خوش کلامی تو ہمارے ہاں عنقا ہوتی جا رہی ہے

مجھ جیسے لکھنے والوں کا حال فی زمانہ تو خاصا خراب ہے۔ ایک دن ایک پارٹی کے مقلد تبّراکرتے ہیں تو دوسرے دن دوسری پارٹی کے رضاکار دھلائی کرتے ہیں۔ ایک فریق ہمیں ”پٹواری‘‘ تو دوسرا ”یوتھیا‘‘ قرار دیتے ہوئے حسبِ توفیق طبیعت صاف کرتا رہتا ہے۔ ایک قاری نے گزشتہ دنوں ای میل کر کے پوچھا کہ کیا مجھے ہر روز کسی نہ کسی پارٹی کے ذہنی غلام سے گالیاں کھانے کا شوق ہے؟میں نے عرض کیا کہ کیا خیال ہے ہمیں یہ علم نہیں کہ فی زمانہ سمجھدار لوگ کیا کررہے ہیں؟ ہمیں یہ پتا ہے کہ مقبولیت کا سکہ رائج الوقت یہی ہے کہ آپ کسی ایک پارٹی کے علمبردار بن جائیں اور اگر ایک طرف سے سب و شتم ملے تو کم از کم دوسری طرف سے تو داد کے ڈونگرے وصول کریں۔ عقلمندی‘ سمجھداری اور دنیاداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ کسی پارٹی کے ترجمان ٹائپ صحافی بن جائیں‘ اپنا ایک یو ٹیوب چینل کھول لیں اور پھر مزے کریں۔ لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کی سمجھداری تو ہم نے جوانی میں بھی نہیں کی اور اب تو ویسے بھی عمر کا وہ حصہ آ چکا ہے جہاں گناہگاروں کو آخرت کی فکر پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔
جان عجب مصیبت میں آئی ہوئی ہے‘ دوطرفہ سوالات کا زمانہ ہی نہیں رہا کہ ان کا حاصل وصول یہ ہے کہ بندے کو دونوں اطراف سے گالیاں پڑتی ہیں۔ اگر ایک ارب روپے کے ہیلی کاپٹر خرچے کا پوسٹ مارٹم کریں تو سارے خرچے کی ہوا نکل جاتی ہے۔ سرکاری ہیلی کاپٹر کا حساب کمرشل ہیلی کاپٹر سے کر کے ایک ارب روپے کے لگ بھگ کے خرچے کا غیر سیاسی جائزہ لیا جائے تو سارے پروپیگنڈے کا دھڑن تختہ ہو جائے۔ بنی گالہ سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع پرائم منسٹر ہاؤس تک جانے کا روزانہ خرچہ اگر تین سال کے دوران کیے گئے 98 کروڑ 43 لاکھ 55 ہزار روپے پر تین سال کے تقریباً گیارہ سو یوم سے تقسیم کیا جائے تو روزانہ کا اوسط خرچہ آٹھ لاکھ چورانوے ہزار روپے بنتا ہے یعنی فی کلو میٹر انتیس ہزارآٹھ سو اٹھائیس روپے کا خرچہ اگر کوئی ہیلی کاپٹر اتنے پیسوں میں ایک کلو میٹر طے کرتا ہے تو دنیا بھر میں ہیلی کاپٹر استعمال کرنے والے تو ضرور دیوالیہ ہو چکے ہوتے۔
میرا ایک نہایت ہی قریبی عزیز برخوردار ایم آئی 17ہیلی کاپٹر کا پائلٹ رہا ہے اور اس سے اس ہیلی کاپٹر کا خرچہ معلوم کیا تو علم ہوا کہ اس بڑے ہیلی کاپٹر کے فیول کا خرچہ آٹھ سو لٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ ہے ‘ تاہم پٹرول‘ دیگر لبریکینٹس‘ پرزوں کا گھساؤ اور Wear and Tear یعنی ٹوٹ پھوٹ وغیرہ کا سارا خرچہ بھی ڈال لیں تو آج کل یہ خرچہ فی گھنٹہ تقریباً آٹھ سو ڈالر کے قریب یا اس سے تھوڑا کم بنتا ہے جبکہ وزیراعظم کے زیراستعمال ہیلی کاپٹر ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر سے کہیں چھوٹا اور Efficient Fuel ہے۔ ایم آئی17 میں عام طور پر چوبیس افراد اور وی آئی پی شخصیات کیلئے صوفوں وغیرہ کے ساتھ تیرہ افراد کی گنجائش ہے جبکہ وزیراعظم کے زیر استعمال ہیلی کاپٹر کی گنجائش پانچ افراد ہے۔ ایم آئی سترہ فی گھنٹہ چار سو لٹر تیل پھونکتا ہے جبکہ وزیراعظم والا ہیلی کاپٹر دو سو لٹر تیل استعمال کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق یہ ہیلی کاپٹر ایک گھنٹے میں تقریباً دو سو کلو میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے اور اس کا فی گھنٹہ خرچہ مع تیل اور دیگر لوازمات و اخراجات ایک لاکھ روپے سے کسی صورت زیادہ نہیں ہے اور بنی گالہ سے وزیراعظم ہاؤس تک آنے جانے میں آدھ گھنٹہ بھی نہیں لگتا مگر ٹیک آف‘ لینڈنگ اور ٹیکسی وغیرہ کا خرچہ کھینچ تان کر زیادہ سے زیادہ بھی ایک لاکھ روزانہ سے زیادہ نہیں بنتا مگر اخباری خبروں کے مطابق اس ہیلی کاپٹر کا بنی گالہ اور وزیراعظم ہاؤس تک آنے جانے کا روزانہ خرچہ آٹھ لاکھ اٹھانوے ہزار روپے ہے۔ اب کہاں آٹھ لاکھ اٹھانوے ہزار روپے اور کہاں ایک لاکھ روپے روزانہ اور وہ بھی اس صورت میں کہ اگر یہ ہیلی کاپٹر واقعتاً سال کے 365دن بنی گالہ تا وزیراعظم ہاؤس شٹل سروس میں مصروف رہتا۔
میرے درج بالا حساب کتاب سے پی ٹی آئی والے بڑے خوش ہوں گے اور انہیں ہونا بھی چاہیے لیکن اگرمیں یہ سوال کر دوں کہ اگر وزیراعظم عمران خان نے ہیلی کاپٹر ہی استعمال کرنا تھا تو توشہ خانے والے تحفے بیچ کر اپنی سڑک کیوں بنوائی؟اگر سڑک بنوائی تھی تو استعمال کیوں نہ کی؟ اور اگر استعمال نہیں کرنی تھی تو پھر بنوائی کیوں تھی؟ دوسری بات یہ کہ توشہ خانے کے تحفوں کی فروخت کی مبینہ رقم چودہ پندرہ کروڑ سے بھی زائد ہے جبکہ خان صاحب نے اس سڑک کی تعمیر و مرمت کا جو پے آرڈر دیا تھا وہ تو صرف مبلغ تیس لاکھ روپے کا تھا تو بقیہ پیسے کس سڑک پر لگے ہیں؟ ہیلی کاپٹر کا خرچہ بھی غلط ہے اور جھوٹ کے پلندے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور سڑک کی تعمیر کیلئے ادا کی جانے والی رقم بھی اصل اعدادو شمار کا محض دو فیصد ہے اس طرح باقی اٹھانوے فیصد کا حساب تو پھر خان صاحب کو دینا چاہئے۔ اب اگر مجھ جیسا احمق اس اٹھانوے فیصد کا حساب مانگے گا تو پھر پی ٹی آئی والوں سے گالیاں تو پڑیں گی۔ لیکن کیا کیا جائے؟ اب گالیوں کے ڈر سے سچ لکھنا بند کر دیا جائے؟
اب یہ بھی نہ لکھا جائے کہ کس طرح چن چن کر ہیرے اکٹھے کیے جا رہے ہیں اور انہیں وزارتیں اور مشاورتیں عطا کی جا رہی ہیں۔ ایک سے ایک حاضر سروس اور سابقہ مبینہ ملزموں کو وزیر‘ مشیر اور معاون خصوصی کا درجہ عطا کیا جا رہا ہے۔ لے دے کر حنیف عباسی بچا ہوا تھا اسے بھی خیر سے وزیراعظم میاں شہباز شریف کا معاونِ خصوصی بنا کر وفاقی وزیر کے برابر مراعات اور دیگر سہولتیں دینے کا حکم نامہ جاری کر دیا گیا ہے۔ ایک شرپسند دوست کا کہنا ہے کہ اس تعیناتی کے بعد کسی نے زور سے آواز بھی لگائی ہے کہ ”کوئی رہ تو نہیں گیا؟‘‘۔
ایک نہایت ہی معقول دوست سے دریافت کیا کہ آخر حنیف عباسی کو کس خوشی میں معاون خصوصی کا رتبہ بلند عطا ہوا ہے تو اس نے نہایت تیقن سے بتایا کہ دراصل اس حکومت کو عمران خان کی دشنام طراز بریگیڈ کا زبانی کلامی مقابلہ کرنے کیلئے جس قسم کے لوگوں کی ضرورت تھی حنیف عباسی اس صلاحیت اور مطلوبہ معیار پر پورا اترتا ہے اس لئے اسے یہ منصب عطا کیا گیا ہے۔ میں نے اپنے اس دوست سے پوچھا کہ کیا بدزبانی اور بدکلامی میں مقابلہ کرنا بہت ضروری تھا؟ وہ دوست کہنے لگا :آج کل یہی کچھ بِک رہا ہے اور اسی کا چلن ہے لہٰذا اسی قسم کے اور اسی Qualification کے لوگوں کی مانگ ہے۔ اکنامکس کے اصولوں کے مطابق مارکیٹ میں اسی چیز کی گاہکی ہوتی ہے جس کی مانگ ہو اور جس چیز کی مانگ ہو اسی کی سپلائی ہوتی ہے۔ یہ سیدھا سا طلب اور رسد کا مسئلہ ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ تمہاری بات سمجھ بھی آتی ہے اور دل کو بھی لگتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اب ہمارے ٹیکس کی ادائیگی کا یہ مصرف ہوگا کہ اس کے عوض اپنے سیاسی مخالفین کی حتی المقدور دھلائی کرنے کیلئے بندے بھرتی کیے جائیں اور انہیں وفاقی وزیر کے برابر مراعات دے کر مخالفین کی طبیعت صاف کرنے کا فریضہ سرانجام دلوایا جائے؟ وہ دوست کہنے لگا: پہلے والوں نے بھی فواد چودھری‘ شہباز گل اور فیاض چوہان جیسے نابغے اسی کام کیلئے رکھے ہوئے تھے تو ان پر اعتراض کس لیے؟ میں نے کہا حضرت بایزید بسطامی کا قول ہے کہ بدگوئی اور بدکلامی کے مقابلے میں جیتنے والا شخص ہارنے والے سے زیادہ گھٹیا ہوتا ہے۔ پھر فرمایا انسان کو چار اشیا دوسروں سے بلند کرتی ہیں۔ حلم‘ علم‘ کرم اور خوش کلامی…ادھر عالم یہ ہے کہ خوش کلامی تو ہمارے ہاں اب عنقا ہی ہوتی جا رہی ہے۔