چھوٹے جرم سے بڑے جرم تک

اردو میں امتزاج کے لفظ کے ساتھ عمومی طور پر ”حسین‘‘کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے اور یہ لفظ اس لاحقے کے ساتھ ”حسین امتزاج‘‘ بن جاتا ہے؛ تاہم ہمارے ہاں سیلاب میں اس کے بالکل الٹ لفظ بنتا ہے جسے آپ تباہی اور لوٹ مار کا ”قبیح امتزاج‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ ایک طرف تباہی ہوتی ہے اور دوسری طرف اس تباہی سے نفع نچوڑنے والے اور امدادی رقم اور سامان کی لوٹ مار کرنے والے میدان میں آ جاتے ہیں۔
صورتحال یہ ہے کہ ہمارے بہت سے دوست جو دردِ دل سے مجبور ہو کر ذاتی طور پر امدادی اشیااز قسم خیمے‘ کھانے پینے کا سامان‘ ترپالیں‘ پلاسٹک شیٹس‘ مچھر دانیاں اور گھریلو استعمال کی چیزیں اپنے ساتھ لے کر گئے ان میں سے نصف کے ساتھ تو یہ ہوا کہ ان کا سامان راستے میں ہی لوٹ لیا گیا۔ اور لوٹنے والوں کی غالب اکثریت ان لوگوں پر مشتمل تھی جو اس علاقے سے ہی تعلق نہیں رکھتے تھے۔ فاضل پور کے قریب پولیس نے ایسی لوٹ مار میں مصروف ایک گروہ کو پکڑا تو ان کا تعلق کسی سیلاب زدہ علاقے سے ہی نہیں تھا۔ شناختی کارڈ دیکھے گئے تو وہ سب لوگ رحیم یارخان کی نواحی بستی سے تعلق رکھتے تھے اور محض لوٹ مار کی خاطر فاضل پور آئے ہوئے تھے۔ ایک دوست نے بتایا کہ اس نے خود دیکھا کہ ایک موٹر سائیکل سوار نے فون کر کے کسی کو بتایا کہ ادھر امدادی سامان کے ٹرک آ رہے ہیں اور اس کے بعد درجنوں لوگ موٹر سائیکلوں پر آ گئے اور چھین جھپٹ کر ان امدادی ٹرکوں پر آنے والا بیشتر سامان ہتھیا کر چلتے بنے۔ یہ ایک جگہ کا قصہ نہیں ایسے درجنوں واقعات تو دوستوں نے بتائے اور انفرادی طور پر سامان لانے والوں کو متنبہ کیا کہ وہ بغیر کسی معقول حفاظتی بندوبست کے اپنا امدادی سامان از خود لے کر نہ جائیں۔ یہ تو صرف انفرادی امداد کے ساتھ ہونے والے واقعات تھے۔ سرکاری سطح پر ایسی ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ دل لرز جاتا ہے کہ ظالموں کے دل سے خوفِ خدا بالکل ہی رخصت ہو چکا ہے اور وہ مظلوموں کیلئے آنے والے امدادی سامان کو غتربود کرنے اور مستحقین کے بجائے اپنے پسندیدہ لوگوں میں تقسیم کرتے ہوئے رتی برابر شرمندگی اور ندامت محسوس نہیں کرتے۔
کینیڈا کی حکومت نے اپنا امدادی سامان حکومت پاکستان کے حوالے کرنے کے بجائے اس سامان کی تقسیم کی ذمہ داری ریڈ کراس کے سپرد کر دی ہے۔ سندھ کے مختلف علاقوں میں دیگر ممالک سے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے آنے والا سامان پرائیویٹ گوداموں میں سے پکڑے جانے کی درجنوں اطلاعات ملی ہیں اور سامان بھی برآمد ہوا ہے۔ ایک دوست بتا رہا تھا کہ اس سیلاب کی آڑ میں جہاں عالمی امداد پر ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے وہیں حکومتی سٹورز سے پہلے ہی صاف کی جانے والی گندم وغیرہ کو سیلاب میں بہہ جانے کے بہانے سارا ”مُدا‘‘ صاف کر دیا گیا ہے۔
کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ ہو کیا رہا ہے۔ آٹا لوگوں کی قوتِ خرید سے باہر ہو گیا ہے۔ کوئٹہ میں آٹے کا بیس کلو گرام کا تھیلا چوبیس سو روپے میں بمشکل دستیاب ہے‘ یعنی آٹے کی قیمت چار ہزار آٹھ سو روپے فی من تک پہنچ گئی ہے جو غریب کی پہنچ سے باہر چلی گئی ہے۔ ہر بندہ اپنی اپنی جگہ پر کھانچا لگانے میں مصروف ہے۔ جن دلوں میں خوفِ خدا اور مخلوقِ خدا کی محبت موجود ہے وہ دامے‘ درمے‘ قدمے‘ سخنے اپنی استطاعت سے بڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں اور جن دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے وہ اس مصیبت بھری صورتحال میں بھی اپنے لئے دنیاوی نفع کشید کر رہے ہیں۔
کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ بلامبالغہ کروڑوں لوگ اس وقت کس صورتِ حال سے گزر رہے ہیں اور ان کے پاس نہ کھانے کیلئے اشیائے خورو نوش ہیں نہ رہنے کیلئے چھت ہے اور نہ ہی اس چھت کو دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے کوئی ذریعۂ آمدنی بچا ہے کہ ان کے مال مویشی اور فصلات بھی سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔ بعض جگہوں پر کھانے پینے کی اشیا اس افراط سے پہنچی ہیں کہ لوگوں کے پاس رکھنے کی جگہ نہیں اور بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں لوگ بھوک سے مرنے کے قریب ہیں اور ان کو کھانے کی کمی کے ساتھ ساتھ سیلابی صورتحال سے پھیلنے والی بیماریوں کا بھی سامنا ہے۔ نہ کوئی ذریعۂ آمدنی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس قسم کی کوئی سہولت ملنے کا امکان ہے۔ گھر بار پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ ایک ماہ سے یہ متاثرین یا تو کھلے آسمان تلے پڑے ہیں یا پھر کسی امدادی تنظیم کے لگائے گئے کیمپ میں ہیں یا امداد میں ملے خیمے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ بجلی کی فراہمی معطل ہے اور ایسے میں حکومت نے نہایت ہی فراخدلانہ بلکہ حاتم طائیانہ فیاضی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیلاب متاثرین کے بجلی کے وہ بل معاف کر دیے ہیں جو انہوں نے حقیقتاً استعمال ہی نہیں کی۔ بندہ اس حکومتی مہربانی پر قربان ہی ہو جائے۔
مجھے گزشتہ چار پانچ دن کے اندر بلا مبالغہ دس بارہ ایس ایم ایس آ چکے ہیں کہ آپ کو 8171 سے 12000 روپے امداد مبارک ہو۔ فلاں نمبر پر کال کریں۔ یعنی ایک اور فراڈ شروع ہو گیا ہے۔ یہ فراڈ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ساتھ ہی لانچ ہوا تھا اور ہر مستحق غیر مستحق کو یہ پیغام آنا شروع ہو گیا کہ آپ کے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے اتنے روپے منظور ہو گئے ہیں اور آپ اس نمبر پر فون کریں اور اس پیغام میں ایک نمبر دیا گیا ہوتا تھا۔پنجابی کی ایک کہاوت ہے کہ جس کا پیسہ جاتا ہے اس کا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ جس کا نقصان ہو جائے اس کا ہر ایک پر شک جاتا ہے اور اس کی نظر میں ہر بندہ مشکوک بن جاتا ہے اسی طرح جس پر مصیبت پڑی ہو اسے ہر فراڈ اور جھوٹ بھی سہارا لگنے لگ جاتا ہے اور وہ ہر اس دروازے پر دستک دینے میں عار نہیں سمجھتا جہاں سے اسے مدد ملنے کی امید ہو۔ اس نئے فراڈ کی زد میں آ کر پہلے سے لٹے پٹے متاثرین مزید لٹیں گے لیکن فراڈیوں کی دیہاڑی لگ جائے گی۔ کئی ماہ پہلے مجھے اسی قسم کا میسج آیا کہ آپ کا بینک کارڈ آپ کی جانب سے ویری فکیشن نہ ہونے کے باعث بلاک ہونے جا رہا ہے۔ آپ اس نمبر پر کال کریں۔ میں نے اس نمبر پر کال کر کے پوچھا کہ میرا کون سا بینک کارڈ بلاک ہو رہا ہے؟ جواب ملا: جو آپ کے پاس ہے وہ بلاک ہو رہا ہے۔ میں نے کہا: میرے پاس تو کئی ڈیبٹ کارڈ ہیں ان میں سے کون سا بلاک ہو رہا ہے؟ وہ آگے سے کہنے لگا کہ یہ تو آپ کو پتا ہو گا کہ آپ نے کون سے کارڈ کی ویری فکیشن نہیں کروائی۔ میں نے کہا: میری بات چھوڑیں‘ آپ نے میسج کسی بینک کی طرف سے کیا ہے‘ آپ بتائیں کہ کس بینک کا کارڈ بلاک ہو رہا ہے۔ اس نے فون بند کر دیا‘ میں نے ملتان ایف آئی اے کے سائبر کرائم دفتر جا کر رپورٹ درج کروانی چاہی تو مجھے کہا گیا کہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں ہوا آپ کن چکروں میں پڑ رہے ہیں۔ میں نے کہا: میرا نقصان نہیں ہوا مگر کسی کا تو ہو سکتا ہے۔ اہلکار کہنے لگا: جی آپ شکر کریں آپ کا نقصان نہیں ہوا باقیوں کی فکر چھوڑیں۔ بدقتِ تمام رپورٹ درج کروائی۔ اس پر کیا عمل ہوا اور کیا کارروائی ہوئی اس کا مجھے کوئی علم نہیں؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ چھوٹے جرائم سے صرفِ نظر کرنا ان کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے اور یہی رویہ بڑے جرائم کو جنم دیتا ہے۔ نیو یارک میں جرائم بڑھ جانے پر وہاں کے میئر روڈی گلیانی نے Broken windowsکی تھیوری دی تھی۔ وہ اس باب میں سمجھیں حرفِ آخر ہے۔