کاش ہم سوچنے لگ جائیں

ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے جس پھرتی اور سرعت کے ساتھ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والی عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کیا ہے اس نے ان کے جدِامجد شیرشاہ سوری کے عسکری حملوں اورتیز رفتاری کا ریکارڈ بھی توڑ کر رکھ دیا ہے۔ میں کوئی آئینی ماہر یا قانون دان نہیں ہوں اور نہ ہی مجھے حاجی سیف اللہ یا ڈاکٹر شیرافگن مرحوم کے پائے کی قانونی اور آئینی موشگافیوں کا ہی کوئی دعویٰ ہے لیکن جو موٹی موٹی باتیں میری سمجھ میں آتی ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں کہ آخری گیند تک لڑنے کا دعویٰ کرنے والے کپتان نے آخری بال تک لڑنے کے بجائے آخری اوور میں میچ ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر پچ خراب کر کے کسی نہ کسی طرح فی الحال میچ تو برابر کروا لیا ہے لیکن سپورٹس مین سپرٹ کی ایسی تیسی پھیر دی ہے۔
اس ساری ”کھچوڑی‘‘ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ قانونی اور آئینی طور پر سپیکر کی رولنگ کوکیونکہ کسی فورم پر چیلنج نہیں کیا جا سکتا‘ چند روز قبل سید یوسف رضا گیلانی کی چیئرمین سینیٹ والے الیکشن کے بارے میں کی جانے والی آئینی پٹیشن پر فیصلہ بھی آ چکا ہے۔ ممکن ہے کہ ان کی یہ رولنگ عدالتیں بھی برقرار رکھیں لیکن قانون اور آئین سے قطع نظر اسے سوائے روند مارنے کے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ مجھے ا س لفظ ”روند مارنے‘‘ کا کوئی متبادل اردو لفظ نہیں سوجھ رہا۔ بچپن میں جب کسی کھیل کے دوران ہارتا ہوا فریق ساری کی ساری لڈو الٹ دیتا تھا‘ کیرم بورڈ پر ہاتھ مار کر ساری گوٹیوں کو الٹ پلٹ دیتا تھا یا پھر پل گولیاں کھیلتے ہوئے آخر میں کھتی میں پیشاب کر کے بھاگ جاتا تھا تو بچے نعرہ لگاتے تھے کہ ”روند و ای اوئے‘‘ تو ا س کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ وہ ہار کے ڈر سے روند مار کر بھاگ گیا ہے ۔یکم رمضان بمطابق تین اپریل 2022ء کے روز قومی اسمبلی میں یہی کچھ ہوا ہے۔
اصولی طور پر فواد چودھری کو آرٹیکل پانچ کی بات تین اپریل کے بجائے مورخہ پچیس مارچ 2022ء کو کرنی چاہیے تھی جب یہ قرار داد باقاعدہ طور پر اسمبلی کے فلور پر پیش کی گئی تھی۔ حکومتی بنچوں کی طرف سے اعتراض کے بعد اس پر بحث کی جاتی‘ پھر بھلے سے یہ قرار داد منظور ہوتی یا مسترد‘ لیکن اس روز تو اس قرار داد کے بارے میں حکومتی بنچوں سے کوئی اعتراض نہ کیا گیا اور یہ قرار داد قومی اسمبلی کے ایجنڈے میں برائے رائے شماری منظوری ہو گئی۔ مورخہ تین اپریل کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ ایجنڈے کے مطابق اس قرار داد پر رائے شماری ہونی تھی لیکن ہوا یہ کہ اسمبلی میں پیش کردہ ایجنڈے کے برخلاف اس قرار داد کو آرٹیکل پانچ کے تحت سرے سے ہی غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا گیا۔ اس قرار داد کے متعلق آرٹیکل پانچ کا خیال پچیس مارچ کو آنا چاہیے تھا۔ اس قرار داد کو مسترد کرنے کا جواز جس خط کو بنایا گیا تھا وہ مورخہ سات مارچ کا ہے یعنی جس روز قرارداد اسمبلی میں پیش ہوئی اس سے اٹھارہ روز قبل یہ خط حکومت کو مل چکا تھا لیکن اس پر اسمبلی میں بحث کرنے کے بجائے چھپا کر رکھا گیا اور تین اپریل کو یہ ”سرپرائز‘‘ دیا گیا۔
اگر آپ تین اپریل کو پیش آنے والے واقعات کا جائزہ لیں تو ایک بات بالکل صاف اور واضح نظر آتی ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا اور سارا سکرپٹ مع کاغذی کارروائی بالکل تیار پڑا تھا‘ جیسے ہی قائم مقام وزیر قانون فواد چودھری نے اپنی چند سطری مختصر سی عرضداشت قائم مقام سپیکر کے سامنے پیش کی انہوں نے دوسرے فریق سے موقف لینے اور اس آرٹیکل کی بنیاد بننے والے خط کو اسمبلی میں زیر بحث لانے اور کسی قسم کے غور و خوض کا تکلف کیے بغیر ایک جملے میں اس قرار داد کو مسترد کر دیا۔ قرار داد کے مسترد ہونے کے چند منٹ کے اندر اندر وزیراعظم صاحب تقریر کے لیے پہنچ گئے۔ اتنی دیر میں تو بندہ اپنی واسکٹ استری نہیں کرواتا جتنی پھرتی سے وہ تقریر کرنے کے لیے تیار ہو گئے۔ پھر انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کی سب سے مختصر تقریر فرمائی اور اسمبلی توڑنے کی تجویز صدرِ مملکت کو بھجوانے کا اعلان کیا۔
ایمانداری کی بات یہ ہے کہ اتنی دیر میں تو بندہ یہ تقریر ختم کر کے ڈرافٹ بھی ٹائپ نہیں کرتا تھا جتنی پھرتی سے یہ تجویز صدرِ مملکت نے منظور بھی فرما دی۔ عموماً ایسی تجویز لاء ڈیپارٹمنٹ کو بھیج کر اس کی قانونی حیثیت سے متعلق قانونی اور آئینی رائے لینے کے بعد ہی اسے منظور کیا جاتا ہے لیکن تین اپریل کو سب کچھ اتنی سرعت اور شتابی سے ہوا کہ پاکستان کی آئینی تاریخ اس پھرتی پر انگشت بہ دنداں ہے۔
حکومتی حماقتیں اور گھبراہٹ میں ہاتھ پائوں پھولنے پر اس قسم کی اوچھی حرکتیں اپنی جگہ پر جگ ہنسائی کا تو موجب بن رہی ہیں اور ان کی وجہ سے ان کی نالائقی اور معاملات کو ہینڈل کرنے کی عدم صلاحیت بھی مزید کھل کر سامنے آئی ہے‘ تاہم ان تمام تر حماقتوں ‘ نالائقیوں اور بے وقوفیوں کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ اپوزیشن کی حالیہ عدم اعتماد والی زور دار چڑھائی کے پیچھے صرف اور صرف اپوزیشن کے دل میں جمہوریت کا مروڑ اور عمران خان کی حکومت کی نالائقیوں کا دخل نہیں بلکہ اس کے پیچھے کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جس کی تہہ تک پہنچنا بہت ضروری ہے کہ دو ماہ پہلے جن میں زور دار بڑھک مارنے کا حوصلہ نہیں تھا اور جن کا سارا زور اس بات پر تھا کہ کسی طرح وہ آئندہ الیکشن کا ماحول بنا لیں‘ صرف دوماہ قبل مطلوبہ نمبرز پورے کرنا کوہِ ہمالیہ سر کرنے سے زیادہ مشکل نظر آ رہا تھا‘ آخر اچانک ہی ایسا کیا ہوا کہ سب کو مشترکہ طور پر غیرت آ گئی؟
دم سادھے پڑے ہوئے جہانگیر ترین بھی اچانک بیدار ہو گئے‘ پردۂ غیب سے ظہور پذیر ہونے والی بی اے پی حکومت کے ساتھ جاری ساڑھے تین سالہ ہنی مون چھوڑ کر اچانک ہی کسی اور کے ساتھ بھاگنے کے لیے تیار ہو گئی۔ ایم کیو ایم اپنی ازلی سیاسی دشمن پیپلز پارٹی اور زرداری صاحب پر اعتماد کرنے لگ گئی۔ پی ٹی آئی کے اکیس لوگ جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جن کا ماضی بھی اس بات کا شاہد ہے کہ ان کے سر پر ہمیشہ کسی کا ہاتھ رہا ہے اور وہ اشارے سے پارٹی تبدیل کرنے کی تاریخ رکھتے ہیں‘آخر یہ سب ایک دم اکٹھے کیسے ہو گئے؟ اگر کوئی اس کی وجہ عمران خان کا متکبرانہ رویہ‘ بیڈ گورننس اور حکومت کی عوامی مسائل کو حل کرنے میں ناکامی قرار دیتا ہے تو فی الوقت مجھے یہ بات ہضم نہیں ہوتی۔ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے اصولی اختلافات عموماً الیکشن سے ایک دو ماہ پہلے شروع ہوتے ہیں اور فی الحال ایسی کوئی بات نہیں لیکن جس طرح سب کچھ ہوتا ہے اگر اس Jigsaw پزل کے ٹکڑوں کو ترتیب سے ملانے کی کوشش کریں تو یہ عقدہ حل ہوتے زیادہ دیر نہیں لگے گی لیکن جس ملک میں لوگ اپنی عقل کو بالائے طاق رکھ کر اپنے پارٹی لیڈر سے وفاداری کے اس درجے پر فائز ہوں جہاں سے غلامی کی حد شروع ہوتی ہے تو ایسے میں اس قسم کے عقلی تجزیے کی بات کرنا حماقت کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ لیکن کیا کریں؟ قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے کہ ”ثم تتفکروا‘‘ پس تم سوچا کرو‘ کاش ہم اس حکم ِخداوندی پر تھوڑا سا بھی عمل کرلیں۔