عمران خان اور بند گلی

اس ملک میں دو فتوے بہت آسانی سے لگائے جا سکتے اور لگائے جاتے ہیں۔ پہلا فتویٰ کفر کا ہے اور دوسرا غداری کا۔ دونوں اقسام کے فتووں کی نہ تو اس ملک میں کمی ہے اور نہ ہی کوئی روک تھام۔ جب چاہو‘ جیسا چاہو اور جہاں چاہو یہ فتویٰ لگا دو۔ نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ روکنے والا۔ کفر والے معاملے پر تو اس عاجز کو کچھ بھی لکھتے ہوئے خود پر اس فتوے کا خوف روک دیتا ہے۔ اس گنہگار کی بھلا اوقات ہی کیا ہے کہ اس فتوے کا سامنا کر سکے اور اپنا دفاع بھی کر سکے کہ فتویٰ لگانے والے تو یہ کام کرکے فارغ ہو جائیں گے باقی کام ان کے مریدین اور عقیدت مند کر دیں گے۔ عقیدت سب سے پہلے عقل کا قلع قمع کرتی ہے۔

اب رہ گئی بات غداری کے فتووں کی تو ملک عزیز میں اس کی ایسی افراط ہے کہ ملک نہ صرف اس قسم کے فتووں میں خود کفیل ہے بلکہ عالم یہ ہے کہ اس فتوے کو برآمد کرکے کافی زر مبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔ میں اپنے بچپن سے یہ فتوے سن رہا ہوں۔ شیخ مجیب الرحمن‘ عبدالغفار خان‘ ولی خان‘ شیر محمد مری‘ عطا اللہ مینگل‘ جی ایم سید‘ الطاف حسین اور اس کے بعد موجودہ سیاستدانوں کی ساری لاٹ ایک دوسرے کو مختلف اوقات میں غدار قرار دے چکی ہے۔ بس آپ کا سیاسی اختلاف ہونا ضروری ہے اس کے بعد غداری کا الزام اتنا آسان ہے کہ سائیکل چلانا اس سے کہیں مشکل کام ہے۔ کسی مخالف کو غدار قرار دینے کے لیے اس کے کسی بھی بیان کا کوئی سا حصہ بھی کام آ سکتا ہے۔ پہلے درجے پر وہ غیر محب وطن قرار پاتا ہے پھر دوسرے درجے پر پہنچ کر غدار قرار پاتا ہے؛ تاہم یہ غداری کی سند صرف اس وقت تک کارآمد ہے جب تک وہ آپ کا سیاسی مخالف ہے۔ اگر وہ آپ کا حلیف بن جائے تو پھر آپ کو اس کے کردار پر لگے غداری کے فتوے کو دھونے کی بھی زحمت نہیں کرنا پڑتی۔ جونہی وہ آپ کا حلیف بنتا ہے اس کا سارا کردار مع غداری‘ آٹو میٹک پلانٹ پر دھل دھلا کر صاف شفاف ہو جاتا ہے۔

اب دور کیا جائیں؟ شیخ مجیب وغیرہ تو خیر سے اب قصۂ ماضی ہیں اور ایسے قصوں کو دہرانا بے فائدہ ہے۔ تازہ ترین قصہ تو اپنے عمران خان اور قائدِ متحدہ کا ہے جب عمران خان ثبوتوں کا پلندہ لے کر لندن گئے اور اس دعوے کے باوجود کہ وہ انگریزوں کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ جانتے اور سمجھتے ہیں اور انگلستان کے قانون کو بھی ان سے بڑھ کر کوئی نہیں جانتا وہ نہ صرف یہ کہ وہاں سے ناکام و نامراد واپس آئے بلکہ 2018ء کے الیکشن میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ ارکان اسمبلی کی تعداد پوری کرنے کی غرض سے انہوں نے ایم کیو ایم والوں سے ان کی شرائط پر صلح کی ”جپھی‘‘ ڈالی اور انہیں حکومت میں شامل کر لیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف حصولِ اقتدار کی لالچ میں متحدہ قومی موومنٹ سے غیر مشروط صلح کی بلکہ جس پارٹی کو وہ بھتہ خور‘ بوری بند لاشوں کے موجد اور ملک کی غدار قرار دیتے تھے اس پارٹی کے ارکان اسمبلی کو پاکستان کی قومی اسمبلی کے نفیس ترین ارکان قرار دیا۔ غداری کے فتوے اور بارہ مئی کے قتلِ عام میں براہ راست ذمہ دار قرار دیے جانے والے ارکان اسمبلی کے ساڑھے تین سال سے زائد عرصے تک سارے ناز نخرے برداشت کیے اور ان کو اس عرصے میں سینے سے بھی لگائے رکھا اور اپنی حکومت کو قائم رکھنے کے عوض ان کو ساری اسمبلی میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے اور مہذب ارکان کی اسمبلی ہونے کی سندِ فاخرہ بھی عطا کی۔

مجھے اس بات سے غرض نہیں کہ ایم کیو ایم غدار ہے یا نہیں مجھے تو صرف اس بات سے غرض ہے کہ عمران خان صاحب نے ان پر یہ فتویٰ لگایا اور انہیں اس دوران حب الوطنی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ سرانجام نہ دینے کے باوجود محض شریکِ اقتدار ہونے کی بنا پر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی عطا کیا اور وزارتیں بھی بخشیں۔ یعنی دوسرے لفظوں میں مسئلہ غداری اور حب الوطنی کا نہیں بلکہ اپنے اقتدار کو قائم کرنے اور پھر اسے دوام دینے کا ہے۔ اگر وہ آپ کے ساتھ ہیں تو نفیس ترین لوگ ہیں بصورتِ دیگر غدار ہیں‘ قاتل ہیں‘ بھتہ خور ہیں اور عوام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے چودھری پرویز الٰہی جب مخالف تھے تو پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو تھے اور اب وہ ان کی پارٹی کی طرف سے پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ڈاکو سے وزارتِ اعلیٰ کا سفر جس صفائی سے چودھری پرویز الٰہی نے طے کیا اور عمران خان نے اپنے نام نہاد اصولوں سے دستبرداری اختیار کی اس کی کم از کم اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ عمران خان کی ایجاد کردہ ڈرائی کلین شاپ سے زیادہ صاف کردار کی دھلائی کرنے والی دکان دنیا میں اور کہیں نہیں ہے۔

اب بندہ کیا کیا یاد کرے؟ شیخ رشید صاحب کو وہ چپڑاسی رکھنے کے لیے رضامند نہیں تھے بعد ازاں انہیں وزیر داخلہ کا منصبِ جلیلہ عطا کیا۔ اور جن کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ اپنا قد بڑھاتے رہے‘ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی ایسی شاندار نوکری اور تابعداری کا مظاہرہ کیا کہ ہمیں اپنے برادرِ عزیز مستحسن خیال کا ایک جملہ یاد آ گیا۔ انہوں نے کسی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ موصوف بہترین ماتحت اور بدترین افسر تھے۔ خان صاحب کی تابعداری اور تکبر کے حسین امتزاج سے برادرم مستحسن خیال کی بات یاد آ گئی۔

سچ تو یہ ہے کہ عمران خان پاکستان کے ایسے سیاسی لیڈر ہیں جنہیں کم از کم دورانِ اقتدار کسی بیرونی دشمن اور مخالف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں‘ اس دوران ان کو صرف اپنی ذات ہی سے خطرہ لاحق رہا۔ انہیں بیرونی نہیں اندرونی دشمن سے سامنا کرنا پڑا اور ان کے اندرونی دشمنوں میں سرفہرست ان کی زبان تھی‘ پھر ان کا زعم اور تکبر تھا اور رہی سہی کسر ان کے سیاسی‘ قانونی اور مالی مشیروں نے نکال دی۔ اول تو ان کی اپنی زبان کی تلوار ہی کافی تھی اوپر سے انہیں شہباز گل‘ فواد چودھری‘ فیاض الحسن چوہان اور شیخ رشید جیسے نابغہ روزگار قسم کے سیاسی مشیر اور ساتھی ملے جو اپنی زبان سے کسی بھی شریف آدمی کو رسوا کرنے کے ساتھ ساتھ شرفا کو آپ سے پوری طرح متنفر کرنے میں پی ایچ ڈی کی سند کے حامل تھے۔ ایسے میں خان صاحب کو روزانہ کی بنیاد پر تقریر کرنے اور اپنا نام سب سے زیادہ بیانات دینے والے وزیراعظم کے طور گینز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں لکھوانے کا جو شوق تھا اس نے جتنی دشمنی خان کے ساتھ کی ہے اتنی تو کسی مخالف نے بھی نہیں کی۔

اوپر سے خان صاحب کو اپنے علم و فضل‘ معلوماتِ عالم اور دین پرگرفت کا جو زعم ہے اس نے خان صاحب پر حکمت کے باقی سارے در بند کر دیے اور وہ اپنی نرگیست میں ایسے مبتلا ہیں کہ کسی اور سے نئی بات سیکھنا تو درکنار‘ وہ اپنی غلطیوں سے بھی سیکھنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان کے آخری دشمن ان کے سیاسی‘ قانونی اور معاشی مشیر ہیں جو انہیں حقیقتِ حال بتانے کے بجائے ان کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ توشہ خانے کا معاملہ ہو یا فارن فنڈنگ کا‘ انہیں ان کے مالی مشیروں نے وہی مشورہ دیا جو خان صاحب کے دل کے نہاں خانوں میں چھپی خواہشات کے عین مطابق ہوتا تھا۔ انہوں نے خان صاحب کو درست مشورے کے بجائے ان کی خوشنودی کو مدنظر رکھ کر مشورے دیے اور اب ان کے عدالتوں کے خلاف بیانات اور اداروں کی حب الوطنی کے بارے میں الٹے سیدھے بیانات کے تناظر میں انہیں غلطی تسلیم کرنے کا مشورہ دینے کے بجائے ان کو مقبولیت اور پاپولریٹی جیسے احمقانہ تصور میں مبتلا کر دیا ہے جو بالآخر ان کو بند گلی میں لے جائے گا‘ بلکہ لے جائے گا کا کیا مطلب ہے؟ کافی حد تک لے جا چکا ہے۔