجا ب حکومت بنانے، حکومت گرانے کراچی سے لاہور پہنچ جائیں ، صحت اجاز ت دیدے، آپ نواسے کی سالگرہ منانے دبئی تشریف لے جائیں ،صحت اجازت دیدے، مگر سیلاب متاثرین کے پاس جانے سے آپ کو آپ کی صحت روک لے،بلوچستان تباہ ہوگیا، وہ سب قوم پرست ،وہ سب سردار جو پچھلے 75 سال سے بلوچستان کی محرومیا ں ،بے بسیاں بیچ بیچ کر اربوں، کھربوں پتی ہوئے ،کہیںنظر نہ آئے، وہ سب جو اسمبلیوں میں ،ٹی وی اسکرینوں پر، تقریروں ،بھاشنوں میں بلوچستان کے سب سے بڑے وکیل ،جب بلوچستان پر کڑا وقت آیا، کہیں دکھائی نہ دیئے، آدھا کے پی کے ڈوب گیا ،بزدار پلس محمود خان ٹس سے مس نہ ہوئے، باقی چھوڑیں ہرروز ہیلی کاپٹر پکڑ کر بنی گالہ پہنچے محمود خان سے اگر روز قیامت صرف ان 5افراد کا سوال ہوگیا جو پشاورہیلی پیڈ سے 90منٹ کے فاصلے پر گھنٹوں سیلابی پانی میں ہیلی کاپٹر کے انتظار میں رہے مگر ہیلی کاپٹر نہ آیا اورپھر 5میں سےچار افراد کو سیلاب بہالے گیا، جنوبی پنجاب سیلاب کی تباہ کاریوں کی زدمیں ،3سال 8ماہ جنوبی پنجاب کا عجوبہ عثمان بزدار وزیراعلیٰ رہا مگر جنوبی پنجاب کی محرومی میں رتی بھرفرق نہ پڑا، جنوبی پنجاب چھوڑیں ،اصل تبدیلی سمبل ،وسیم اکرم پلس اور عمران خان کے شیر عثمان بزدار نے تو لاہور کو ہی گٹر زدہ ،کوڑا زدہ بنا ڈالا، ابھی چار پانچ دن پہلے لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر قرار پایا ، سائیںنے اپنی نسلیں سنوار لیں ،گورنر ہاؤس کے سوئمنگ پول میں سوئمنگ سیکھ لی، وزیراعلیٰ ہاؤس کے کمر ے کی دیواریں گرا کر شیشے کی دیواریں بنا لیں ،وزیراعلیٰ کے ہیلی کاپٹر کو کھوتا ریڑھی بنائے رکھا مگر کرنے والا کام ایک بھی نہ کیا۔
ہمارے حکمران،کیا عجوبے ،پست ذہن ،سستی سطحی باتیں ،آنکھوں کی بھوک مٹے نہ پیٹ بھریں ، کیا ملک تھا، کیا بنا دیا، کہاں سے چلے تھے ،کہاں آپہنچے ، ایسے حالات ، بے اختیار مستنصر حسین تارڑ یا دآئیں ’’ کیا پتا قیامت گزر چکی ہو اور ہم جہنم میں رہ رہے ہوں‘‘ کیا وقت چل رہا ،پہلی دفعہ سنا کہ ٹماٹروں کا بھی مذہب ہوتا ہے، پہلی دفعہ سنا کہ کفارکی امداد منہ پھیر کر لی جائے تو کم گناہ ہوتا ہے، امداد سامنے سے لی جائے تو بندہ جہنمی ،پہلی دفعہ کسی حکمران سے سنا کہ سیلابی تباہی عوام کے گناہوں کا نتیجہ ،پہلی دفعہ سنا کہ کسی حکمران کو غریبوں کے پانی میں غرق گھروں کو دیکھ کر اٹلی کا شہر وینس یاد آجائے، پہلی دفعہ دیکھا کہ ہر چھٹا پاکستانی سیلابی تباہی سے دوچار مگر حکمران باہم دست وگریباں، وڈیرے شغل میلوں میں ،عوامی نمائندے ایسے غائب جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔