سینیٹ سے لیکر میئر ملتان تک

کالم تو کسی اور موضوع پر لکھنا تھا مگر یہ درمیان میں سٹیٹ بینک والے معاملے پر سینیٹ میں ہونے والی رائے شماری آ گئی ہے۔ اپوزیشن کے اکثریتی ایوان میں ایک ووٹ سے حکومتی فتح نے سینیٹ میں اقلیت ہونے کے باوجود سینیٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن کو ہر بار جس نئے طریقے اور حربے سے ذلیل و رسوا کیا ہے‘ وہ قابلِ داد ہے۔ دوسری طرف ذاتی مفادات‘ دباؤ اور ڈیل کے زیر اثر اپوزیشن کے چار‘ چھ ارکان ہر بار اپنی پارٹی کو غچہ دے جاتے ہیں۔ اس بار پتلی گلی سے نکلنے والے اپوزیشن ارکان کی کل تعداد تو آٹھ عدد ہے مگر سارا ملبہ ہمارے گرائیں سید یوسف رضا گیلانی پر ڈالا جا رہا ہے۔
اپنے فواد چودھری صاحب نے اس امداد پر گیلانی صاحب کا باقاعدہ شکریہ ادا کیا ہے۔ ظاہر ہے اس شکریے کا مقصد گیلانی صاحب کو خجل اور خوار کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا گیلانی صاحب نے یہ فیصلہ از خود کیا ہو گا کہ وہ سینیٹ کے اس اہم اجلاس میں شرکت کرنے کے بجائے پیپلز پارٹی کے سابقہ رکن قومی اسمبلی اور وزیر ملک غلام محمد نور ربانی کھرکی رسم قل میں شرکت کریں اور اسلام آباد جانے کے بجائے کھروں کے مرکز‘ بستی دڑہ چلے جائیں۔ ملک نور ربانی کھر کی وفات کے بعد ان کے جانشین کا انتخاب اور دستار بندی بھی اسی روز مورخہ اٹھائیس جنوری کو ہونا قرار پائی تھی۔ ملک غلام ربانی مرحوم کی اولاد دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ مرحوم کا بڑا بیٹا عبدالخالق کھر‘ جو سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کا سوتیلا بھائی ہے‘ ایک طرف ہے جبکہ ربانی کھر مرحوم کا چھوٹا بیٹا ملک رضا ربانی کھر جو حنا ربانی کھر کا سگا بھائی ہے‘والد کا سیاسی وارث ہے اور اپنی آبائی قومی اسمبلی کی نشست پر آج کل رکن قومی اسمبلی ہے۔ دونوں نے الگ الگ قل خوانی اور دستار بندی کی محفل کا بندوبست کر رکھا تھا۔ کیپٹن (ر) عبدالخالق کھر نے رسم قل و دستاربندی کا اہتمام بستی رحم شاہ نزدٹھٹھہ گورمانی میں اپنے مرحوم والد کی قبر کے قریب کر رکھا تھا جبکہ رضا ربانی کھر نے یہ بندوبست اپنے آبائی گھر بستی دڑہ میں کیا ہوا تھا۔ بڑا سیاسی اکٹھ ملک غلام محمد نور ربانی کھر کے بڑے بیٹے کے بجائے اس کے چھوٹے بیٹے کی دستار بندی کے سلسلے میں دڑے میں ہوا۔ اس دستار بندی اور رسم قل میں علاقے کے اکثر ارکانِ اسمبلی کے علاوہ سید یوسف رضا گیلانی‘ ملک غلام مصطفی کھر‘ محسن عطا کھوسہ‘ صوبائی وزیر اختر ملک کے علاوہ سید مظہر سعید کاظمی اور سجادہ نشین تونسہ شریف خواجہ عطا اللہ شریک تھے۔ بقول ایک باخبردوست کے‘ اگر زرداری صاحب کی طرف سے غائب ہونے کا اشارہ نہ ملتا تو گیلانی صاحب دڑے کے بجائے اسلام آباد میں ہوتے مگر انہوں نے اوپر سے آنے والی ہدایات کی روشنی میں سینیٹ میں ووٹ ڈالنے کے بجائے قل خوانی کی رسم میں شرکت کو ترجیح دی۔ زرداری صاحب اپنے پتے نہایت سمجھداری سے کھیلتے ہیں اور یہ بندوبست اسی سمجھداری کے سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔
چند ماہ پرانی بات ہے میں ابھی پاکستان میں ہی تھا کہ ہمارے ایک انتہائی قریبی دوست نے بڑی رازداری سے یہ بتایا کہ اس کی ملاقات سید یوسف رضا گیلانی کے فرزند علی حیدر گیلانی سے ہوئی تو اس نے گیلانی صاحب کے بارے میں دریافت کیا۔ پتا چلا کہ یوسف رضا گیلانی اسلام آباد میں ہیں۔ واپسی کے بارے میں دریافت کیا تو ان کے صاحبزادے نے سرگوشی کے انداز میں بتایا کہ اب والد صاحب چیئرمین سینیٹ بن کر ہی واپس آئیں گے۔ خیر سے ان کے برخوردار کی یہ والی خواہش نما خبر تو حقیقت کا روپ نہ دھار سکی مگر اس سے ایک بات واضح ضرور ہوئی کہ اندر خانے کچھ نہ کچھ معاملہ ضرور چل رہا ہے اور کہیں نہ کہیں سے کوئی ”لارا‘‘ لگایا گیا ہے۔ میں نے اپنے اسی دوست سے کہا کہ سیاستدان ایسے ”لاروں‘‘ پر کیسے یقین کر لیتے ہیں؟ وہ ہنس کر کہنے لگا :اگر یقین نہ کریں تو پھر کیا کریں؟ جب وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے تو پھر یقین کرنے کے علاوہ ان کے پاس اور کیا آپشن ہے؟
گیلانی صاحب آنے والے بلدیاتی اور ضلعی حکومتوں کے انتخابات میں اپنے بیٹے علی موسیٰ کیلئے ضلعی نظامت کے طلبگار ہیں۔ گو کہ شنید تو یہ بھی ہے کہ دوسری طرف شاہ محمود قریشی اپنے فرزند ارجمند زین قریشی کیلئے بھی پی ٹی آئی کی جانب سے ملتان شہر کے میئر کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں۔ زین قریشی اس وقت شاہ محمود قریشی کی آبائی قومی اسمبلی کی نشست حلقہ این اے 157سے رکن اسمبلی ہے‘ سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی موسیٰ گیلانی قومی اسمبلی کی اسی نشست سے سات ہزار ووٹوں سے ہارا تھا۔ اگر غیر جانبداری سے دونوں مخدوموں کے برخورداروں کا موازنہ کیا جائے تو علی موسیٰ گیلانی نہ صرف سیاسی طور پر بہت زیادہ متحرک ہے بلکہ حلقے میں ذاتی تعلقات اور میل جول رکھنے کے معاملے میں زین قریشی سے بہت آگے ہے۔ الیکشن 2018ء میں سید یوسف رضا گیلانی اور ان کے برخورداران ملتان کے چھ قومی اسمبلی کے حلقوں میں سے تین حلقوں پر امیدوار تھے۔ حلقہ این اے 154 سے ان کے بڑے بیٹے عبدالقادر‘ این اے 157 سے ان کے دوسرے بیٹے علی موسیٰ اور این اے 158 سے سید یوسف رضا گیلانی خود امیدوار تھے۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں پتلی حالت کے باوجود یہ تینوں صاحبان محض آٹھ‘ نو ہزار ووٹوں کے فرق سے ہارے جبکہ یوسف رضا گیلانی کا ایک بیٹا علی حیدر گیلانی صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 211 سے رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوا۔
ملتان ضلع کی چھ میں سے قومی اسمبلی کی چار سیٹیں ضلع کونسل کی حدود میں ہیں‘جن میں سے تین پر گیلانی صاحب کا براہ راست رابطہ اور اثر رسوخ ہے۔ اس سلسلے میں کوئی ڈیل ہوئی یا وہ شہر اور ضلع کیلئے میئر اور ناظم کی سیٹوں پر مسلم لیگ (ن) سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا چکر چلانے میں کامیاب ہو گئے تو پی ٹی آئی کو صحیح معنوں میں ”وختا‘‘ پڑ جائے گا۔
اُدھر افواہوں کا زور ہے اور ایسی ایسی خبریں مل رہی ہیں کہ عقل دنگ رہ گئی ہے۔ کسی نے بتایا کہ ڈیرہ غازی خان کی میئر شپ کیلئے اپنے سردار عثمان بزدار کے برادرِ حقیقی عمر بزدار امیدوار ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو کم از کم انہیں کسی تعارف کی ہرگز ضرورت نہیں پڑے گی۔ ماشا اللہ بہت سے معاملات میں ان کی شہرت دور دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ ویسے بھی ان کو شہر میں پارٹی کے اندر سے ہی خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا اور اگر عثمان بزدار نے عمران خان سے حسبِ معمول ترلے منتوں سے اپنے بھائی کیلئے ٹکٹ لے بھی لی تو ڈیرہ غازیخان سے آزاد حیثیت میں الیکشن جیت کر پی ٹی آئی میں شمولیت کرنے والے ان کے ایک ایم پی اے ہی ان کے جوڑوں میں بیٹھ جائیں گے۔ اس آزاد حیثیت میں جیت کے پیچھے پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ اس کے گھر کا ذاتی اثر رسوخ اور حیثیت کا دخل تھا۔ باتیں تو لکھنے کیلئے اور بھی بہت ہیں مگر کالم کا دامن محدود ہے؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ اگر بلدیاتی انتخابات پر کوئی بہت بڑا سکائی لیب نہ گرے تو پی ٹی آئی کیلئے کم از کم ملتان میں صورتحال بہت اچھی دکھائی نہیں دیتی خاص طور پر جب ملتان سے عامر ڈوگر کا بھائی میئر کیلئے امیدوار ہو۔