عمران خان، شہباز شریف اور توشہ خانہ سکینڈل

وزیراعظم ہائوس سے میسج تھا: وزیر اعظم شہباز شریف صاحب اینکرز اور صحافیوں سے مل رہے ہیں۔ آپ بھی تشریف لائیں۔
ان سے آخری ملاقات تقریباً بارہ برس پہلے ہوئی تھی۔ لندن میں 2006/07 میں ان سے تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی جب وہ جلاوطنی میں تھے اور میں وہاں سے رپورٹنگ کررہا تھا۔
پرویز رشید اور نادر چودھری کے ساتھ محفلیں جمتی تھیں۔ جنرل مشرف کے اقتدار کا سورج ڈوب رہا تھا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف ابھر رہے تھے۔ ان دونوں کا اتحاد ہو چکا تھا اور دونوں پاکستان واپسی کی تیاری کر رہے تھے۔ اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف اور پارٹی لیڈروں کی گفتگو انقلابی ہوتی تھی۔ نواز شریف صاحب اکثر مجھے دیکھ کر کہتے: رئوف صاحب! میری طرف سے لکھ دیں‘ جس نے جنرل مشرف سے ہاتھ بھی ملایا ہے اسے واپسی پر اپنی پارٹی میں نہیں لوں گا۔ شہباز شریف دعوے کرتے کہ انہیں لوٹنے دیں‘ پھر دیکھیں وہ کیسے پنجاب میں اچھے بیوروکریٹس لگاتے ہیں۔
دونوں بھائی واپس آئے۔ نواز شریف نے سب سے پہلے زاہد حامد کو پارٹی ٹکٹ دیا جنہوں نے جنرل مشرف کا ایمرجنسی آرڈر تیار کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بن کر شہباز شریف صرف تین ماہ دبائو برداشت کر سکے اور پھر ایم پی ایز کے دبائو پر دو تین اچھے افسران کو ٹرانسفر کیا تو میں نے ایک سخت کالم ”لندن سے لاڑکانہ تک‘‘ لکھا کہ کیسے سارا انقلاب ہوا ہو گیا ہے۔
اس کالم کے دو تین دن مجھے شہباز شریف صاحب کے سٹاف افسر کا فون آیا کہ وزیر اعلیٰ کل صبح لندن سے پاکستان پہنچ رہے ہیں۔ پنجاب ہائوس میں آپ کے ساتھ ناشتہ ہے۔ سمجھ گیا کہ وہ اس کالم سے ناخوش ہیں۔ ناشتے پر ملاقات ہوئی۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں۔ مجھ سے پوچھا: کوئی حکم؟ میں نے کہا: وہ بس کبھی کبھار آپ پر لکھ دیتے ہیں‘ امید ہے برا نہیں مناتے ہوں گے۔ ہنس کر بولے: آپ سے شکایت نہیں کیونکہ علم ہے آپ کسی کے کہنے پر نہیں لکھتے۔ انہیں کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔
وزیراعظم ہائوس کے بڑے کمرے میں تقریباً سب بڑے صحافی موجود تھے۔ شہباز شریف اندر داخل ہوئے تو سب سے ہاتھ ملانے لگے۔ اس میز کی طرف آئے جہاں میں رانا ثناء اللہ، ایاز صادق کے ساتھ بیٹھا تھا۔ میرے قریب آئے تو چہرے پر ایک لمحے کے لیے شناسائی ابھری‘ لیکن پھر انہیں غالباً سب کچھ یاد آ گیا تو میں مسکرا پڑا اور اچھا لگا کہ ان کے اندر میرے حوالے سے ابھی غصہ موجود تھا‘ جس کا اظہار انہوں نے بعد میں صحافیوں کے سوالات جوابات میں کیا‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ بھی میڈیا کو عمران خان کی طرح دبانے کی پالیسی رکھیں گے یا تبدیلی آئے گی؟
انہوں نے کہا: اس ہال میں ابھی وہ چند چہرے موجود ہیں جنہوں نے ان پر بہت ساری خبریں فائل کیں، بہت سخت باتیں کیں۔ بہت کچھ لکھا لیکن میں نے کبھی کسی کو کچھ نہ کہا۔ اس پر شاید حفیظ اللہ نیازی بولے: مطلب دل میں بات تو رکھی ہوئی ہے۔ ہنس کر کہا: اب دل میں بھی نہ رکھوں۔ اس پر قہقہہ پڑا۔ تاہم یہ کریڈٹ شہباز شریف صاحب کو دینا ہو گا کہ جب تک وہ وزیر اعلیٰ رہے ان دس برسوں میں میرے جیسے دیگر صحافیوں نے ان پر سکینڈلز فائل کیے، خبریں کیں، سخت تبصرے کیے لیکن انہوں نے اسلام آباد میں نواز شریف کی سوشل میڈیا ٹیم یا بعد میں عمران خان کی میڈیا ٹیم کی طرح صحافیوں کے پیچھے کسی کو نہ لگایا۔ کسی کی کردار کشی نہ کرائی۔ کس کو سوشل میڈیا پر گالیاں نہ دلوائیں نہ ان کے خلاف ٹرینڈز چلوائے‘ لیکن میرے جیسے چند لوگوں کے چہرے نہیں بھولے تھے جو ان کے بقول ٹی وی پر ان کے خلاف سخت پروگرام کرتے رہے تھے۔ اس لیے جب انہوں نے مجھ سے بادل نخواستہ ہاتھ ملایا تو لگ رہا تھا کہ وہ کچھ نہیں بھولے۔
مجھے یاد آیا‘ میری آخری ملاقات 2009 کے آخری دنوں میں گوادر میں فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں ناشتے پر ہوئی تھی۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور اسلام آباد سے صحافیوں کا ایک گروپ گوادر گیا ہوا تھا‘ جہاں این ایف سی ایوارڈ پر چاروں صوبوں نے دستخط کرنے تھے۔ اسی شام ان کے سٹاف افسر نے مجھے کہا: شہباز شریف آپ سے صبح ناشتے پر ملنا چاہ رہے ہیں۔ اس ملاقات کے بعد تب تقریباً دو سال بعد رابطہ ہورہا تھا۔
اگلی صبح ناشتے پر ان سے ملاقات ہوئی تو شہباز شریف نے اپنی پوری پوزیشن واضح کی۔ اپنے والد محمد شریف صاحب کا بتایا کہ کیسے انہوں نے سیلف میڈ انسان کے طور پر صفر سے شروع کرکے پوری ایمپائر کھڑی کی تھی۔ انہوں نے مجھے اپنی اردو میں لکھی آٹوبائیوگرافی بھی پیش کی۔ کافی دیر باتیں ہوتی رہیں لیکن ہم دونوں کو لگ رہا تھا‘ اب بھی وہ بات نہیں‘ جو لندن میں تھی۔ وجہ واضح تھی۔ وہ تب وزیر اعلیٰ بن چکے تھے اور میں ایک رپورٹر ہی تھا‘ جس کا کام تعلق سے ہٹ کر رپورٹنگ کرنا تھا۔ وہ ہماری آخری ملاقات تھی اور اب بارہ برس بعد وزیر اعظم ہائوس میں ملاقات ہو رہی تھی۔ وہ اب وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ بارہ برس بعد بھی شہباز شریف صاحب کے ہینڈشیک سے مجھے لگا‘ سرد مہری اب بھی موجود ہے۔ صحافیوں سے ملنے کے کچھ دیر بعد شہباز شریف اپنی سیٹ سے اٹھے اور تقریر شروع کی۔ وہ کافی دیر بولتے رہے۔ عمران خان حکومت کی چھوڑی مشکلات کا ذکر کرتے رہے۔ بولے: دو تین دن سے بریفنگ لے رہا ہوں‘ اندازہ نہ تھا‘ حالات اتنی خطرناک سٹیج پر پہنچ چکے ہیں‘ اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے پتہ تو تھا کہ حالات بہت خراب ہیں‘ لیکن یہ پتہ نہ تھا کہ حالت اتنی خراب ہو گی۔
یہ بات سن کر مجھے عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد اسی طرح اینکرز سے پہلی ملاقات یاد آئی۔ سب صحافی عمران خان کو اندر داخل ہوتے دیکھ کر احتراماً کھڑے ہوئے کہ وہ ہاتھ ملائیں گے‘ لیکن عمران خان کسی سے ہاتھ ملائے بغیر سیدھے جا کر سامنے بیٹھ گئے اور اپنے سامنے بیٹھے کاشف عباسی کو دیکھ کر کہا: ہاں کاشف پوچھو‘ کیا پوچھنا ہے؟ کاشف عباسی تیار نہ تھا کہ کیا پوچھے۔ ہم سب کا خیال تھاکہ وہ کچھ دیر خود بات کریں گے کہ اب تک وزیراعظم بن کر انہوں نے کیا کیا‘ پھر سوالات ہوں گے۔ اس اچانک افتاد پر کاشف نے خود کو سنبھالا اور کہا: خان صاحب لگتا ہے‘ آپ حکومت کیلئے تیار نہ تھے؟ عمران خان فوراً بولے: بالکل کاشف‘ نواز لیگ بہت بری حالت میں ملک چھوڑ گئی ہے۔ ہمیں اپوزیشن میں اندازہ تو تھا لیکن اب بریفنگ سے پتہ چلا ہے کہ وہ مکمل تباہی کرکے گئے ہیں۔ ہمارے وہم و گماں میں نہ تھا کہ حالات اتنے خراب ہوں گے۔
اب وہی بات شہباز شریف وزیر اعظم بن کر ہمیں بتا رہے تھے کہ عمران خان حکومت ایک طرح سے برباد کرکے گئی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف سے سوال و جواب کا سلسلہ جاری تھا۔ مریم اورنگزیب صاحبہ کوشش کر رہی تھیں کہ سوالات کا زیادہ موقع ان صحافیوں کو ملے جنہیں نواز لیگ حلقوں میں زیادہ پسند نہیں کیا جاتا۔ میں نے ہاتھ کھڑا کیا تو مریم صاحبہ نے میرا نام پکار کر کہا: جی پوچھیے سوال۔ میں نے کہا: میاں صاحب، آپ خود ضمانت پر ہیں۔ آپ پر نیب کے مقدمات ہیں۔ بہتر نہ ہوتا آپ اپنی جگہ کسی اور کلین بندے کو وزیر اعظم بناتے؟ ملک کی ریپوٹیشن دائو پر ہے‘ دوسرے شریف خاندان کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اقتدار اپنے گھر سے باہر کسی کو نہیں دیتے۔ اب باپ وزیر اعظم، بیٹا حمزہ وزیر اعلیٰ۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ تیسرے‘ آپ نے آتے ہی تین چار گھر پھر کیمپ آفس ڈکلیئر کرا لیے ہیں۔ چوتھا‘ نواز شریف سے لے کر عمران خان تک 2013 سے حکمرانوں کو ملنے والے قیمتی تحائف کی تفصیلات کبھی ریلیز نہ کی گئیں۔ سب کچھ حکمران کھا گئے۔ آپ اپنے بھائی نواز شریف اور عمران خان کے تحائف کی تفصیلات ریلیز کریں گے کہ کون کیا کچھ لے گیا؟ (جاری)