سپریم کورٹ میں عافیہ شہربانو کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت

سپریم کورٹ میں عافیہ شہربانو کیس کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی۔

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 21 اپریل کے بجائے 11 اکتوبر سے نافذ ہو تو یہ اپیل قابل سماعت نہیں۔

جسٹس امین الدین نے کہا کہ اپیل قابل سماعت ہونے پر نہیں، مرکزی کیس پر آپ کی معاونت درکار ہے۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت اپیل کے ماضی سے اطلاق کی شق کالعدم قرار دی گئی، ججز پر عام قوانین لاگو نہیں ہوتے، اگر جج پر کرپشن کے الزامات ہوں تو اس کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار جج کی ریٹائرمنٹ کے ساتھ ہی ختم ہو جاتا ہے، بھارتی عدالت نے قراردیا کہ جج کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو سکتی ہے۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ اگر جوڈیشل کونسل کارروائی شروع کر چکی تو کیا جج کی ریٹائرمنٹ سے ختم کر دے۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ اگر میں بطور جج کوئی جرم کرتا ہوں تو میرے استعفے سے کلین چٹ مل جائے گی؟

جسٹس عرفان نے پوچھا کہ موجودہ کیس میں جوڈیشل کونسل سابق چیف جسٹس کے خلاف کارروائی نمٹا چکی، اگر کونسل ایک بار رائے دے چکی تو کیا دوبارہ کارروائی کھولی جاسکتی ہے؟

جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کو یرغمال بنا سکتا ہے؟ کیا چیف جسٹس اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں خود شکایت سن سکتا ہے؟

عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ ضابطے کے تحت جس جج کے خلاف شکایت ہو وہ خود کو کونسل سے الگ کر لیتا ہے، ججز کے خلاف انکوائری رولز صرف حاضر سروس جج کے خلاف ہیں۔

جسٹس امین الدین نے سوال کیا کہ کیا جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے سے جوڈیشل کونسل کی کارروائی ختم ہو جاتی ہے؟

فیصل صدیقی نے بتایا کہ جج کا استعفیٰ بدنیتی کی بنیاد پر چیلنج کیا جاسکتا ہے، ججز کی کرپشن پر اینٹی کرپشن یا نیب جیسے اداروں کو کارروائی سے کوئی نہیں روکتا۔

جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کوئی ادارہ ججز کے خلاف کارروائی کرے تو کیا انصاف کی فراہمی میں ججز پر خوف کی تلوار نہیں لٹکتی رہے گی؟