ہائے رے! شوقِ اقتدار

بچپن سے ایک جملہ سنتے آ رہے ہیں کہ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ ویسے تو فدوی کو اس جملے سے بھی اختلاف ہے کہ جنگ کی اخلاقیات کا دارومدار سپہ سالار اور امیرِ لشکر کی تربیت اور ان کی ریاست کے امیر پر ہوتا ہے۔ دورانِ جنگ ایک غیر مسلم خاتون کا بچہ کھو گیا۔ وہ دہائی دیتی ہوئی سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچی اور اپنے بچے کی تلاش کے لیے فریاد کی۔ سلطان نے حملہ موقوف کیا‘ آدھی فوج کو اس عورت کے بچے کی تلاش پر مامور کیا اور بچے کے ملنے کے بعد جنگ کا آغاز کیا۔ قتیبہ بن مسلم نے جب سمرقند فتح کیا تو وہاں کے باشندگان نے امیرالمومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز سے شکایت کی کہ مسلم فوج کے سپہ سالار قتیبہ بن مسلم نے اسلامی اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے اہل سمرقند کو حملے سے قبل نہ تو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور نہ ہی جزیہ دے کر جنگ سے بچنے کی سہولت دی‘ اور براہ راست حملہ کرکے شہر پر قبضہ کر لیا ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے ایک مختصر سے رقعے پر قاضی کو ہدایت کی کہ وہ اس معاملے پر فیصلہ دے۔
دمشق سے واپسی پر وہ ایلچی بہت مایوس تھا کہ امیرِشہر کو قاضی بھلا کیا حکم دے گا اور اس کی کون سُنے گا؟ واپس پہنچ کر اس نے خلیفہ کا رقعہ قاضی کو دیا۔ اگلے روز قاضی نے سمرقند کے کاہن اعظم اور قتیبہ بن مسلم کو اپنی عدالت میں طلب کیا۔ امیرِ شہر اور سپہ سالارِ لشکر قتیبہ بن مسلم سے صرف ایک سوال کیا گیا کہ کیا اس نے حملے سے پہلے اہل سمرقند کو اسلام قبول کرنے یا جزیہ ادا کرنے کی پیشکش کی تھی؟ قتیبہ بن مسلم نے اس سوال کا جواب انکار میں دیتے ہوئے اپنی کچھ توجیہات پیش کیں مگر قاضی نے وہ تمام معروضات رد کرتے ہوئے اسے حکم دیا کہ شہر کو خالی کر دیا جائے۔ اہل سمرقند یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ صبح قتیبہ بن مسلم اپنا سارا لائو لشکر لے کر شہر سے نکل گئے۔ اس لیے یہ کہنا کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے ایک مغالطے کے علاوہ اور کچھ نہیں اور جنگی اخلاقیات سے عاری لوگوں نے یہ محاورہ گھڑ رکھا ہے۔ محبت کے بارے میں یہ عاجز کچھ یقین سے نہیں کہہ سکتا؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ پاکستانی سیاست میں سب کچھ جائز ہے۔ نہ کوئی قاعدہ ہے اور نہ ہی کوئی ضابطہ، نہ کوئی اصول ہے اور نہ وعدے کے پاسداری، نہ کوئی اخلاقیات ہے اور نہ اقدار کا ہی کوئی خیال ہے۔ جس کا جو دائو لگتا ہے وہ لگا رہا ہے۔ مقصد صرف اور صرف حصولِ اقتدار ہے خواہ اس کے لیے کس حد تک نیچے ہی کیوں نہ گرنا پڑ جائے۔ بس لیلائے اقتدار کسی طرح ہاتھ لگ جائے۔
2018 کے الیکشن کے بعد خان صاحب نے کیا کیا؟ ادھر اُدھر سے بندے پکڑنا شروع کر دیئے۔ عادی لوٹے، از قسم کن ٹٹے، کرپشن کے حوالے سے شہرت یافتہ، ناپسندیدہ اور بدنام کردار۔ غرض ہر راہ چلتے رکن اسمبلی کو گھیر گھار کر کسی نہ کسی طرح ایک سو بہتّر کا ہدف عبور کیا اور حکومت بنا لی۔ جعلی ڈگری والے سے لے کر بھتہ خوروں تک سب کو نہلا دھلا کر صاف کیا اور اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ جس بندے کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اسے لپک کر گلے لگایا اور سب سے بڑے صوبے کا سپیکر بنا دیا۔ کبھی خان صاحب جسے اپنا ادنیٰ ملازم بنانے پر رضامند نہ تھے اسے وزیر داخلہ کا منصب عطا کر دیا۔ جس بندے نے تین سال تک جھوٹ بول کر قومی اسمبلی کی نشست کو بغل میں دبائے رکھا‘ اسے جھوٹ بول کرقومی اسمبلی کی نشست ہتھیانے پر کچھ کہنے اور فارغ کرنے کے بجائے سینیٹ کی رکنیت عطا کر دی۔ قومی ایئرلائن کو برباد کرنے اور دنیا بھر میں بدنام کرنے والے ہوا بازی کے وزیر کو سینے سے لگائے رکھا۔ جن لوگوں کو قاتل، بھتہ خور اور غدار قرار دیتے تھے ان کو پاکستانی سیاست کے نفیس ترین لوگ قرار دیا اور محض اپنے اقتدار کیلئے ان کے ناز نخرے برداشت کرتے رہے۔ ایک سے ایک فارغ اور نالائق کو اپنا مشیر اور معاونِ خصوصی بنایا۔
دوسری پارٹیوں سے بندے توڑنے کی غیراخلاقی حرکت کو وکٹیں اڑانے جیسا معزز نام عطا کیا اور سیاست میں اسی اخلاقی دیوالیہ پن کو مزید فروغ بخشا جس سے تنگ آکر لوگوں نے خان صاحب کو نیا پاکستان بنانے کی امید میں ووٹ دیا تھا۔ اقتدار میں پہنچنے کی خواہش اس حد تک دل و دماغ پر چھا گئی تھی کہ عامر لیاقت حسین جیسے بندے کو بھی پی ٹی آئی کی ٹکٹ عطا کرکے اپنی ٹکٹ کو ٹکے ٹوکری کرکے رکھ دیا۔ قوم کو بیس بائیس سال تک اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کا بھاشن دینے والے مصلح نے ضرورت پڑنے پر پچاس عدد لوٹوں المعروف الیکٹ ایبلز کو ٹکٹیں عطا کیں اور بھاگ دوڑ کرکے کسی نہ کسی طرح وزارت عظمیٰ کی ٹرین پر چڑھ گئے۔ ان کے عشروں پر مبنی اخلاقی بیانات اور اعلیٰ اقدار سے بھرپور گفتگو نے ایک زمانے کو تو متاثر کر دیا‘ لیکن خود خان صاحب پراپنے بیانات اور تقریروں کا رتی برابر بھی اثر نہ ہوا‘ اور انہوں نے اقتدار کے لالچ میں ہر وہ ہتھکنڈا آزمایا جس کی مذمت میں وہ مغرب کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے تھے۔ اگر وہ صبر کرتے اور صرف اپنے مخلص ورکروں اور ساتھیوں پراعتماد کرتے تو صرف ایک ٹرم کے بعد وہ اپنی مرضی کے لوگوں کے ساتھ اور کسی کی امدادی بیساکھیوں کے بغیر برسراقتدار آتے لیکن نفریں اس شوق اقتدار پر کہ بڑے بڑوں کو گمراہ کر دیتا ہے۔
اب دوسری طرف موجودہ حکمرانوں کو دیکھ لیں۔ جن کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت نکالنی تھی‘ ان کے پائوں پکڑ کر اقتدار کی خیرات مانگ لی۔ جن سے صلح اور اتحاد کرنے پر موت کو ترجیح دیتے تھے ان کے ساتھ سرکاری خرچے پر عمرہ کرنے چلے گئے۔ جو ‘ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگاتے تھے وہ محض تھوڑے سے عرصے کیلئے اقتدار کی گاڑی پر چڑھنے کی خاطر ایسے ایسے لوگوں سے صلح صفائی کرنے پر تیار ہوگئے جن کو چینی چور اور آٹا چور کے لقب سے نوازتے تھے۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے منحرف اور باغی رہنما عون چودھری کے بارے میں ایک کلپ آج بھی وائرل ہوتا پھررہا ہے جس میں مسلم لیگ (ن) کی مونچھ کا بال عطااللہ تارڑ عون چودھری کو نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں اور اس کے گھر کی تلاشی لینے پر اصرار فرما رہے ہیں۔ اب وہ وزیراعظم میاں شہباز شریف کے معاون خصوصی ہیں۔
ویسے تو اقتدار کی جنگ میں غداری کے سرٹیفکیٹ تھوک کے حساب سے تقسیم ہوتے ہیں اور کفر کے فتووں کی طرح یہ جنس بھی خاصی رعایتی قیمت پر دستیاب ہے‘ مگر بعض چیزیں ابھی بھی ایسی ہیں جن پر کم از کم کوئی کھلے عام تنقید کرنے کی جرأت نہیں کرتا اور چاہے دل سے تسلیم کرے یا نہ کرے‘ عوامی سطح پر ایسی حرکتیں کرنے سے محتاط ہی رہنا پسند کیا جاتا ہے‘ لیکن اب وہ پردہ بھی اٹھتا جا رہا ہے۔ پاکستان مسلم لیگ کے تاریخی نام کی حامل جماعت‘ جس کے ساتھ اب صرف (ن) کا دم چھلا لگا ہوا ہے‘ کی حکومت میں تشکیل یافتہ کابینہ کے ایک رکن وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے حلف اس طرح اٹھایا کہ ان کی واسکٹ پر آزاد بلوچستان کے جھنڈے والا بیج لگا ہوا تھا۔ ان کی ایک تصویر ان کے سرکاری دفتر میں بھی ایسی ہے کہ موصوف بطور وفاقی وزیر آزاد بلوچستان کا بیج لگا کر کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ادھر مولانا فضل الرحمن کے فرزند ارجمند اسعد محمود کے دفتر کی ایک تصویر مجھ تک پہنچی ہے‘ جس میں ان کے دفتر میں آویزاں قائداعظم کی تصویر میں قائد کے چہرے پر ٹیپ چپکائی ہوئی ہے۔ اللہ جانے یہ تصویر اصلی ہے یا فوٹو شاپ شدہ‘ مگر سنا ہے کہ ماضی میں کچھ لوگ پاکستان بنانے کی مخالفت بھی کرتے رہے تھے۔ ہائے رے! شوقِ اقتدار۔