ترک ہار سے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف تک

فی الوقت تو ملک میں ایسی سیاسی گہما گہمی ہے کہ الیکشن کا سماں لگتا ہے۔ ہر دو فریقین ایک دوسرے پر اپنی توپوں کا رخ کیے ہوئے ہیں اور الزامات کی گرما گرمی میں ہمیں تو بالکل سمجھ نہیں آ رہی کہ کون زیادہ جھوٹ بول رہا ہے۔ شہباز شریف اینڈ کمپنی کہہ رہی ہے کہ خزانہ خالی ہے اور ایک محاورے کے مطابق زہر کھانے کیلئے پیسے موجود نہیں ہیں۔ دوسرا فریق کہہ رہا ہے کہ شہباز شریف نے آتے ہی عام ورکر کی کم از کم تنخواہ پچیس ہزار روپے کر دی ہے۔ ایک لاکھ سے کم تنخواہ دار ملازمین کی تنخواہ میں دس فیصد اضافہ کر دیا ہے‘ اگر خزانے میں پیسے نہیں تو بھلا پھر یہ سخاوتیں کس بل بوتے پر ہو رہی ہیں؟ مہینہ پہلے ملک میں تیل کی قیمتوں پر تب کی حزب ِاختلاف اور آج کے حکمران فرماتے تھے کہ دنیا بھر میں تیل کی قیمتیں نیچے آ رہی ہیں اور پاکستان میں نااہل حکمرانوں نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور اب ایک ماہ بعد جب حزبِ اختلاف خود حکمران کی کرسی پر براجمان ہوئی ہے تو مفتاح اسماعیل کا بیان پڑھنے کو ملا ہے کہ پاکستان میں تیل کی قیمتیں سب سے کم ہیں‘ تو آپ خود بتائیں کہ بندہ کنفیوژ نہ ہو تو پھر کیا ہو؟
بچپن میں ایک لفظ سنتے تھے ”کہہ مکرنی‘‘ تب اس لفظ کا مطلب پوری طرح سمجھ نہیں آتا تھا لیکن گزشتہ چند سال میں اس لفظ کو جتنی وضاحت سے سمجھا ہے اس کے بعد اس لفظ کو مزید سمجھنے کی حاجت نہیں رہی۔ عمران خان صاحب نے اس لفظ کو نیا لبادہ پہنایا اور اسے یوٹرن کا نام دیا۔ یوٹرن‘ کہہ مکرنی یا بات سے پھر جانا کبھی ہمارے معاشرے میں عیب سمجھا جاتا تھا لیکن عمران خان صاحب نے اسے خوبی بنا کر پیش کیا اور مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے مقلدین نے ان کی اس بات سے ایک سو ایک فیصد اتفاق کرتے ہوئے اسے واقعتاً خان صاحب کی بے شمار دیگر خوبیوں کی طرح ایک اور خوبی کے طور پر قبول بھی کیا اور اس کا پرچار بھی کیا۔ ہمارے ہاں سیاسی مقلد اور معتقداس وقت تک معرفت کے درجے پر فائز نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے لیڈر کو ہر قسم کی غلطیوں اور خطاؤں سے پاک نہ سمجھے اور اس کی خامیوں میں خوبیوں کے پہلو نہ تلاش کر لے۔ ہمارے ہاں سیاسی ورکرز سے لے کر دوسرے درجے کی قیادت تک اپنے لیڈر کو اگر معصوم عن الخطا کے درجے پر فائز نہ کریں تو ان کی اپنے لیڈر سے وفاداری کامل نہیں سمجھی جاتی اور ایسا ورکر یا لیڈر زیادہ ترقی نہیں کر سکتا۔

معاف کیجئے گا! میں کہہ مکرنی سے غیر مشروط وفاداری اور اطاعت کی طرف نکل گیا۔ ویسے تو پوری دنیا میں ہی سیاست جھوٹ اور فریب کا نام ہے اور اس کا چلن عام ہے لیکن مغرب میں جھوٹ اگر پکڑا جائے تو سیاستدان اس پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں‘ قوم سے معافی مانگتے ہیں اور تاویلات دینے کے بجائے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور ہم اپنی غلط بیانی پر یوٹرن لینے کو اپنی خوبی قرار دیتے ہیں۔ جھوٹ پکڑے جانے پر شرمندگی کے بجائے اس پر فخر محسوس کرتے ہیں‘ کہہ مکرنی کو سیاسی داؤ پیج کا درجہ دیتے ہیں‘ اپنے سابقہ بیانات کے ا لٹ کام کرتے ہوئے اسے فنکاری سمجھتے ہیں اور اپنی بات کے ا یسے ایسے مفہوم نکالتے ہیں اور ایسی ایسی تاویلات پیش کرتے ہیں کہ سننے والا دنگ رہ جاتا ہے۔

اب اسی توشہ خانے والے معاملے کو ہی دیکھ لیں۔ جب غیر ملکی دوروں پر حسبِ روایت سربراہان مملکت اور ان کے ہمراہ جانے والے وفد کے ارکان کو ملنے والے تحفوں کا معاملہ پرویز مشرف‘ شوکت عزیز‘ آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور میاں نواز شریف سے متعلق تھا تب عمران خان کا موقف تھا کہ غیر ملکی دوروں کے دوران پاکستانی حکمرانوں کو ملنے والے تحفے ریاست پاکستان کے نام پر ملتے ہیں اور ان کو ہر حال میں ریاست کی ملکیت توشہ خانہ میں جمع ہونا چاہئے۔ تب خان صاحب اور ان کے ترجمانوں کا فرمانا تھا کہ توشہ خانے میں جمع شدہ سرکاری تحائف کو خود طے کردہ قیمتوں پر اونے پونے خریدنا اخلاقیات اور ایمانداری کے تقاضوں کے بالکل منافی ہے اورکرپشن کے دائرہ کار میں آتا ہے لیکن یہ تب کا موقف ہے جب خان صاحب خود اپوزیشن میں تھے اور پاکستان کے حکمرانوں پر کرپٹ ہونے کے کوڑے برسایا کرتے تھے۔ اب جب معاملہ ان پر آن پڑا ہے تو سارے پیمانے ہی بدل گئے ہیں۔

ویسے تو اب وقت آ گیا ہے کہ اس توشہ خانے والا معاملہ بھی باقاعدہ طے کر لیا جائے تو بہتر ہے۔ اس کو جب تک موجودہ طریقہ کار کے مطابق چلایا جاتا رہے گا اسی قسم کی قباحتیں نکلتی رہیں گی۔ سب سے پہلے تو یہ ہونا چاہئے کہ ملنے والے تحفے کی قیمت حقیقی مارکیٹ ویلیو پر مبنی ہونی چاہئے۔ اس کیلئے کسی بین الاقوامی فرم کو ان تحائف کی قیمت متعین کرنے کا اختیار سونپا جائے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے کام کیلئے بہت معتبر اور تجربہ کار فرمیں موجود ہیں۔ جسے تحفہ ملے وہ یہ تحفہ اس فرم کی متعین کردہ مارکیٹ ویلیو کے اسی فیصد کے عوض خریدنے کا حق رکھتا ہو۔ اگر وہ اس تحفے کو خریدنے میں دلچسپی نہ رکھتا ہو تو پھر اس کی متعین کردہ قیمت کو کم از کم مارکیٹ پرائس قرار دے کر نیلام کر دے۔ گزشتہ ہونے والی نیلامی کے برعکس جس میں صرف سرکاری افسران وغیرہ ہی حصہ لینے کے حقدار تھے اس نیلامی کو اس قسم کی پابندیوں سے آزاد کیا جائے تاکہ ملی بھگت سے توشہ خانہ لوٹنے کا سدباب کیا جا سکے۔ اندازہ لگائیں کہ نیپال کے وزیراعظم کی جانب سے تحفے میں دیے جانے والے سکارف کی قیمت پچیس روپے لگائی گئی اور اسی طرح میاں نواز شریف ترکمانستان کی حکومت کی جانب سے دیا گیا قالین مبلغ پچاس روپے میں گھر لے گئے۔

عمران خان کو ملنے والے تحفوں کی تفصیلات تو ایک سیکرٹ ایکٹ کے نفاذ کی آڑ میں چھپا لی گئیں اور شفافیت کی دعویدار حکومت نے اس مسئلے پر عدالت میں بھی اپنے اس اخفا کا دفاع کیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ اس تفصیل کو افشا کرنے سے دوست ممالک سے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔ حالانکہ تعلقات تو تب خراب ہوں گے جب آپ ان کے قیمتی تحائف کی قیمت پچیس روپے اور پچاس روپے لگائیں گے یا ان کو اونے پونے خرید کر مارکیٹ میں فروخت کر دیں گے۔ جب عمران خان کے توشہ خانے سے خریدنے جانے والے تحفوں کی بات چلی تو تب یہ بات بھی سننے میں آئی کہ محمد بن سلیمان کی تحفہ میں دی گئی گھڑی امارات میں فروخت ہوئی ہے‘ تب تو کسی نے اس کا اقرار نہ کیا اور اب جب معاملات کھل گئے ہیں تو فواد چودھری صاحب ان تحفوں کی اونے پونے داموں پر خرید اور مہنگے داموں فروخت پر کہہ رہے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ اگر یہ تحفے خرید کر بیچ دیے گئے ہیں اور اس بات سے کیا غرض کہ کتنے میں بیچے گئے ہیں؟ ایمانداری کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں تحفوں کو اس طرح بیچنا تو عام آدمی کیلئے باعثِ شرم سمجھاجاتا ہے کجا کہ وہ حکمرانِ مملکت ہو اور حکمران بھی ایسا جو اخلاقیات‘ ایمانداری‘ شفافیت اور اعلیٰ اقدار کے بارے میں تقریریں کرتا ہوا نہ تھکتا ہو اور خود میاں فضیحت اور دوسروں کو نصیحت کی مثال ہو۔

ہمارے حکمران خواہ وہ بے ا یمان مشہور ہوں یا ایماندار۔ توشہ خانے کے تحفوں کے سلسلے میں ایک جیسے ہیں‘ لہٰذا ان پر اعتبار کرنے کے بجائے اس لوٹ مار کو روکنے کے لیے باقاعدہ قانون سازی کی جائے اور اس قانونی ڈکیتی کا قلع قمع کیا جائے کیونکہ معاملات اب یوسف رضا گیلانی کے غتر بود کردہ ترک ہار سے ہوتے ہوتے گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف کی گمشدگی تک پہنچ گئے ہیں۔