پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
فائیو اسٹار ہوٹل کے ’’فضائل‘‘…!
میں نے ایک بار لکھا تھا کہ سفید پوش وہ ہے جو ماسی برکتے کے تنور سے کھانا کھا کر نکلے اور ہوٹل ہلٹن کے باہر کھڑے ہوکر خلال کرتا پایا جائے ۔ مگرکچھ سفید پوش ایسے بھی ہیں جن کا ”مفتا“ اگر کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں لگ جائےتو وہ وہاں سے کھانا کھا کر نکلتے ہیں اور عادتاً ماسی برکتے کے تنور کے سامنے کھڑے ہو کر خلال کرنے لگتے ہیں۔ خود میرا شمار بھی انہی سفید پوشوں میں ہوتا ہے مگر مجھ میں اور دوسرے سفید پوشوں میں فرق یہ ہے کہ مختلف مشاعروں اور کانفرنسوں وغیرہ کے دوران مجھے فائیواسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوتاہے لیکن کھانا وغیرہ کھانے کے بعد میں عادتاً نہیں احتیاطاً کسی بابو ہوٹل میں جاکر چائے پیتا ہوں۔احتیاطاً اس لیے کہ کانفرنس کے منتظمین بسا اوقات صرف کمرے کا کرایہ اور کھانے کا بل ادا کرتے ہیں۔ چنانچہ جو مہمان ان ہوٹلوں میں چائے پیتے ہیں وہ اکثر اپنے ”رسک“ پر پیتے ہیں بلکہ جن کانفرنسوں کا میں نے ذکر کیا ہے ان کے منتظمین کی طرف سے جو ” ہدایت نامہ “ جاری کیا جاتا ہے اس میں ایک ہدایت یہ بھی ہوتی ہے کہ لانڈری اور استری وغیرہ کے ذمہ دار آپ خود ہوں گے ۔ چنانچہ جو سمجھ دار مہمان ہیں وہ ہوٹل میں ”استری“ اپنے ساتھ لاتے ہیں۔
جس طرح ہر کام کے پس پردہ کوئی وجہ ہوتی ہے، اسی طرح یہ کالم لکھنے کی بھی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ میں ان فائیواسٹار ہوٹلوں کا بہت زخم خوردہ ہوں اور وہ یوں کہ کبھی کبھار اگر” مفتا“ نہ لگے تو وضع داری قائم رکھنے کے لیے اس ”قماش“ کے ہوٹلوں میں اپنے خرچ پر بھی ٹھہرنا پڑ جاتا ہے ۔بصورت دیگر احباب پر سفید پوشی کا بھرم کھل جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں میں نے ایک اسی قسم کے ہوٹل میں قیام کے دوران ناشتہ منگوایا اور ناشتے کے بعد بل کا مطالعہ شروع کیا تو اس میں انڈے کے چار سو روپے لگائے گئے تھے، میں نے ویٹر سے پوچھا کہ بھائی اس انڈے کے سلسلے میں منیجر صاحب کو خود بھی کوئی زحمت اٹھانا پڑتی ہے جو مجھ پر غصہ اتارنے کے لیے اتنے پیسے چارج کئے ہیں، مگر وہ بیچارا جواب میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔ اسی طرح ایک دفعہ غلطی سے میں نے شلوار کرتہ دھونے کے لیے دے دیا ، شام کو دیا صبح دس بجے چاہیے تھا لانڈری بوائے نے کہا جناب ارجنٹ پر دھلے گا، میں نے بے نیازی سے کہا پھر کیا ہوا؟۔ مگر پھر ہوا یہ کہ اس شلوار کرتے کی دھلائی کے مجھے اتنے ہی روپے ادا کرنا پڑےجن میں یہ سوٹ میں نے سیل سےخریدا تھا۔
ان فائیو اسٹار ہوٹلوں کے خلاف میرے غصے کی ایک وجہ بلکہ بنیادی وجہ جو میں نے ابھی تک نہیں بتائی تھی یہ ہے کہ میرے ایسےسفید پوشوں کی انا کو ٹھیس پہنچانے کے لیے ان میں سے ہر ہوٹل نے بجلی کی وائرنگ ٹیلی ویژن، ریڈیو اور میوزک سسٹم، فلش سسٹم اور اس طرح کے جتنے بھی دوسرے سسٹم ہیں دوسرے ہوٹلوں سے مختلف رکھے ہوئے ہیںاور ان میں کچھ اتنی راز داری پائی جاتی ہےکہ اگر تلاش بسیار کے بعد ٹیبل لیمپ جلانے کا سوئچ مل گیا ہے تو باقی روم کی لائن آن کرنے کے سسٹم کا سراغ نہیں مل رہا۔ اسی طرح اگر میوزک آن کرنے کی ”ٹیکنالوجی“ تک رسائی ہو گئی ہے تو فلش سسٹم کا پتہ نہیں چل رہا۔غرضیکہ ہر فائیو اسٹار ہوٹل میںایک نہ ایک ”گھنڈی“ ایسی رکھ دی جاتی ہے کہ ہر دفعہ جھجکتے جھجکتےہوٹل کے ملازم کو بلانا پڑتا ہے اور اسے اعتماد میں لے کر پوچھنا پڑتا ہے کہ بھائی بتی کس طرح جلائی جاتی ہے اور فلش کس طرح چلایا جاتا ہے اور اس کے جواب میں وہ موذی آپ کو اس طرح دیکھتا ہے جیسے کہہ رہا ہو کہ ”پتہ نئیں کتھو ںآجاندے نیں!“ بس یہی ان ہوٹلوں کا ” بزنس سیکرٹ“ بھی ہے کہ گاہک کو احساس کمتری میں مبتلا کرو اور اس کی آنکھیں اتنی چکا چوند کر دو کہ وہ ہر دفعہ ؎
جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے
مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا
والا شعر پڑھتے ہوئے ہوٹل سے رخصت ہو اور اس طرح رخصت ہو جس طرح سکند ر دنیا سے رخصت ہوا تھا!۔
تاہم واضح رہے کہ میں نے ابھی تک ان ہوٹلوں کا صرف تاریک رخ دکھایا ہے، روشن رخ تو دکھایا ہی نہیں اور ان ہوٹلوں کا ’’رخِ روشن‘‘ تو ایسا ہے کہ پر وانوں کو سمجھ ہی نہیں آتی کہ وہ شمع کی طرف جائیں یا اس رخ ِروشن کا طواف کریں مثلاً ایک مثبت پہلو ان ہوٹلوں کا یہ ہے کہ جو کاروباری سودے کروڑوں میں طے ہونے ہوتے ہیں وہ انہی ہوٹلوں میں طے ہو سکتے ہیں۔ان ہوٹلوں میں اٹھنے ،بیٹھنے اور لیٹنے والا شخص اس قدر معزز سمجھا جاتا ہے کہ اس کا کالا دھن بھی سفید ہو جاتا ہے بلکہ بیشتر صورتوں میںتو خون سفید ہو نے لگتا ہے۔ دوسروں کو چھوڑیں انسان اپنے طور پر خود کو اتنا معزز سمجھنے لگتا ہے کہ اسے دوسرا کوئی شخص معزز ہی نہیں لگتا اور یوں ان ہوٹلوں کے ذریعے معاشرے میںعزت کا جو ”خود تشخیصی نظام“ نافذ ہوا ہےاس کے نتیجے میں ساری قدروں پر از سر نو نظرثانی کی ضرورت محسوس کی جانے لگی ہے تاہم ان معاشی اور معاشرتی حوالوں کے علاوہ ان فائیو اسٹار ہوٹلوں کی ایک قومی خدمت بھی ہے جسے کم از کم ہم پاکستانی فراموش نہیں کر سکتے، سقوط مشرقی پاکستان کے موقع پر جب عام پاکستانی مکتی باہنی اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں گاجروں مولیوں کی طرح کٹ رہے تھے ہمارے سرکردہ لوگوں نے ڈھاکہ کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل ہی میں پناہ لی تھی۔