فل کورٹ کا حکم آیا تو معاملہ ستمبر کے وسط تک موخر ہوسکتا ہے

عدالت عظمیٰ میں نو مئی2023کی مبینہ دہشت گردی اورفوجی و سول تنصیبات کو جلانے کے مقدمات میں ملوث سویلین ملزمان کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر آئینی درخواستوں کی سماعت کے حوالے سے درخواست گزار، سول سوسائٹی کی جانب سے دائر کی متفرق درخواست کی منظوری کی صورت میں اگر عدالت،سپریم کورٹ کے تمام دستیاب ججوں پر مشتمل فل کورٹ بنچ کی تشکیل کا حکم جاری کرتی ہے تو یہ معاملہ سالانہ عدالتی تعطیلات کی بناء پر ماہ ستمبر کے وسط تک نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے نئی ذمہ داریاں سنبھالنے تک موخر ہوسکتا ہے.

اس وقت چیف جسٹس عمر عطاء بندیال سمیت سپریم کورٹ میں کل 16جج خدمات سرانجام دے رہے ہیں ،جبکہ 17ویں نشست خالی پڑی ہے ،دیگر ججوں میں نامزد چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس سردار طارق مسعود ،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ ،جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی،جسٹس امینن الدیں خان ، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس محمد علی مظہر ، جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی ،جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں ،کاز لسٹ کے مطابق منگل کے روز چیف جسٹس عمر عطاء بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیٰ آفریدی، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس محمد علی مظہر ،جسٹس مسرت ہلالی ،اورجسٹس سید حسن اظہر رضوی اسلام آباد میں دستیاب تھے ،ذرائع کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ بیرون ملک گئے ہوئے تھے اور کل ہی واپس آئے ہیں اور آئندہ چند روز بعد دوبارہ ایک عالمی کانفرنس میں شرکت کے لئے امریکا جانا ہے ،ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جسٹس عائشہ اے ملک صرف ایک روز کے لئے لاہور سے اسلام آباد آئی تھیں اور کل ہی واپس چلی گئی تھیں.

جسٹس جمال خان مندو خیل کوئٹہ گئے ہوئے ہیں ،یاد رہے کہ اس وقت سپریم کورٹ میں موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں جوکہ 10ستمبر کو ختم ہوں گی.

دوسری جانب 16ستمبر 2023کو موجود ہ چیف جسٹس ،عمر عطاء بندیال 65سال کی عمر ہونے پر اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو جائیں گے ،اور اگلے روز نامزد چیف جسٹس ،مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اپنے عہدے کا چارج سنبھال لیں گے .

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے دی سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر ) ایکٹ 2023پر عدم عملدرمد کی بنیادوں پر اس مقدمہ کی سماعت سے علیحدگی اختیار کرلی تھی اور جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے وفاقی حکومت کی جانب سے سابق چیف جسٹس اد ایس خواجہ کے ساتھ رشتہ داری کی بناء پر اعتراض کی وجہ سے کیس کی سماعت سے معذرت کرلی تھی ، یہ بھی یاد رہے کہ کیس کی 22جون 2023کی سماعت کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی نو رکنی بنچ کا حصہ تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 175(2) عدالتوں کو مقدمات کی سماعت کا اختیار دیتا ہے جبکہ ججوں کے حلف میں بھی واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ میں آئین و قانون کے مطابق فیصلے کروں گا .

بینچوں کی تشکیل کے معاملے پر میرا ایک موقف ہے اور یہ آج کا نہیں پرانا ہے لیکن ایک قانون سپریم کورٹ( پریکٹس اینڈ پروسیجر)ایکٹ بھی ہے ،مذکورہ قانون کی دفعہ دو کے مطابق سپریم کورٹ میں براہ راست اختیار سماعت کے مقدمات کے لیے بینچ کی تشکیل تین رکنی کمیٹی کرے گی،جس میں چیف جسٹس کے علاوہ دو سنیئر ترین جج شامل ہوں گے.

فاضل جج نے کہا تھا کہ مذکورہ قانون کے بن جانے کے بعد کمیٹی کو پہلے اجلاس میں براہ راست اختیار سماعت کے مقدمات کی تشکیل کا طریقہ کار طے کرنا چاہیے تھا لیکن قانون کے برعکس ایک نو رکنی بینچ تشکیل دیا گیا اور مجھے تعجب اس وقت ہوا جب کاز لسٹ میں میرا نام بھی شامل تھا،فاضل جج نے سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں پرسپریم کورٹ کی کارروائی کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ قانون کو معطل کرکے قرار دیا گیا ہے کہ اگلی سماعت ماہ جولائی میں کی جائے گی.

جسٹس قاضی فائز عیسی نے بینچ سے اٹھتے ہوئے کہا تھاکہ ہم یہاں حلف لیکر بیٹھے ہیں، میرا یہ اعتراض نیا نہیں ہے ،گزشتہ کافی عرصہ سے اس طرف معزز ججوں کی توجہ مبذول کرانا چاہتا تھا، اس حوالے سے ایک نوٹ بھی لکھا تھا ، مگر اسے نظر انداز کردیا گیا.

انہوں نے کہا کہ جب تک سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر)ایکٹ 2023 سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ نہیں ہو جاتا،میں چیف جسٹس ،عمر عطا بندیال کی جانب سے تشکیل کردہ بنچوں میں بیٹھنے سے معذرت خواہ ہوں،اسی دوران جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا تھا کہ وہ جسٹس قاضی فائز عیسی کی باتوں سے اتفاق کرتے ہیں.

فاضل ججوں کے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کے بعد نو رکنی بینچ ٹوٹ جانے کی بنا پر اٹھ گیااور بعد میں چیف جسٹس ،عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا ،تاہم اس کے ایک رکن جج ،جسٹس منصور علی شاہ پر بھی اعتراض کے بعد وہ بھی اس بنچ سے علیحدہ ہوگئے تھے اور یوں موجودہ 6رکنی بنچ باقی رہ گیا تھا ۔