معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
چار ماں بیٹیاں بنام آئی جی پنجاب
میرے دو کالموں کے بعد اتنا فرق پڑا ہے کہ لاہور سے صوبائی محتسب میجر (ر) اعظم سلیمان صاحب کے دفتر سے ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز قدرت اللہ کا میسج تھا کہ لیہ پولیس کے غریب کسانوں پر مظالم کا نوٹس لے لیا گیا ہے۔لیہ پولیس افسران اور ایس ایچ او تھانہ کوٹ سلطان کو محتسب نے طلب کر لیا ہے۔
ابھی اس میسج کی لکھائی تازہ تھی کہ لیہ سے خبر آئی کہ تھانہ کوٹ سلطان نے بی ایس کی مذکورہ طالبہ کے دو بھائیوں پر پانچ جھوٹے پرچے درج کرا دیے ہیں۔ رات کے دو بجے پولیس ان غریبوں کے گھر گھسی‘ الزام تھا کہ کسی کی بکری چوری ہوئی ہے۔گھریلو خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی۔ماں کو کمرے میں بند کر کے اس کے بیٹوں کو مارا گیا۔ تیس بکریاں بھی اٹھا کر لے گئے۔ نہ لیڈی پولیس‘ نہ کوئی وارنٹ تھا۔ پانچ دن تک اس لڑکی کے دو بھائیوں کو کوٹ سلطان تھانے میں غیر قانونی طور پر بند رکھا گیا۔پورا گائوں اکٹھا ہوگیا کہ زیادتی ہورہی ہے۔ پانچ دن بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ وہ لڑکی ماں باپ کے ساتھ جا کر لیہ کی پولیس افسر سے ملی اور بتایا کہ پولیس نے ان کے گھر گھس کر کیا بدسلوکی کی ہے۔اس پر جواب دیا گیا کہ تمہیں تو اٹھا کر نہیں لے گئے۔ اس پر لڑکی نے احتجاج کیا تو سزا کے طور پر اس کے دو بھائیوں پر کوٹ سلطان تھانے میں پانچ پرچے درج کرا دیے۔
پنجاب کے محتسب کو یہ میسج دیا گیا ہے کہ آپ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ آپ ایک پرچے کا نوٹس لے رہے تھے ہم نے مزید پانچ پرچے درج کرا دیے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نئے پانچ پرچے اس وقت درج کئے گئے جب آئی جی رائو سردار کے حکم پر انکوائری ٹیم انکوائری کررہی تھی۔ انکوائری ٹیم کو بھی اس وقت پتہ چلا کہ یہ پرچے درج ہوئے ہیں۔اندازہ کریں پنجاب کے دیہاتوں میں کیا کیا ظلم ہورہا ہے۔
میں ابھی ان کسانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم پر آواز اٹھا رہا تھا کہ دنیا ٹی وی کے لیہ میں رپورٹر اور ایک قابلِ اعتماد صحافی محسن عدیل چوہدری نے خبر بریک کی کہ پچھلے ماہ لیہ پولیس نے اس سے بڑا ظلم یہ کیا تھا کہ ایک مفرور ملزم کو سرنڈر کرانے کے لیے اس کی بیوی اورچار بیٹیوں سمیت اس کے گھر کی سات خواتین کو اٹھا کر تھانے میں بند کر دیا گیا۔ان میںملزم کی ایک سات سالہ بیٹی بھی شامل تھی اور ایک حاملہ خاتون بھی۔ کہا گیا کہ ملزم سرنڈر کرے گا تو اس کی رشتے دار خواتین کو چھوڑا جائے گا۔ کوئی پرچہ نہیں‘کوئی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ گھریلو خواتین کو بارگین کے طور پر استعمال کیا گیا۔کچھ لوگوں نے شور مچایا کہ لیہ میں یہ ظلم کیا جارہا ہے کہ سات سالہ بچی تک ماں اور بہنوں کے ساتھ تھانے میں بند ہے تو پولیس نے جواب دیا کہ ملزم کو لے آئیں اور عورتوں کو لے جائیں۔ اخبار میں خبر چھپی تو لیہ پولیس نے اپنا جرم چھپانے کے لیے فورا ًملزم کی بیوی اور چار بچیوں کے خلاف پرچہ دے دیا کہ جب وہ ملزم کی تلاش میں گئے تو ان خواتین نے ان پر ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ایف آئی آر میں ان خواتین سے درجنوں ڈنڈوں کی ریکوری بھی ڈال دی اور ان گھریلو خواتین کو عدالت میں پیش کر کے سب کو جیل بھیج دیا گیا۔ یہ دو جنوری کا واقعہ ہے جس کی ایف آئی آر کی کاپی محسن عدیل کے پاس ہے۔محسن عدیل نے اس پر اخبار میں کالم بھی لکھا۔اب بتائیں کہ لیہ میں طالبہ کی پولیس پر تنقید کے جرم میں اس کے دو بھائیوں کے خلاف پرچے درج ہونے پر روئیں یا ایک مفرور ملزم کی بیوی‘ چار بیٹیوں‘ حاملہ رشتہ دار خاتون اور سات سالہ بچی کو تھانے اٹھا کر لے جانے پر واویلا کریں؟
اب آپ کو سمجھ آ جانی چاہئے کہ جب کوئی ہجوم پولیس پر تشدد کرتا یا پولیس افسران اور اہلکاروںکو یرغمال بنا تا ہے تو پولیس کو عوام کی ہمدردی کیوںحاصل نہیں ہوتی۔ لوگ ان کے حق میں باہر نہیں نکلتے کیونکہ وہ انہیں اپنا محافظ نہیں سمجھ رہے ہوتے۔عوام پولیس کے یہ مظالم دیکھ دیکھ کر اندر ہی اندر کڑھتے رہتے ہیں اور جب کبھی انہیں موقع ملتا ہے تو وہ بھی ان پر پل پڑتے ہیں ‘ اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ اب آپ ایک ماں اور اس کی چار بیٹیوں سے کیا توقع رکھیں گے جنہوں نے زندگی میں کبھی تھانہ نہیں دیکھا تھا‘ انہیں گھر سے اٹھا کر تھانے میں قید کر لیا جائے اور پھر ڈنڈوں سے حملہ کرنے کا جھوٹا الزام لگا کر عدالت پیش کر کے جیل بھجوا دیا جائے؟ کوئی انسان اتنا بے رحم کیسے ہوسکتا ہے کہ ملزم کی ہی سہی‘ بچیوں کے ساتھ یہ ظلم جان بوجھ کر کرے۔
اور سن لیں۔ بکری چوری کے کیس میں یہی کچھ کیا گیا۔ملزم کے سکول جاتے نویں جماعت کے بھائی کو کئی دن تھانہ کوٹ سلطان میں غیرقانونی طور پر قید رکھا گیا کہ بکری چور سرنڈر کرے۔ جب میں نے اس کے خلاف ٹویٹس کئے کہ ایک بچے کو تھانے میں قید کررکھا ہے تو فوراً بیک ڈیٹس میں اس بچے پر پرچہ دے کر عدالت میں پیش کر دیا۔ جج نے سکول سرٹیفکیٹ دیکھ کر ضمانت دے دی۔ اس بچے کا کریمنل ریکارڈ بنا کر اس کا مستقبل تباہ کر دیا گیا کہ اب کہیں نوکری کے لیے تھانہ رپورٹ درکار ہو گی تو اس کے خلاف ایف آئی آر موجود ہو گی۔ سکول پرنسپل خود تھانے گیا کہ اس بچے کا کیا قصور ہے۔ تھانہ کوٹ سلطان کے ایس ایچ او نے دھمکیاں دے کر پرنسپل کو ذلیل کر دیا۔
سوچتا ہوں ان پندرہ برسوں میں ہماری پولیس کتنی بدلی ہے۔ پندرہ سال قبل میرپور‘ آزاد کشمیر کی پولیس نے ایک ملزم کو گرفتاری پر مجبور کرنے کے لیے اس کے گھر کی سات خواتین کو اٹھا لیا جس پر میں نے آواز اٹھائی تو اس وقت کے وزیرمملکت شہزاد وسیم نے بھرپور ردعمل اور ساتھ دیا اور خواتین رہا ہو گئیں۔ آج وہی شہزاد وسیم سینیٹ میں حکومت کے لیڈر آف ہاؤس ہیں اور ان کی اپنی حکومت کے دور میں ملزم کی بیوی‘ اس کی چار بچیاں‘ سات سالہ بچی اورایک حاملہ خاتون کو اٹھا کر اس طرح قید کر لیا گیا جیسے میرپور پولیس نے کیاتھا۔
مجھے افسوس ہے کہ وزیراعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ پنجاب‘ آئی جی‘ چیف سیکرٹری اور آر پی او ڈیرہ غازی خان تک سب خاموش ہیں کہ ظلم ہونے دیں۔ ابھی 2016 ء کا کلپ دیکھ رہا تھا جس میں وزیر اعظم عمران خان کی بہن ڈاکٹر عظمیٰ کے ساتھ لاہور پولیس نے بدتمیزی کی۔ بقول ڈاکٹر عظمیٰ: ان کی کار میں موجود بچوں کو جیسے گولی مارنے لگے ہوں۔ آج انہی عمران خان صاحب کے دور میں لیہ کے ایک ملزم کے خاندان کی عورتوں اور بچیوں کو اٹھا لیا گیا۔ پولیس کے خلاف آواز اٹھانے پربی ایس کی غریب طالبہ کے دو بھائیوں پر پانچ جھوٹے پرچے درج کر دیے گئے۔ آج اس ملک میں اور کوئی باہر نکلے یا نہ نکلے ڈاکٹر عظمیٰ کو بھائی کی حکومت میں لیہ میں خواتین کے خلاف ہونے والے ظالمانہ سلوک پر ضرور احتجاج کرنا چاہئے۔
باقی سنا ہےKarma is a bitch!۔ جو کسی کے ساتھ ظلم کرے گا‘ سات سالہ بچی تک کو تھانے قید کرے کہ باپ اس کا گرفتاری دے‘ اس کے بچوں کے ساتھ بھی قدرت وہی کرتی ہے۔ یہ صدیوں پرانی بات اب آئی جی اور ڈی پی او کو کون سمجھائے۔