فرنٹ مین، ضامن، سرپرائز اور ٹرمپ کارڈ

کیا کبھی کسی نے اس بات پر غور کیا ہے کہ حالیہ عدم اعتماد والی بھاگ دوڑ اور پکڑ دھکڑ میں پی ٹی آئی کے بھاگنے والے ارکان اسمبلی نے زرداری صاحب کے پاس ہی پناہ کیوں لی؟ اس کا جواب کچھ لوگ یہ دے سکتے ہیں کہ زرداری صاحب کے پاس سندھ ہاؤس کی صورت میں اسلام آباد میں بندوں کو محفوظ و مامون رکھنے کا ایک ایسا مقام تھا جس سے اپوزیشن کی باقی پارٹیاں محروم تھیں اور اپنی اسی سہولت اور برتری کے باعث مفرور اراکین اسمبلی کو ان کے پاس بطور امانت رکھوایا گیا تھا۔ ایمانداری کی بات ہے جب میں یہ سوچتا ہوں کہ جناب آصف علی زرداری کو بے ایمانی کے اس کھیل میں امانتدار کا درجہ اور ضامن کی حیثیت حاصل ہے تو میرا ”ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔
سچ یہ ہے کہ مسئلہ سندھ ہاؤس کا ہرگز نہیں۔ مفرور و روپوش اراکین اسمبلی کی غالب تعداد بلکہ تقریباً سارے کے سارے سندھ ہاؤس کے بجائے اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں رہائش پذیر ہیں اور یہ اہتمام تو کوئی بھی کر سکتا تھا۔ اصل حیرانی کی بات یہ نہیں کہ ان تمام اراکین اسمبلی پر ہونے والا تمام تر خرچہ بظاہر آصف علی زرداری کر رہے ہیں، خود نہ سہی، مگر ان کی اشیرباد اور انہی کی چھتری تلے یہ سب کچھ ہورہا ہے بلکہ اصل حیرانی کی بات یہ ہے کہ زرداری صاحب کی حفاظتی و ضمانتی چھتری تلے پناہ لینے والے اکثر اراکین اسمبلی آئندہ الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بجائے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ حاصل کرنے کے امیدوار ہیں۔ فیصل آباد والے راجہ ریاض، ملتان والے احمد حسین ڈیہڑ اور جلالپور والے رانا قاسم نون، یہ اگلے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے طلبگار اور وعدہ شدہ لوگ ہیں۔ باقی کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے۔ یعنی آصف علی زرداری صاحب نے بے پناہ ایثار و قربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف سے کھسکائے ہوئے ارکان اسمبلی دراصل پاکستان مسلم لیگ (ن) کیلئے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ آصف علی زرداری صاحب ہاتھ کے کھلے، دل کے بڑے، خرچ کرنے میں بخل سے کوسوں دور اور اس قسم کے خرچے کو بوجھ سمجھنے کے بجائے سرمایہ کاری سمجھ کر ہنس کر برداشت کرتے ہیں‘ لیکن وہ اتنے سخی، دیالو اور قلندر کب سے ہوگئے کہ اپنا مال پانی خرچ کرکے میاں نواز شریف اینڈ کمپنی کیلئے ریس کے گھوڑے تیار کریں؟ ایسے گھوڑے جنہوں نے ان کے گھوڑوں سے میدان انتخاب میں دوڑ لگانی ہے؟
زرداری صاحب‘ جو وعدوں اور معاہدوں سے صاف مکر جانے کا روشن ماضی رکھتے ہوں اور سرعام یہ کہتے ہوں کہ وعدے یا معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے‘ آخر اس ساری گیم میں چیف ضامن اور مرکزی کھلاڑی کس طرح بن گئے ہیں اور لوگ باگ بشمول مسلم لیگ (ن) اور ان سے درجنوں بار خواروخستہ ہونے والی ایم کیو ایم بھی آخر کیوں ان پر اعتماد کرنے پر تیار ہے؟ گزشتہ روز شاہ جی نے یہی سوال مجھ سے کیا تو میں نے ان سے کہا کہ ایمانداری سے چلائے جانے کاموں اور معاہدوں کے ضامن عموماً شرفا ہوتے ہیں لیکن غیر قانونی اور ناجائز قسم کے کاروباری معاملات اور معاہدوں کے ضامن دوسری قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور ان غیر قانونی اور ناجائز معاملات کو نبھانے کے معاملے میں عام شرفا سے کہیں زیادہ ذمہ دار اور قابل اعتبار ثابت ہوتے ہیں۔ ایک نمبر کاموں کے ضامن ایک نمبر لوگ اور دو نمبر کاموں کے ضامن دو نمبر قسم لوگوں کو ہی بنایا جاتا ہے اور ان پر اعتبار بھی کیا جاتا ہے۔ عموماً یہ بھروسہ اور اعتبار درست ثابت ہوتا ہے۔
شاہ جی میرے تھیسز سے رتی برابر متاثر نہ ہوئے اور کہنے لگے: تم نے تھیسز کی آڑ میں دراصل زرداری صاحب کے بارے میں اپنے بغض اور دلی عناد کا اظہار کیا ہے۔ میں نے جواباً شاہ جی سے کہا کہ آپ بھی دراصل اپنی پرانی محبت کی بنا پر ایسا کہہ رہے ہیں وگرنہ آپ میری کسی بات کو منطقی طور پر یا ماضی کے حوالے سے غلط ثابت کر دیں۔ شاہ جی نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا: دراصل تمہیں اندر کی باتوں کی خبر ہی نہیں۔ اندر کی باتوں پر تو خیر سے چار حرف بھیجو، تمہیں تو ظاہر کی بہت سی باتوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔ نہ تم ٹویٹر کو فالو کرتے ہو، نہ تم انسٹاگرام پر ہی ہو۔ واٹس ایپ پر تم نے ڈیڑھ سو لوگوں کو بلاک کر رکھا ہے۔ فیس بک تم استعمال نہیں کرتے۔ باقی سب چھوڑو، تم تو ٹی وی کے ٹاک شوز تک نہیں دیکھتے۔ بھلا تمہیں کیا خبر کہ اندر خانے کیا ہورہا ہے؟ میں نے نہایت ہی باادب ہوکر شاہ جی سے عرض کی کہ پھروہ اندر کی بات بتاکر میری معلومات میں اضافہ فرما دیں توان کی بڑی عنایت ہوگی اور لگے ہاتھوں یہ بھی بتا دیں کہ اس بات میں کیا راز ہے کہ نون لیگ کی ٹکٹ کے امیدوار مفروروں کے سارے نخرے اور خرچے زرداری صاحب اٹھا رہے ہیں‘ بھلا اپنے سیاسی مخالفین کو اس طرح کی سہولت کاری کون فراہم کرتا ہے۔
شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے: یہی وہ بات ہے جس کا تمہیں علم نہیں۔ اس بار ”انہوں‘‘ نے… شاہ جی نے ”انہوں‘‘ پر زور دیتے ہوئے کہا… ضامن، فرنٹ مین اور سہولت کار کیلئے زرداری صاحب کا انتخاب کیا ہے۔ زرداری صاحب نہایت سمجھدار اور موقع شناس ہیں۔ وہ سیاست میں جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندی کے قائل ہیں اور موجودہ صورتحال میں ان سے زیادہ بااعتبار اور قابل بھروسہ اور کوئی نہیں ہو سکتا تھا‘ ان کا انتخاب نہایت سوچ سمجھ کر کیا گیا ہے، لہٰذا بندے بے شک مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے امیدوار ہیں لیکن وہ رکھے زرداری صاحب کی حفاظتی تحویل میں گئے ہیں۔ نون لیگ کیلئے بندے بھجوانے والوں کو نون لیگ پر بھی اعتبار نہیں۔ بندے اسی لئے زرداری صاحب کے سپرد کئے گئے ہیں کہ اگر بات نہ بنے تو انہیں واپس بھجوانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔
میں نے کہا: شاہ جی اگر آپ انکشافات پر اتر ہی آئے ہیں تو براہ کرم یہ بھی فرما دیں کہ مبلغ پونے دو گھنٹے سے زائد طویل خطاب میں عمران خان نے کیا سرپرائز دیا ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: کیا یہ کم سرپرائز ہے کہ پورے پاکستان سے بندے اکٹھے کرکے پونے دو گھنٹے سے زیادہ لمبی تقریر کی‘ اور اس موقع پر جبکہ ان کے حامی کسی انکشاف کی توقع لگائے بیٹھے تھے انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کی۔ میں نے کہا: اور وہ خط جو انہوں نے لہرایا تھا‘ وہ کیا تھا؟ شاہ جی کہنے لگے: اللہ ہی جانتا ہے اس میں کیا تھا؛ تاہم میرا خیال ہے کہ وہ دراصل بزدار صاحب کا استعفیٰ تھا جو غلطی سے انہوں نے جلسے میں لہرایا تھا اور غلطی کا احساس ہونے پر واپس جیب میں ڈال لیا۔ میں نے کہا: شاہ جی اب آپ مذاق پر اتر آئے ہیں۔ شاہ جی کہنے لگے: جب اس ملک کے سارے سیاستدان اور ذمہ دار مذاق فرمانے پر اترے ہوئے ہیں تو بھلا مجھ پر اس کی پابندی کیوں ہو؟ میں نے کہا: شاہ جی! آخری سوال‘ وہ ٹرمپ کارڈ کیا ہے اور کس کے پاس ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: ٹرمپ کارڈ جس کا ہے اسی کے ہاتھ میں ہے۔ میں نے کہا: یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ کس کے ہاتھ میں ہے؟ شاہ جی کہنے لگے: چونکہ یہ ٹرمپ کارڈ ہے اس لئے ظاہر ہے ٹرمپ کے، میرا مطلب ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کو ڈونلڈ ٹرمپ کا تو پتا ہی ہے کہ وہ ایسا آدمی ہے جس کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اب اللہ ہی جانے کہ وہ یہ کارڈ خان صاحب کو دیتا بھی ہے یا نہیں بلکہ اس میں کچھ ہے بھی یا نہیں۔