معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
میں بادشاہ ہوں، میں قانون ہوں!
مجھے بادشاہ بننے کا بہت شوق ہے ،میرا جی چاہتا ہے کہ جب میں گھر سے نکلوں تو دو تین گھنٹے پہلے شہر کی تمام سڑکوں پر ٹریفک معطل کر دی جائے جس کے نتیجے میں بسیں ،ویگنیں، رکشے، ٹرک، کاریں، موٹر سائیکل اپنی اپنی منزل تک پہنچنے کیلئے ان گلیوں اور سڑکوں میں گھس جائیںجدھر سے واپسی کا راستہ بھی نہیں ہوتا اور آگے جانا بھی محال ہوتا ہے ۔مجھے اس موقع پر دھوئیں، پٹرول، پسینے اور جھنجھلاہٹ میں نہائے ہوئے چہرے بہت اچھے لگتے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ جب میں عوام کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر سے خطاب کروں تو وہ میرا فقرہ مکمل ہونے سے پہلے زندہ باد کے نعروں سے آسمان سر پر اٹھالیں اور جب میں جلسہ گاہ سے اپنی کار کی طرف جانے لگوں تو بوڑھے، بیمار ، بیروزگار، بیوائیں، یتیم اور ستم رسیدہ حصول انصاف کے لئے ہاتھوں میں درخواستیں تھامے دیوانہ وار میری طرف لپکیں ان میں سے کچھ ایک دوسرے کے پائوں تلے کچلے جائیں کچھ کو پولیس گریبانوں سے گھسیٹ کر پرے لے جائے کچھ ڈنڈوں کی زد میں آ جائیں اور ایک دو مجھ تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں ۔اگلے روز تمام اخبارات میں یہ خبر چوکھٹے میں شائع ہو کہ بادشاہ سلامت نے کار روک کر عوام سے ان کے مسائل دریافت کئے اور ایک بیوہ کی درخواست پر موقع پر احکامات جاری کئے ۔
مجھے ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کا بھی بہت شوق ہے، ہیلی کاپٹر پر سے چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے بچے، عورتیں اور بوڑھے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں جب فضا میں ان کے لئے غذا کے پیکٹ پھینکے جاتے ہیں، اس سے مجھے عجیب طرح کی تسکین ہوتی ہے سیلاب زدگان میں دو دو ہزار روپے کے چیک بانٹنے میںبھی عجیب طرح کی لذت ہے اور اس وقت تو مجھے ایک مزاحیہ فلم کا سامزا آتا ہے جب یہ چیک کیش نہ ہوں۔
میری خواہش ہے کہ بادشاہ بنتے ہی میں اپنے تینوں بیٹوں کو کلیدی اسامیوں پر فائز کردوں ایک بیٹے کا سسر ریٹائرڈ لائف گزار رہا ہے وہ بچارا گنٹھیا اور دمے کا مریض بھی ہے میں چاہتاہوں کہ جوانوں کی وزارت اس کے سپرد کر دوں ،میں اول خویش بعد درویش کا بہت قائل ہوں اور اپنے کچھ بھانجوں کو مشیر اور تین بھتیجوں کو سفیر بنانا چاہتا ہوں ،مجھے اپنے خاندان سے بہت محبت ہے اور انہیں بام عروج پر دیکھنا مجھے بے حد پسند ہے مجھے اپنے عزیز واقارب کی بے قاعدگیاں بھی بہت اچھی لگتی ہیں کیونکہ اس سے بادشاہت کے جاہ وجلال اور شان وشکوہ کا اظہار ہوتا ہے۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ بادشاہت پشت ہا پشت میرے خاندان میں رہے بادشاہت ملنے کی صورت میں میرا ایک محل پاکستان میں اور باقی محل یورپ اور امریکہ کے مختلف ملکوں میں ہوں مجھے پاکستان کے لوگوں کا لباس ،زبان، کلچر، رہن سہن، نیز یہاں کے موسم، دریا، پہاڑ بالکل اچھے نہیں لگتے اس ملک پر صرف حکومت کی جاسکتی ہے، جڑیں یورپ اور امریکہ میں ہی ہونی چاہئیں ۔
مجھے بادشاہ بننے کا بے حد شوق ہے جب میں اپنے ذاتی طیارے میں صحافیوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ غیر ممالک کے سرکاری دوروں پر جائوں تو مجھے الوداع کہنے کے لئے ایئرپورٹ پر عمائدین حکومت سے ہاتھ ملاتے ہوئے میں اگر کسی کے پاس ایک لمحے کے لئے رک جائوں اور اس سے مسکرا کر بات کروں تو اس کے نتیجے میں وہ کئی روز تک قرب شاہی کی لذت سے جس طرح سرشار رہے گا مجھے اس کا بہت لطف آئے گا ،مجھے اس طرح کے ’’ست ماہے ‘‘بچے بہت اچھے لگتے ہیں جن کی آدھی زندگی ایک تھپکی سے آباد اور آدھی زندگی ایک ڈانٹ سے ویران گزرجاتی ہے اس طرح کی اور بہت سی باتیں ہیں جو میں ایک عرصے سے دل میں چھپائے بیٹھا ہوں اور صرف اس دن کا منتظر ہوں جب میں اس ملک کا بادشاہ بنوں گا میں اپنی بادشاہت کی خوشی میں ملک میں سات دن جشن منانے کا اعلان کروں گا ۔تمام ملک میں چراغاں ہو گا ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن سے رقص و نغمہ کے خصوصی پروگرام نشر کئے جائیں گے ۔ملک کی جیلوں سےتمام پرانے قیدی رہا کر دیئے جائیں گے اور ان کی جگہ نئے قیدی بھیجے جائیں گے ٹیلی ویژن کو میرے علاوہ کسی اور کا چہرہ دکھانے کی اجازت نہیں ہوگی البتہ ڈراموں وغیرہ میں وہ دوسرے چہرے روشناس کرا سکیں گے۔
اگرچہ مجھے بادشاہ بننے کا بے حد شوق ہے لیکن آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مجھے بادشاہ کہلانے کا کوئی شوق نہیں بلکہ میں خود کو وزیر اعظم یا صدر وغیرہ کہلانا پسند کروں گا کیونکہ آج کل تیسری دنیا کے بادشاہوں میں خود کو وزیر اعظم یا صدر کہلانے کا فیشن بہت مقبول ہے۔