گورنر چیمہ اور دستورِ پاکستان

53 سالہ گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ تحریک انصاف کے بنیادی اراکین میں سے ہیں۔ ایک فوجی افسر کے بیٹے ہیں، اولڈ راوین ہیں، اور ایک سنجیدہ سیاسی کارکن کے طور پر پہچانے جاتے رہے ہیں۔ جب عمران خان صحرائوں میں اذان دیتے پھر رہے تھے، یہ تیمم کے ڈھیلے اکٹھے کرنے میں لگے رہتے تھے۔ گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے لیکن پہلوانی وجۂ شہرت نہیں بنی۔ کسی کو دعوتِ مبارزت دیتے یا اکھاڑے میں اُتر کر پچھاڑتے یا پچھڑتے انہیں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ گورنر چیمہ کو دیکھ کر مجھے گورنر گورمانی کی یاد آ جاتی ہے۔ اس کی وجہ آگے بیان ہو گی۔ نواب مشتاق احمد گورمانی کہ ایک زمانے میں پاکستانی سیاست میں ان کا سکّہ چلتا تھا، وزیر داخلہ رہے، گورنر رہے، 1956ء کا دستور بنانے میں کردار ادا کیا، مارشل لا لگا تو گوشہ نشین ہو گئے، اپنے گھر ہی کو اپنی خانقاہ بنا لیا۔ ایوب خان کی رخصتی کے بعد کوچۂ سیاست میں پھر وارد ہوئے، لیکن اب جماعت اسلامی من کو بھائی۔ سفید براق داڑھی اُن کی وجاہت کو دوبالا کیے دیتی تھی۔ ان کے ایک داماد کی مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی اہلیہ محترمہ سے رشتے داری تھی۔ گورمانی صاحب جماعت اسلامی میں شامل ہوئے، اسے توانا کرنے میں لگے رہے، لیکن انتخاب میں حصہ نہ لیا۔ ان سے نیاز مندانہ تعلق قائم رہا۔ ہفت روزہ ”زندگی‘‘ کے لیے ان کا خصوصی انٹرویو ملتان پہنچ کر کیا۔ برادرِ محترم ریاض چوہدری کہ آج بزمِ اقبال کے ڈائریکٹر ہیں، اُس وقت ”پاکستان ٹائمز‘‘ سے وابستہ تھے، اور ملتان کے اہلِ صحافت کے سرتاج تھے۔ ان کی رہنمائی میں ملاقات کا وقت طے ہوا۔ پاکستان کی سیاست اور تاریخ کے کئی اہم گوشوں پر انہوں نے روشنی ڈالی یا یوں کہیے کہ الفاظ کا جادو جگایا۔ وہ گلبرگ کی مرکزی شاہراہ کے قریب اپنی وسیع کوٹھی ہی میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ گورمانی صاحب کو پختہ یقین تھا کہ پاکستان کے لیے نیا دستور بنانے کی کوشش کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اپنے ہی بنائے ہوئے 1962ء کے آئین کی حفاظت بھی نہیں کر سکے تھے۔ یوں وہ دو بار حلف شکنی کے مرتکب ٹھہرے۔ بحیثیت کمانڈر انچیف انہوں نے 1956ء کے دستور کی حفاظت کا حلف اٹھایا تھا، اکتوبر 1958ء میں مارشل لا نافذ کر کے اس حلف کو توڑا۔ اس کے بعد پاکستان کو نیا آئین دیا، جو صدارتی نظام اور بالواسطہ طرزِ انتخاب لے کر آیا۔
1956ء کا دستور پاکستان کی مجلس دستور ساز نے طویل غور و خوض کے بعد منظور کیا تھا، جسے مغربی اور مشرقی پاکستان میں یکساں طور پر قبول کر لیا گیا تھا۔ قومی اتفاق رائے سے وجود میں آنے والی اس دستاویز کو دو ہی سال بعد مارشل لا نے پامال کر دیا، اور جنرل (بعد ازاں فیلڈ مارشل) ایوب خان نے پارلیمانی نظام کو تمام سیاسی برائیوں کی جڑ قرار دیتے ہوئے ختم کرنے کا اعلان کیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کا ادارہ قائم کیا، اور اس کے ارکان سے اعتماد کا ووٹ لے کر بلا مقابلہ صدر ”منتخب‘‘ ہو گئے۔ اُس کے بعد قوم کو 1962ء کے آئین کا تحفہ دیا گیا۔ یہ دستور نافذ تو ہو گیا لیکن قوم کے اجتماعی ضمیر نے اسے قبول نہ کیا۔ سیاسی سرگرمیاں بحال ہوئیں تو اس کے خلاف رائے عامہ منظم ہوتی گئی۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کے خلاف اپوزیشن نے طاقت پکڑی تو وہ اس سے مذاکرات پر مجبور ہوئے۔ اپنے دستور میں ایسی ترامیم کرنے سے اتفاق کر لیا جن کے ذریعے 1956ء کا آئین جوہری طور پر بحال ہو جانا تھا‘ لیکن یہ منصوبہ پایۂ تکمیل کو نہ پہنچ سکا۔ جنرل یحییٰ خان گھات لگا کر بیٹھے تھے۔ ان کے عدم تعاون نے ایوب خان کو اقتدار ان کے سپرد کرنے پر ”مجبور‘‘ کر دیا۔
تجربہ کار سیاست دانوں اور دانش وروں کا مطالبہ تھا کہ 1956ء کا دستور بحال کر دیا جائے تاکہ گاڑی وہیں سے دوبارہ آغازِ سفر کر سکے جہاں پٹڑی سے اتاری گئی تھی۔ ان کا استدلال تھا کہ دستور سازی تنائو اور کشمکش کے ماحول میں ممکن نہیں ہوتی۔ اب سیاسی عناصر میں جو اختلافات ابھر آئے ہیں، اور مشرقی پاکستان میں مرکز گریز رجحانات کی جس طرح پرورش ہوتی رہی ہے، اس کی وجہ سے نئی اسمبلی میں تعاون اور اشتراک کی فضا مفقود ہو گی، نئے دستور پر اتفاق نہیں ہو سکے گا، اور ملکی سالمیت کو سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا۔ جنرل یحییٰ خان اور ان کے حواری جرنیلوں نے ایک نہ سنی، اور نیا دستور بنانے کے لیے انتخابات کرا گزرے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں کامیاب ہوئیں، ان کے تصادم نے بالآخر ملک کو دو لخت کر دیا۔ نواب مشتاق احمد گورمانی ان سینئر سیاست دانوں میں نمایاں تھے جو قوم کو خطرے سے مسلسل خبردار کر رہے تھے۔ میرے کانوں میں ان کے الفاظ آج بھی گونج رہے ہیں کہ اگر ملک کو ایک رکھنا ہے تو 1956ء کا دستور بحال کرنا پڑے گا، اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آئین نہیں بن سکے گا۔ ملک اکٹھا نہیں رہے گا۔
آج جبکہ پاکستان ایک بار پھر سیاسی بحران کی لپیٹ میں ہے، گورنر عمر سرفراز چیمہ پنجاب کے گورنر ہائوس میں براجمان ہیں۔ انہیں نواب گورمانی سے نسبتِ خاص یوں ہے کہ ان کی اہلیہ مرحوم کی نواسی ہیں۔ گورنر چیمہ کو اپنی سسرال کے ذریعے گورمانی صاحب کے افکار و خیالات سے استفادے کا موقع بھی ملا ہو گا۔ ان کی وسیع لائبریری سے بھی ان کا تعارف ہوا ہو گا، اور سیاست کے ایک سنجیدہ طالب علم کے طور پر انہوں نے تاریخ کا مطالعہ بھی کیا ہو گا۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ قوموںکی زندگی میں دستور کی اہمیت کیا ہے، خصوصاً پاکستان کے لیے تو اس کی اہمیت دو چند بلکہ سہ چند ہے کہ دستور کی تلاش کرتے کرتے یہ دو لخت ہو گیا تھا۔ گورنر عمر سرفراز چیمہ دستور کے مطابق وزیر اعلیٰ کی ایڈوائس پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ دستور نے انہیں کوئی انتظامی اختیارات نہیں سونپے۔ وہ وفاقی حکومت کے ایک نمائندے کے طور پر صوبائی دارالحکومت میں مامور ہیں۔ ان کی نظر سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ دستور کی تعبیر اور تشریح کا اختیار عدالت عالیہ اور عظمیٰ کے پاس ہے۔ عدالت کے کسی فیصلے کو ماننے سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اس کے خلاف اپیل ہو سکتی ہے۔ اگر حکم امتناعی جاری نہیں ہوتا تو اپیل کے باوجود اس پر عمل درآمد ہو گا۔ انہیں یہ بھی پتا ہو گا کہ کسی جج کے کسی فیصلے کو موضوع بنا کر اس پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر نہیں کیا جا سکتا۔ اپیل کے علاوہ کوئی ”ریمیڈی‘‘ موجود نہیں ہے۔ اگر ججوں کے فیصلوں پر ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کی اجازت دے دی جائے تو پھر عدالتی نظام زمین بوس ہو جائے گا کہ عدلیہ کی آزادی کا تصور بری طرح مجروح ہو گا۔ گورنر صاحب کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ وہ آرمی چیف کو براہِ راست خط لکھ کر مداخلت کی دعوت بھی نہیں دے سکتے۔ جناب گورنر نے جو یہ خواہش ظاہر کی ہے کہ انہیں ایک صوبیدار اور چار سپاہی مل جائیں تو وہ صوبے کے انتظامی سربراہ (وزیر اعلیٰ) کو گرفتار کر کے اپنے دِل کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں تو نرم سے نرم الفاظ میں یہ دستور شکنی ہے۔ گورنر صاحب بہادر سے بصد ادب یہ گزارش ہے کہ وہ جو کتابِ دستور لوگوں کو تحفے میں بھجوا رہے ہیں، اس کا مطالعہ خود بھی فرما لیں۔ دستور کی پامالی کا نتیجہ کیا نکلتا ہے، اور پامال کرنے والوں کی سزا کیا ہے، اس کے لیے اپنے نانا سسر گورنر مشتاق احمد گورمانی کی لائبریری میں جھانک کر ہی دیکھ لیں۔ چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔