معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
میں محب وطن تھا، محب وطن ہوں
میں کسی زمانے میں زبردست محب وطن تھا ،میں نے اس بات کی کوئی پروا نہیں کی کہ غداروں کو میر ی باتیں بری لگتی ہیں چنانچہ جو جی میں آتا تھا بلادھڑک کہتا تھا۔ میں آج بھی جنرل ایوب خاں ،جنرل ضیا الحق، جنرل یحییٰ خاں اور جنرل پرویز مشرف کو اپنے اپنے وقت کا عظیم محب وطن گردانتا ہوں ،چند کم فہم لوگ ذوالفقار علی بھٹو غدارکو محب وطن کہتے تھے میں نے اسے کھل کر غدار کہا کیونکہ وہ میری حب الوطنی کے معیار پر پورا نہیں اترتا تھا چنانچہ اسے تخت سے اتارنے کیلئے جو تحریک چلائی گئی میں اس تحریک کے عظیم مجاہدوں میں سے تھا ،جس کے نتیجے میں وزارت عظمیٰ کی جگہ ضیا الحق کے مارشل لا نے اپنی جگہ بنائی، جس نے عدلیہ کے محب وطن ججوں کے ذریعے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ اس طرح جب بائیں بازو کے کم فہم دانشور شیخ مجیب الرحمان کو عظیم محب وطن قرار دے رہے تھے میں نے ان نازک لمحات میں اسے کھل کر غدار کہا مگر افسوس ہمارا مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا ،اس کی ذمہ داری بھی کچھ دانشور مجیب الرحمن پر ڈالتے ہیں جو سراسر غلط ہے ،مجیب الرحمن کی جماعت نے اگر الیکشن میں اکثریت حاصل کر لی تھی تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ حکومت اس کے حوالے کر دی جاتی کیونکہ ملک غداروں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا تھا۔
میں جانتا ہوں غداروں اور محب وطن رہنمائوں کا بیان آگے پیچھے کر رہا ہوں میرے نزدیک یہ ترتیب زمانے کے حساب سے نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ غدار اور محب وطن ایسی ترتیب سے آزاد ہوتے ہیں چنانچہ میں ایک بار پھر زبانی اعتبار سے آگے پیچھے ہونے لگا ہوں ۔جنرل ایوب کی حب الوطنی کو ماند کرنے کے لئے کہا گیا کہ ان حضرت کے زمانے میں بنگلہ دیش تحریک کی اندرون خانہ سرپرستی کی گئی، جنرل ایوب نہیں چاہتے تھے کہ یہ کالے کلوٹے اور ٹھینگنے قد کے لوگ مغربی پاکستان کے چوڑے چکلے خوبصورت شہریوں کے حکمران بنیں چنانچہ الحمدللہ ہمیں ان بنگالیوں کی غلامی میں نہیں آنے دیا گیا ،ٹھیک ہے بالآخر مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا اور اب یہ لوگ روز افزوں ترقی اور ہم لوگ زوال کی طرف جا رہے ہیں مگر اصولوں کی قیمت تو ادا کرنا پڑتی ہے۔ ہماری عظیم افواج کو جنرل یحییٰ خان جو اسلامی قدروں کا پاسبان تھا انڈیا ایسے رزیل دشمن کی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنا پڑے ،یہ بدتمیز لوگ انہیں قیدی بنا کر انڈیا لے گئے مگروہ وقت ضرور آئے گا جب ہم ان شااللہ اپنے عظیم محب وطن رہنمائوں کی پیشانی پر سے یہ داغ مٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اسی طرح امیر المومنین جنرل ضیاالحق کے اسلامی دور حکومت کے ماتھے کو داغنے والے یہ کہتے ہیں کہ ملک کوتباہ وبرباد کرنے والی تحریکیں اسی دور میں ’’پیدا‘‘ ہوئیں اس دور میں جوان ہوئیں اور اپنا نصب العین کافی حد تک پورا کرنے کے بعد آج بھی اپنے کام میں جتی ہوئی ہیں، فرقہ پرست جماعتوں کے قیام کا الزام بھی جنرل صاحب پر لگایا جاتا ہے،یہ سب بلاوجہ بدگمانی کے زمرے میں آتا ہے ہمیں جنرل صاحب کی نیک نیتی پرشک نہیں کرنا چاہئے اگر نیت نیک ہو اور نتیجہ غلط نکل آئے تو اس سے صرف نظرکرنا ضروری ہے۔
میری حب الوطنی کی انتہا اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ بھٹوکے خلاف چلائی گئی اسلامی جمہوری اتحاد کی تحریک میں آگے آگے تھا حتیٰ کہ بھٹو کی ایف ایس ایف کے نمائندے مسعود محمود نے وقار انبالوی مرحوم کی وساطت سے مجھے پیغام بھجوایا کہ ’’تم ابھی نوجوان ہو اور زندگی خوبصورت ہے لہٰذا سنبھل جائو ‘‘مگر میں تو اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر اپنی حب الوطنی کے تقاضے پورے کر رہا تھا چنانچہ میں سرخرو ہوا اور بھٹو کی حکومت ختم کرکے اسے پہلے جیل میں اور پھر تختہ دار تک پہنچا دیا گیا اور الحمدللہ میری دعائوں سے عظیم محب وطن رہنمائوں جنرل ایوب خاں، جنرل ضیاالحق ،جنرل یحیٰ خاں اور جنرل پرویز مشرف تک کسی کو آنچ تک نہیں آئی، ان میں سے پہلے تین کو شاہی پروٹوکول کے ساتھ سپردخاک کر دیا گیا چوتھا دوبئی میں بستر مرگ پر ہے اللہ تعالیٰ پاکستانی قوم کے اس محبوب رہنما کو آزمائش کے ان لمحوں سے نجات دلائے!
ایک بات اور ،کچھ لوگوں نے بھٹو کو خراج عقیدت پیش کیا اور آج تک کرتے چلے آ رہے ہیں کہ اس نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنانے کیلئے اپنی زندگی تک دائو پر لگا دی اسلامی ملکوں کے اتحاد کیلئے تاریخی جدوجہد کی اسی طرح کے کچھ اور کارنامے اس حوالے سے بیان کئے جاتے ہیں مگر معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ یہ سب کچھ محض دکھاوا تھا چنانچہ میں بطور ایک محب وطن کبھی اس شخص کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا ،یہ موضوع ایسا ہے کہ میں اس پر صفحے کے صفحے کالے کرسکتا ہوں اب مختصراً یہ عرض کروں گا کہ میری حب الوطنی نواز شریف کو بھی قبول نہ کر سکی جس کے قصیدوں کی لے جتنی تیز ہوتی ہے ان کے خلاف اتنی ہی طاقت اور رفتار سے ڈاکو اور چور چور کے الزامات لگنا شروع ہو جاتے ہیں موصوف کے حامی یہ بھی کہتے ہیں کہ انہوں نے تین دفعہ محض ووٹ کو عزت دلانے کیلئے وزارت عظمیٰ کے منصب پر لات ماری اگر یہ صحیح بھی ہے تو میں نہیں مانتا کیونکہ میرا دل نہیں مانتا کہ وہ میرے جتنے محب وطن ہو سکتے ہیں جس نے اپنے محبوب رہنمائوں جن کی فہرست میں نے اوپر پیش کی ہے کہ ادوارمیں کوئی منصب قبول نہیں کیا نواز شریف ملک دشمن ہے ،میں نےکہہ جو دیا ہے !
اب آخری بات اور وہ یہ کہ میں کل بھی محب وطن تھا آج بھی محب وطن ہوں، لوگوں کی باتوں کی پرواکئے بغیر میں عظیم رہنما عمران خان سے دل کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہوں کیونکہ وہ وطن سے محبت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہیں مگر افسوس رضا ربانی جیسے غنڈہ مزاج کا مدبر لیڈر بھی آج اس کی حب الوطنی کو شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اور مجھے ان کی یہ بات اچھی نہیں لگی ربانی صاحب ! عمران خان کے فرمودات پر ایک دفعہ پھر غور کریں خان بظاہر محب وطن نہیں لگتا لیکن وہ ہے ظاہر پر نہیں جایا کرتے کیونکہ بظاہر تو یہی لگتا ہے عمران خان کو اپنی ذات سے زیادہ کوئی پیارا نہیں ملک بھی نہیں مگر یہ ’’بظاہر‘‘ ہے آپ اپنے اندر کی آنکھ کھول کر دیکھیں تو میری طرح آپ کو بھی خان عظیم محب وطن لگے گا !مگر کچھ لوگوں کی آنکھیں صرف اس وقت کھلتی ہیں جب وہ سو کر اٹھتے ہیں !