معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
عمران ‘شہباز اور توشہ خانہ سکینڈل …(2)
شہباز شریف کے چہرے پر ایک لمحے کیلئے ناگواری ابھری۔ پورے ہال میں خاموشی تھی۔ سب آنکھیں شہباز شریف پر مرکوز تھیں کہ وہ ان چبھتے ہوئے سوالات کا کیا جواب دیتے ہیں۔
مجھے لگا شہباز شریف کا موڈ خراب ہو چکا ہے۔ جس سرد مہری سے وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر گئے تھے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔کمرے میں چھائی خاموشی کے درمیان دوسروں کی طرح میں بھی شہباز شریف سے جس بات کا منتظر تھا۔شہباز شریف نے میرے سوالات ختم ہوتے ہی جواب دینا شروع کیا۔ کہنے لگے کہ میں پہلا وزیراعظم نہیں ہوں جس پر مقدمہ ہو یا وہ ضمانت پر ہو‘ مجھ سے پہلے عمران خان بھی ہیلی کاپٹر کیس میں ضمانت پر تھے‘ جب حلف اٹھایا تھا۔ کہنے لگے :اس بات کو چھوڑ دیں کہ وہ کیس جھوٹا تھا یا سچا وہ ضمانت پر تو تھے۔میرا کیس بھی چل رہا ہے‘ اس کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔شہباز شریف بولے: جہاں تک بات ہے کہ بیٹے کو پنجاب میں وزیراعلیٰ بنارہے ہیں تو آپ یہ بات نہ بھولیں کہ پنجاب میں حمزہ کو وزیراعلیٰ بنانا ہمارے پلان میں نہ تھا۔ اگر ہوتا تو میں کیوں پرویز الٰہی کے گھر خود جا کر انہیں وزیراعلیٰ بنانے کی پیش کش کرتا؟ میں نے تو خود پرویز الٰہی کو کہا تھا کہ وہ وزیراعلیٰ بن جائیں‘ ہم انہیں سپورٹ دیں گے‘ بلکہ ہماری تو دعائے خیر تک ہوگئی تھی لیکن بعد میں پرویز الٰہی خود بدل گئے۔ اس پر ہماری پارٹی کے اندر مشاورت ہوئی تو یہ فیصلہ ہوا کہ جو حالات پنجاب میں ہیں بہتر ہوگا کہ حمزہ شہباز کو لایا جائے۔ یہ فیصلہ پارٹی کا ہے میرا نہیں۔ شہباز شریف بولے کہ جہاں تک تعلق ہے توشہ خانے کا تو میں وزیراعظم کے طور پر کنفرم کرتا ہوں کہ عمران خان نے توشہ خانے سے تحائف لے کر دبئی میں فروخت کئے۔ ان تحائف کی مالیت کم دکھانے کیلئے توشہ خانہ کے رولز میں تبدیلی بھی کی گئی تاکہ جو پرسنٹیج دینا پڑتی ہے وہ بھی نہ دینا پڑے۔اگرچہ پہلے کہا جارہا تھا کہ شاید ایک گھڑی تھی جو بیچی گئی لیکن دراصل اس میں ایک گھڑی‘ نیکلس اور انگوٹھی شامل تھی۔شہباز شریف کا کہناتھا کہ ایک دفعہ انہیں ایک گھڑی تحفے میں ملی تھی تو انہوں نے وہ اپنے پاس رکھنے کے بجائے توشہ خانے میں جمع کرا دی تھی۔اس پر قریب بیٹھے خواجہ آصف نے شہباز شریف کو یاد دلایا کہ عمران خان سے جب سینیٹ میں سوال ہوا کہ وہ اپنے تحائف کی فہرست ہاؤس میں پیش کریں تو انہوں نے کہا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت وہ اپنے تحائف پبلک یا پارلیمنٹ کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتے۔
دلچسپ بات یہ ہے جس کا شاید خواجہ آصف کو علم نہ تھا کہ عمران خان کو یہ آئیڈیا نواز شریف نے ہی دیا تھا۔ 2017ء کے اوائل میں سینیٹر کلثوم پروین نے تفصیلات مانگی تھیں کہ نواز شریف کو بیرونِ ملک دوروں سے ملنے والے تحائف کی فہرست پیش کی جائے۔ اس پر فواد حسن فواد جو اس وقت پرنسپل سیکرٹری تھے نے کابینہ ڈویژن کے ساتھ مل کر یہ حل نکالا کہ مشرف دور کے اطلاعات تک رسائی کے آرڈیننس میں ایک کلاز تھی جس کے تحت وفاقی حکومت کسی انفارمیشن کو سیکرٹ قرار دے کر چھپا سکتی ہے۔ یوں پہلی دفعہ پارلیمنٹ کو لکھ کر بھیجا گیا کہ نواز شریف کو ملنے والے تحائف سب سیکرٹ ہیں ‘ اگر ان کی تفصیل قوم کے ساتھ شیئر کی گئی تو اس سے ان ملکوں کے سربراہان ناراض ہوں گے جنہوں نے وہ قیمتی تحائف پیش کئے تھے۔مجھے اس وقت بھی حیرانی ہوئی تھی کہ ان ممالک کے سربراہان تو چاہتے ہوں گے کہ پاکستانی قوم کو پتا چلے کہ وہ ان کے لیڈروں کی قدر کرتے ہیں اور کتنے قیمتی تحائف ان کی خدمت میں پیش کئے۔اس طرح جب عمران خان کے بارے میں پوچھا گیا کہ انہیں کس کس ملک سے کیا کچھ ملا تھا تو انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو نواز شریف نے دیا تھا کہ تحائف قومی راز ہیں۔اب سب کو پتا چل گیا ہے کہ وہ قومی راز کیا تھا۔ تاہم شہبازشریف نے اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ انہوں نے وزیراعظم بنتے ہی تین چار گھروں کو کیمپ آفس ڈکلیئر کر دیاتاکہ سب گھروں کا خرچہ سرکاری پیسوں سے چلتا رہے۔ ہوسکتا ہے وہ جواب دینا بھول گئے ہوں‘ میں نے بھی انہیں یاد دلانے کی کوشش نہیں کی کہ دیگر صحافیوں کو بھی سوالات کا وقت ملنا چاہئے۔اس بات کو بھی شہباز شریف گول کر گئے کہ آیا شہباز شریف وزیراعظم بن کر عمران خان اور نواز شریف کو بیرون ملک سے ملنے والے مہنگے تحائف کی تفصیلات سامنے لائیں گے؟ بلکہ لانا کیا ہے انہوں نے کابینہ ڈویژن کو ہدایت دینی ہے کہ سابق پرنسپل سیکرٹری نے 2017ء میں وزیراعظم کو بچانے کیلئے سینیٹر کلثوم پروین کے جس سوال کو سکیورٹی رسک قرار دے کر تحائف کی تفصیلات دینے سے انکار کیا تھا اب اس حکم نامہ کو واپس لیا جاتا ہے اور سینیٹ کو وہ سب تفصیلات بھجوا دی جائیں۔
جب اس ملاقات کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے باہر نکل رہے تھے تو اینکر دوست ماریہ میمن نے ہنستے ہوئے کہا :توآج دوبارہ بندوبست کر لیا ہے کہ آپ کو آئندہ وزیراعظم ہاؤس نہ بلایا جائے۔میں نے پوچھا وہ کیوں؟ماریہ بولیں :یاد ہیں وہ سخت سوالات جو آپ نے عمران خان سے وزیراعظم بننے کے بعد پہلی ملاقات میں کئے تھے جس پر وہ ناراض ہوگئے اور آپ کو آئندہ بلانے سے منع کر دیا گیا۔ آج آپ نے پھر اسی طرح پہلی ملاقات میں شہباز شریف صاحب سے ان سوالات سے زیادہ سخت سوالات پوچھ لیے ہیں۔مجھے یاد آیا اسی وزیراعظم ہاؤس میں چند دن پہلے میری اور عامر متین کی عمران خان صاحب سے آخری ملاقات ہوئی تھی۔ عامر نے یہی کہا تھا کہ وہ شروع میں سب سے ملے اور پھر صرف اپنی پسند کے صحافیوں سے ملتے رہے ‘یوں انہیں اپنی حکومت کے بارے آزادنہ رائے نہ مل سکی تھی اور وہ اپنا نقصان کر بیٹھے۔اس ملاقات میں وہ بڑے پراعتماد تھے اور عامر متین کو ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ آپ بس دیکھتے جائیں کہ میں ان لوگوں کے ساتھ اسمبلی میں کیا کرتا ہوں۔ میرے پاس ابھی بڑے کارڈز ہیں۔ اگلے دن انہوں نے اسمبلی ہی توڑ دی‘ جس کے بعد وہ بحران شروع ہوا جو ان کی رخصتی پر ختم ہوا۔
اقتدار سے رخصتی کتنی بے رحم ہوتی ہے کہ عمران خان نے وزیراعظم ہاؤس میں آخری شام چند صحافیوں کو بلایا اور ان کے ساتھ اگلے ہفتے کا پلان ڈسکس کیا کہ وہ ابھی اس معاملے کو کیسے لٹکائیں گے۔ تقدیر بھی انسان کے ساتھ کیا مذاق کرتی ہے کہ عمران خان کو اندازہ نہ تھا ایک گھنٹے بعد وہ وزیراعظم نہیں رہیں گے۔ یہ ہر حکمران کا مسئلہ رہا ہے کہ وہ خود کو ناگزیر سمجھ لیتا ہے کہ اب اس کے بغیر دنیا نہیں چلے گی۔بینظیر بھٹو کو چھ اگست 1990ء کی صبح اخبار کی سرخی سے پتا چلا تھا کہ آج ان کی حکومت برطرف ہو جائے گی۔ وہ تردید جاری کرتی پھر رہی تھیں۔ نواز شریف اپنے تئیں جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف لگا کر مطمئن بیٹھے تھے کہ اگلے پانچ سال پکے اور امیرالمومنین کا عہدہ بھی۔ دو گھنٹے بعد وہ ہتھکڑیوں میں جکڑے جیل پہنچ چکے تھے۔میر ظفراللہ جمالی نے جس صبح انٹرویو دیا کہ وہ کہیں نہیں جارہے اسی شام وہ استعفیٰ دے کر راولپنڈی ریلوے سٹیشن سے جعفر آباد جانے کیلئے ٹرین پکڑ رہے تھے اور انہیں صرف کابینہ کا ایک وزیر رضا ہراج الوداع کہنے آئے تھے۔ باقی سب وزیر نئے وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز کے گھر جمع تھے۔اب عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ وزیراعظم ہاؤس میں وہ چند صحافیوں کو بلا کر ان کے ساتھ اگلے ہفتے کی منصوبہ بندی شیئر کررہے تھے کہ وہ کہیں نہیں جارہے۔
تقدیر بھی کیا مذاق کرتی ہے‘چند لمحوں میں بندہ وزیراعظم ہاؤس سے سڑک پر آجاتا ہے۔عمران خان شکر کریں ان کی بچت ہوگئی ورنہ بھٹو اور نواز شریف‘ دونوں وزیراعظم ہاؤس سے جیل گئے تھے۔ایک جیل سے زندہ واپس نہیں آیا دوسرا اٹک قلعہ سے جلاوطن ہوا۔