پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کیسے کی جائے گی؟

آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک پاکستان اپنی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے لیے تیار ہے جہاں کاغذ اور قلم کے روایتی استعمال کو ترک کرتے ہوئے ٹیبلیٹس اور آن لائن ایپلیکشنز کو استعمال کیا جائے گا۔

ملک بھر میں کی جانے والی اس مشق پر 34 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ باضابطہ طور پر یکم مارچ سے شروع ہو کر یکم اپریل تک مکمل ہو جائے گی۔

اس کے بعد ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) جسے قومی مردم شماری کرانے کا کام سونپا گیا ہے، کی جانب سے حتمی نتائج جاری کرنے میں مزید 30 دن لگیں گے۔

پاکستان میں اب تک 1951، 1961، 1972، 1981، 1998 اور سنہ 2017 میں مردم شماری ہو چکی ہے۔

سنہ 2017 میں کی جانے والی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی تقریباً پونے 21 کروڑ ہے۔

ڈیجیٹل مردم شماری کا طریقہ کار کیا ہو گا؟
اب تک اس عمل میں شمار کنندگان ہر گھر کا دورہ کرتے اور کاغذی فارم بھرتے تھے لیکن اگلے ماہ حکومتی نمائندے ہاتھوں میں ٹیبلیٹس لیے گھر گھر جا کر معلومات کا اندراج کریں گے۔

اس کے لیے ادارہ شماریات پاکستان نے ایک لاکھ 26 ہزار شمار کنندگان بھرتی کیے ہیں اور اتنے ہی ٹیبلیٹس خریدے ہیں۔

ہر شمار کنندہ مردم شماری کے دو بلاکس سے معلومات جمع کرنے کا انچارج ہو گا۔

’بلاک‘ مردم شماری کے لیے جغرافیائی اکائی ہے، جو 200-250 گھروں پر مشتمل ہے۔ اس وقت ملک میں 185,509 مردم شماری بلاکس ہیں۔

حتیٰ کہ جو افراد قومی شناختی کارڈ نہیں بھی رکھتے انھیں بھی اس مردم شماری میں گنا جائے گا۔

مردم شماری کے لیے کس قسم کی معلومات جمع کی جائیں گی؟
ادارہ شماریات پاکستان کے چیف شماریات ڈاکٹر نعیم الظفر نے بتایا کہ شمار کنندگان ہر پاکستانی شہری سے ان کے رہن سہن، عمر اور جنس کے علاوہ دیگر معلومات لیں گے مثلاً ان کے گھر میں کمروں کی تعداد، بنیادی سہولیات، رہائش پذیر لوگوں کی تعداد وغیرہ۔

دیگر معلومات اس شخص کی تعلیم، ملازمت، مذہب اور اگر کوئی معذوری ہے تو اس کے بارے میں ہوں گی۔

ڈاکٹر نعیم الظفر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں آج تک ایک بھی معاشی مردم شماری نہیں کروائی گئی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملک کی نشوونما، ترقی اور منصوبہ بندی کے لیے معاشی مردم شماری بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر اس سے آپ کو پتا چلتا ہے کہ کن شعبوں میں حکومت کو روزگار بڑھانے میں مدد یا مزید انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے۔

معاشی مردم شماری کسی بھی ملک کی معیشت کا ایک جامع پیمانہ ہے جو اس کی صنعتوں متفرق شعبوں اور منڈیوں کے بارے میں اعدادوشمار فراہم کرتی ہے۔

انڈیا میں اب تک سات اقتصادی مردم شماری کراوائی جا چکی ہیں جبکہ پاکستان نے ابھی تک ایک بھی نہیں کراوائی۔

پی بی ایس پہلی بار ایسا ڈیٹا جمع کرنے جا رہا ہے، جس میں ملک میں موجود معذوری کی اقسام کے بارے میں تفصیلی معلومات جمع کی جائیں گی۔

خود شماری ایپ کیا ہے؟
وہ پاکستانی شہری جو چاہتے ہیں کہ فیلڈ شمار کنندگان ان کے گھر نہ آئیں وہ اپنی تفصیلات درج کرانے کے لیے اپنے موبائل نمبروں کا استعمال کرتے ہوئے پی بی ایس کے بنائے ایک ویب پورٹل میں لاگ ان کر سکتے ہیں۔

ایک بار جب مذکورہ فرد مردم شماری کا فارم مکمل کر کے جمع کروا دے گا تو اسے ایک کیو آر (QR) کوڈ جاری کیا جائے گا۔

پھر جب کوئی فیلڈ شمار کنندہ اس کے گھر جاتا ہے تو اسے محض اس کوڈ کو سکین کروانا ہو گا تاکہ ڈیٹا کی تصدیق کا عمل شروع کیا جا سکے۔

ایک بار جب پی بی ایس اس ڈیٹا کی تصدیق کر لے گا تو اس شخص اور اس کے گھر والوں کا مردم شماری میں شمار ہو جائے گا۔