پاکستان ایمبیسی تاشقند کی جانب سے گزشتہ روز کامن ویلتھ گیمز کے پاکستانی گولڈ میڈلسٹ نوح دستگیر بٹ کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ۔ واضح رہے کہ نوح دستگیر بٹ نے تاشقند ازبکستان میں ایشین پاور لفٹنگ میں چار مزید پڑھیں
میں مجبور تھا!
کہا جاتا ہے کہ ہمارے دائیں کاندھے پر بیٹھا ایک فرشتہ ہماری نیکیاں درج کرنے پر مامور ہے اور بائیں کاندھے والا فرشتہ ہمارے گناہوں کا اندراج کرتا ہے ۔میرے کھاتے میں نیکیاں نہ ہونے کے برابر ہیں چنانچہ میرا دائیں جانب کا فرشتہ زیادہ وقت فارغ رہتا ہے جبکہ بائیں جانب برائیاں درج کرنے والے فرشتے کو میری سر تا پا گناہوں سے بھری زندگی کی وجہ سے اوورٹائم لگانا پڑتا ہے میری برائیاں درج کرنے کے لیے اسے روزانہ کاغذ کے نئے دستوں کی ضرورت پڑتی ہے جن کے بوجھ سے میرا بایاں کاندھا لیفٹ کی طرف جھکا رہتا ہے چنانچہ میں چلتےوقت بائیں جانب ’’کنی‘‘ کھا کر چلتا ہوں میں نے کئی دفعہ سوچا کہ اگر کچھ نہیں تو کم از کم اپنی برائیاں اور نیکیاں ہی بیلنس کر لوں، مگر نیکی کے اِس خیال کے اظہار کی سزا جب میرے ذہن میں آتی ہے تو میں ایک بار پھر برائی کی جانب راغب ہو جاتا ہوں کہ اس کی سزا تو کیا الٹا اس کا اجر ملتا ہے ۔ مشرقی پاکستان میری آنکھوں کے سامنے بنگلہ دیش بنا اس کے ذلت آمیز مناظر میری آنکھوں کے سامنے آتے ہیں تو میرا سچ بولنے کو جی چاہتا ہے مگر جرات نہیں ہوتی چنانچہ میں اس ذلت کا سارا بوجھ جنرل یحییٰ خان کی شراب نوشی پر ڈال دیتا ہوں اور شہر میں شراب کی دکانوں پر حملہ کرنے والوں میں شریک ہو کر عوام کا غصہ اصل مجرموں پر نکالنے کی بجائے شراب کی بوتلوں پر نکالتا ہوں اور یوں عوام کا کتھارسزہو جاتا ہے اور اصل مجرم بچ جاتے ہیں ۔
میں نے بے شمار قتل ہوتے دیکھے ہیں کبھی سنیوں کے، کبھی شیعوں کے ،کبھی حکمرانوں کے، میں اس قتل وغارت گری کے پس پردہ عوامل سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہوں مگر میں اسے مذہبی انتہا پسندی کا نام دے کر حقائق پر پردہ ڈال دیتا ہوں، مجھے علم ہے یہ پرتشدد تنظیمیں کیسے وجود میں آتی ہیں ۔اور کبھی کبھی حقائق بتانے کو جی چاہتا ہے کہ ایک تو میرے دل کا بوجھ کم ہو اور دوسرے دائیں جانب کے فرشتے کو بھی تھوڑا بہت کام تو کرنا پڑے ۔مگر میں خاموش رہتا ہوں اور میری اس خاموشی کا گناہ بائیں جانب والا فرشتہ فوری طور پر لکھ لیتا ہے۔چنانچہ اب تو وہ ایسے مواقع پر میری طرف سے کوئی فیصلہ ہونے سے پہلے ہی میرا نام ظالموں کی فہرست میں لکھ ڈالتا ہے مجھے اس بات کا بہت دکھ ہے کہ میرے عمل کو گناہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی اسے بہت جلدی ہوتی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ دل کی حالت اس سے چھپی رہتی ہے میں ایسے ہر گناہ پہ دل ہی دل میں زاروقطار روتا ہوں اور معافی مانگتا ہوں مگر میری نیک نیتی کا اندراج نیکیاں درج کرنے والا فرشتہ کسی خاطر میں نہیں لاتا گزشتہ روز میں نے فرہاد زیدی کی ایک نظم پڑھی مجھے لگا اس نے میرے حوالے ہی سے لکھی ہے اللہ زیدی صاحب کو اس کا اجر دے اور آپ بھی یہ نظم پڑھنے کے بعد ایسے تمام لوگوں کی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان کے لیے دل میں نرم گوشہ پیدا کریں چلیں آپ یہ نظم پڑھیں!
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں،
حُسینؓ جب دشتِ کربلا میں
یزید سے پنجہ آزما تھے
علی ؓکا بیٹا، خُدا کے محبوبؐ کا نواسا
خلیفۂ وقت کے مقابل
چٹان بن کر ڈٹا ہوا تھا
تو میں کدھر تھا؟
اگر میں سبط نبیؐ کے مظلوم جاں نثاروں کی صف میں ہوتا
شہید ہوتا
یزید کی فوج میں جو ہوتا
تو حق کی آواز کو دبانے پہ خلعتِ فاخرہ ہی پاتا،
مگر شہادت مرا مُقدّر نہیں بنی تھی
نہ مجھ کو خلعت ہی مل سکی تھی
تو مَیں کدھر تھا؟
جو میں نے سوچا تو میں نے جانا
نہ میں اُدھر تھا نہ میں اِدھر تھا
مجھے حُسینؓ اور اُن کے سارے اصول، سب ہی عزیز تھے پر
مرے مفادات مجھ کو اُن سے عزیز تر تھے،
مرے مفادات جو عبارت تھے مری ذات اور میرے بچوں کی عافیت سے
وہ حاکمِ وقت کی نگاہِ کرم کے محتاج و منتظر تھے،
یہی سبب ہے کہ حق و باطل کے معرکے میں
صحیح غلط کی تمیز کے باوجود خاموش ہی رہا میں
مگر جب اک بار کربلا اور یزید سب ہی گزر گئے تو
حُسینؓ پیاسے ہی مر گئے تو
مری حمیّت نے جوش مارا
یزید کو مَیں نے ظلم اور جبر کی علامت بنا کے چھوڑا
حُسینؓ کو میں ہزار برسوں سے رو رہا ہوں!
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
مرے ائمّہ، کہ جن کے علم و عمل کی خوشبو
مشام جاں میں بسی ہوئی ہے
مِرے ائمہ۔ کہ آج بھی جن کے پاک قدموں کی پاک مٹی
کروڑوں آنکھوں کی روشنی ہے،
انہی ائمّہ کی پشت جب ظالموں کے ہاتھوں سے خونچکاں تھی
خلیفۂ وقت کے عقوبت کدوں میں ان کی تمام ہستی لہولہاں تھی،تو میں کدھر تھا؟
وہ حق پہ ہیں۔ میں یہ جانتا تھا
امام بھی ان کو مانتا تھا
مگر جب اُن پر عتاب آیا
تو میں نے حاکم کا ہاتھ روکا
نہ میں نے جلاّد ہی کو ٹوکا
کہ مجھ کو اپنی اور اپنے بچوں کی عافیّت ہی عزیز تر تھی،
مگر یہ سیلاب ٹل گیا تو
زمانہ کروٹ بدل گیا تو
مِری عقیدت بھی لوٹ آئی
مَیں اِن ائمّہ کی ذات کو روشنی کا مینار کہہ رہا ہوں
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں!
کہ جب وہ منصور کو سرِ دَار لا رہے تھے
جب اُس کے جرم خود آگہی پر وہ اپنے فتوے سُنا رہے تھے،
جب اُس کو زندہ جلا رہے تھے
تو میں کدھر تھا؟
یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے
کہ جس خلیفہ نے اُس کے فرمان قتل پر دستخط کیے تھےوہ میں نہیں تھا
وہ ہاتھ جس نے عظیم انساں کی زندگی کا دیا بجھایا
مرا نہیں تھا
مگر یہ سچ ہے
کہ یہ تماشا بھی میں نے دیکھا
مجھے یہ اچھا نہیں لگا تھا
مگر یہ سچ ہے،
کہ چُپ رہا میں
کہ ہر شریف آدمی کی مانند
مجھے بھی اپنی اور اپنے بچوں کی عافیت ہی عزیز تر تھی،
مگر وہ طوفان گزر گیا تو
خلیفۂ وقت مر گیا تو
ضمیر میرا بھی جاگ اُٹھا
میں ساری دنیا میں اب یہ اعلان کر رہا ہوں
حُسینؓ منصور میری نظروں میں ذی حشم ہے
کہ ہر وہ حق بیں
جو مسند دار تک پہنچ جائے محترم ہے!
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں
کہ سارے نمرود، سارے شدّاد
سارے فرعون، اُن کی اولادسب صحیح تھے،
وہ سب صحیح تھے کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے تھے
وہ سب صحیح ہیں کہ اپنے اپنے مشن کی تکمیل کر رہے ہیں
غلط تو میں تھا
غلط تو میں ہوں
کہ ہر زمانے سے اجنبی سا گزر گیا مَیں
نہ ٹھیک سے جی سکا کبھی میں۔ نہ ٹھیک سے مر سکا کبھی میں،
غلط تو میں تھا
کہ میری تقویم روز شب میں
کبھی کسی فیصلے کی کوئی گھڑی نہیں تھی،
مرے قبیلے کے واسطے تو
کوئی قیامت بڑی نہیں تھی،
کہیں کوئی کربلابپا ہو،
کسی عقوبت کدے میں زنداں کے ، کوئی سورج ہی بُجھ رہا ہو،
فرازِ دار و رسن سے کوئی صدائے حق ہی لگا رہا ہو،
تو ہر شریف آدمی کی مَانند
میں اپنی حق آگہی کے باوصَف سوچتا ہوں
نہ میں اُدھر ہوں، نہ میں اِدھر ہوں