معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
وعدوں کا جنرل اسٹور
گزشتہ چند مہینوں سے علمائے دین اور عالمۂ دین ایک سے زیادہ شادیوں کے حق میں پھر رہے ہیں بلکہ شرفا کو ورغلانے کیلئے اس کے فوائد گنوانے میں لگے رہے ہیں، چنانچہ ان دنوں میں نے دیکھا ہے اچھے خاصے شرفاءبھی دوسری، تیسری یا چوتھی شادی کے بارے میں سوچ رہے ہیں بلکہ ایک بزرگوار نے مجھ سے کہا ’’عزیزم بڑھاپے میں انسان کو ’’رفیق کار‘‘ کی نہیں رفیق حیات کی ضرورت ہوتی ہےچنانچہ اگر تمہاری نظروں میں کوئی مناسب سا رشتہ ہو تو بتانا مگر عمر پچاس برس سے کم نہیں ہونی چاہیے۔ میں جانتا تھا کہ مرد توساٹھ، ستر برس کی عمر میں بھی شادی کرلیتے ہیں مگر خواتین پچاس کے سن میں عموماً اس قسم کے اقدام سے گریز کرتی ہیں چنانچہ میں نے عرض کیا کہ عمر کی یہ شرط شاید پوری نہ ہوسکے۔ چنانچہ اگر آپ مناسب سمجھیں تو پچیس پچیس برس کے دو رشتے تلاش کر لئے جائیں!یہ سن کر بزرگوار نے تحسین بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا،’’ برخوردار میں جانتا ہوں تم جوفیصلہ بھی کرو گے وہ مثبت اور صحیح ہوگا لہٰذا مجھ سے پوچھنے کی کوئی ضرورت نہیں جو مناسب سمجھو کرو۔‘‘
یہ درمیان میں بزرگوار موصوف یونہی آن ٹپکے حالانکہ یہ کالم میں ’’ضرورت رشتہ‘‘ کے حوالے سے لکھنے نہیں بیٹھا بلکہ میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ اگرچہ ان دنوں شادیوں کا پہلے جیسا زور وشور نہیں ہے مگر پھر بھی مہینے میں دو تین بار کسی نہ کسی شادی میں شرکت کرنا پڑتی ہے اور ’’منہ دکھائی‘‘ دیتے ہوئے ایسے ایسے منہ دیکھنے پڑتے ہیں جنہیں ’’دُرفٹے منہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایک دو لہا کو ’’منہ دکھائی ‘‘ دیتےہوئے تو میں نےیہ شرط عائد کی کہ وہ اپنے رخ زیبا سےسہرا نہیں ہٹائے گا کیونکہ موصوف کے ماتھے اور سر میں کوئی حدِ فاصل نہیں تھی۔ بس ایک ’’رڑا میدان‘‘تھا جو کسی کام کا نہیں تھا بلکہ اسے نرا صابن کا خرچہ کہنا چاہئے کہ منہ دھوتے ہوئے سر بھی ساتھ دھونا پڑتا ہے، مجھے سہروں میں لپٹے ہوئے دولہے کچھ اچھے نہیں لگتے مگر اس روز محسوس ہوا کہ سہرا تو’’ستار العیوب‘‘ہے۔
ایک اور اسی قسم کے دولہا سے ان دنوں میری ملاقات ہوئی۔ موصوف بہت خوش نظر آتے تھے۔ میں نے کہا ماشا اللہ تم تو بہت خوش ہو مگر فریق مخالف کا کیا حال ہے؟ کہنے لگے’’وہ مجھ سے زیادہ خوش ہے۔‘‘ میں نے کہا ’’وہ کیسے؟‘‘ بولے ’’ وہ ایسے کہ تم نے مجھے دیکھا ہے اسے نہیں دیکھا۔‘‘ مجھے یہ دولہا میاں اپنی سپورٹس مین شپ کی وجہ سے اچھے لگے اور مجھے اس امر کی خوشی ہوئی کہ شادی کے بعد بھی اللہ تعالیٰ نے ان کی حسِ ظرافت برقرار رکھی ہے ورنہ ہمارے ہاں حسِ ظرافت کا مظاہرہ بس اتنا ہی کیا جاتا ہے کہ شادی کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے۔ انہی دنوں ایک اور ’’نوگرفتار‘‘ سے میری ملاقات ہوئی موصوف اپنی رجائیت کے حوالے سے ’’مسٹر چیئرفل‘‘ واقع ہوئے ہیں، وہی ’’مسٹر چیئرفل‘‘ جن کا ایک پائوں کٹ گیا تھا اور وہ اس امر پر بہت خوش تھے کہ آئندہ انہیں دونوں پائوں کی بجائے صرف ایک پائوں میں جوتا پہننا پڑے گا چنانچہ میں نے انہیں راستے میں روک لیا اور پوچھا کہ شادی کے تجربے سے گزرنے کے بعد آپ کا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہنے لگے ، دوسری شادی کے بارے میں؟ میں ان کے اس سوال پر سٹپٹا گیا اور کہا ’’نہیں میاں میرا مطلب یہ ہے کہ شادی کرنا کیسا تجربہ ہے؟‘‘ بولے بہت اچھا تجربہ ہے، میرے خیال میں ہر اس شخص کو شادی کرنا چاہیے جو شادی کے علاوہ کچھ نہ کرسکتا ہو۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘’’مطلب یہ کہ جس طرح نابینا حضرات کو کوئی اور کام نہ ملے تو وہ موذن بن جاتے ہیں۔ بی اے پاس کو دفتر میں نوکری نہ ملے تو وہ اسکول ٹیچر ہو جاتے ہیں، اور ان دنوں کسی کو نان میڈیکل میں داخلہ نہ ملے تو وہ آرٹس میں داخلہ لے لیتا ہے اسی طرح اگر کوئی شخص زندگی میں جو کام کرنا چاہتا ہے وہ نہ کر سکے تو اسے شادی کرنی چاہیے، اس کے بہت فائدے ہیں۔‘‘’’مثلاً کیا فائدے ہیں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’مثلاً یہ کہ سست سے سست انسان میں سیر کی عادت ڈویلپ ہو جاتی ہے چنانچہ وہ شادی کے اگلے مہینے گھر پر بیٹھنے کی بجائے صبح کے ناشتے سے پہلے دوپہر کے کھانے اور ہر رات کے کھانے کے بعد سیر کرنے کیلئے گھر سے نکل جاتا ہے اس سے اس کی صحت ٹھیک رہتی ہے کیونکہ ماہرین طب کے مطابق انسان کوزیادہ سے زیادہ وقت کھلی فضائوں میں گزارنا چاہیے۔‘‘
’’بالکل ٹھیک ہے اس کے علاوہ کوئی اور فائدہ؟‘‘ اس نے جواب دیا،’’ فی الحال تو یہی ایک فائدہ سوجھا ہے ویسے بھی میں رجائیت پسند ضرور ہوں مگر اتنا نہیں جتنا تم سمجھ بیٹھے ہو۔‘‘
تاہم شادی کے حوالے سے کئے گئے سروے کے نتیجے میں جو ایک بالکل نیا نکتہ سامنے آیا ہے آخر میں اس کا بیان ضروری ہے۔ یہ نکتہ بھی میں نے ایک دولہا کے منہ سے براہ راست سنا ہے چنانچہ اسے ’’فرام ہارسز مائوتھ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ میرے ایک دولہا دوست کا کہنا ہے کہ شادیوں کے مواقع پر دیئے گئے تحائف اور سیاسی جماعتوں کے وعدے وعید کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہونے چاہئیں۔ میں اس ان مل بے جوڑ قسم کے بیان پر حیران ہوا تو اس نے کہا ’’حیرانی کی کوئی بات نہیں بات دراصل یہ ہے کہ میری شادی کے موقع پر جو تحائف موصول ہوئے تو پتہ چلا کہ ایک ایک آئٹم کثیر تعداد میں موصول ہو گئی ہے مثلاً 13استریاں، 22ٹی سیٹ،52 پارکر کے پین، 182پرفیومز، 86 سوٹ اور اسی طرح کی دوسری چیزیں اتنی تعداد میں موصول ہوئیں کہ اب اتنی ساری چیزیں میرے کسی کام کی نہیں سوائے اس کے کہ میں جنرل اسٹور کھول لوں۔ جب کہ یہی کام اگر منصوبہ بندی کے تحت ہوتا تو مجھے اپنی تمام ضروریات کی چیزیں موصول ہو جاتیں۔
’’چلو یہ تو ٹھیک ہے مگر سیاسی پارٹیوں کے وعدے وعید کا اس سے کیا تعلق ہے؟‘‘ ’’بہت گہرا تعلق ہے،‘‘ دوست نے کہا۔ان دنوں سب سیاسی پارٹیاں ایک ہی قسم کے وعدے کئے جا رہی ہیں کچی آبادیاں، قبضہ گروپ، انسداد رشوت وغیرہ وغیرہ یہ سب اچھی چیزیں ہیں مگر ایک ایک آدمی کے حصے میں ایک ہی وعدہ کثیر مقدار میں آ رہا ہے حالانکہ اب ان کی بجائے اگر شہریوں کی جائز ضرورتیں پوری کرنے کے وعدے بھی کئے جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا مثلاً کاروباری مراکز اور شہر کی مصروف سڑکوں پر باتھ رومز کی تعمیر، رکشوں موٹر سائیکلوں کے اترے ہوئے سائلنسر دوبارہ لگوانے کا وعدہ ویگنوں میں گنجائش کے مطابق سواریاں بٹھانے کا وعدہ، سڑکوں پر زیادہ سے زیادہ بسیں لانے کا وعدہ، فٹ پاتھ تجاوزات سے خالی کرانے کا وعدہ، ٹیکسیوں کے میٹر ٹھیک کرانے کا منشور یہ اور اس قسم کے دوسرے بیسیوں کام ہیں اگر سیاسی پارٹیاں وعدے وعید بانٹ لیں تو ان کی بڑی مہربانی ورنہ وعدوں کی بہتات سوائے اس کے کسی کام کی نہیں کہ ان کا جنرل اسٹور کھول لیا جائے۔