ٹرمپ ماڈل تیار ہے ؟

اسلام آباد میں ہر تین سال بعد کوئی نہ کوئی سیاسی کھیل تیار ہوتا ہے۔ 2002 کے الیکشن کے بعد دیکھیں تو یہ پیٹرن واضح ہوتا چلا جاتا ہے بلکہ شاید میں غلط کہہ رہا ہوں‘ یہ کام 1985 سے جاری ہے جب جونیجو کو اڑھائی سال بعد، بینظیر بھٹو کو اٹھارہ ماہ بعد تو نواز شریف کو تقریباً تین سال بعد فارغ کر دیا گیا تھا۔ بے نظیر اور نواز شریف‘ دونوں کی دوسری حکومت بھی مدت پوری ہونے سے پہلے ختم کر دی گئی ۔ مشرف دور میں جمالی بھی تین سال پورے نہ کر سکے اور شوکت عزیز وزیر اعظم بن گئے۔ دو ہزار آٹھ کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ گیلانی کے بعد راجہ پرویز اشرف تو نواز شریف کے بعد شاہد خاقان عباسی کی باری لگی۔ اب عمران خان اس لائن میں لگے ہوئے ہیں۔ ساڑھے تین سال بعد ان کا بھی وہی حشر ہونے کا خدشہ ہے‘ جو ان سے پہلے درجن بھر وزیراعظموں کا ہو چکا ہے کہ کوئی مدت پوری نہ کرسکا۔ ان کی جگہ اپوزیشن شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانا چاہ رہی ہے۔
عہدوں کی تقسیم آصف زرداری کے ذمے لگی تھی۔ ان کے ذمے غالباً یہ چوتھا پروجیکٹ لگا ہے جو ”نیوٹرل ایمپائرز‘‘ کے ساتھ مل کر کرنا ہے۔ وہ پہلے تین پروجیکٹ کامیابی سے پورے کر چکے ہیں لہٰذا جو لوگ انہیں جانتے ہیں‘ دعویٰ کرتے ہیں کہ زرداری صاحب چوتھا پروجیکٹ بھی پورا کریں گے کیونکہ وہ کچے پر پائوں نہیں رکھتے۔ اسی لیے عمران خان زیادہ ڈرے ہوئے ہیں اور وہ آصف زرداری کو ہی اپنا ٹارگٹ کیے ہوئے ہیں۔ میلسی میں زرداری کو بیماری کہا تو کراچی میں بندوق کا ذکر کیا کہ وہ ان کے نشانے پر ہیں۔ عمران خان اس وقت نواز شریف یا شہباز شریف سے زیادہ زرداری سے گھبرائے ہوئے لگ رہے ہیں کیونکہ ایک مشترکہ پروجیکٹ میں عمران خان بھی ان کے پارٹنر تھے اور دونوں نے مل کر نواز شریف کی حکومت کو صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنوا کر شکست دی تھی۔ خان صاحب کو علم ہے کہ زرداری کو تبھی میدان میں اتارا جاتا ہے جب طاقتور حلقے سنجیدگی سے کوئی کام کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے ذمے پہلا پروجیکٹ نواز شریف دور میں لگا کہ نواز شریف سے سینیٹ چھیننا ہے‘ لہٰذا بلوچستان میں نواز شریف کی حامی حکومت کے خلاف بغاوت کرکے قدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ لا کر سینیٹ کی سیٹیں نکالی گئیں۔ دوسرا پروجیکٹ سینیٹ میں نوازشریف کے امیدوار کو ہرا کر صادق سنجرانی کو چیئرمین اور سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی بنانا تھا۔ زرداری صاحب نے تیسرا پروجیکٹ گیلانی کو سینیٹر بنانے کا لیا تھا‘ اور کوئی نہیں مان رہا تھا کہ گیلانی صاحب اسلام آباد سے سینیٹر بن جائیں گے۔ چوتھا پروجیکٹ گیلانی صاحب کو چیئرمین سینیٹ بنوانا تھا۔ جو ہوا سب کے سامنے ہے۔ فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں محفوظ ہے۔ تازہ پروجیکٹ عمران خان کو ہٹانے کا ہے اورانکی حکومت میں دراڑیں ڈال دی گئی ہیں۔ زرداری صاحب کا فارمولہ یہ تھا کہ پی پی پی کو مرکز میں اپنا وزیراعظم نہیں چاہیے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہوں‘ پنجاب میں پرویز الٰہی کو وزیر اعلیٰ بنا دیں‘ جس میں نواز لیگ اور پی پی پی کے وزیر بھی ہوں گے۔ پوچھا گیا: آپ کیا لیں گے؟ جواب دیا کہ انکے پاس سندھ حکومت ہے‘ باقی سیاسی بیروزگار بھی کچھ نہ کچھ لے لیں‘ مولانا کو بھی حصہ بقدر جثہ دے دیں۔ مطلب‘ سب کی ٹوکری میں کچھ نہ کچھ ڈال دیا جائے۔
شریف برادران نے اس دفعہ آصف زرداری کی ہاں میں ہاں ملانے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے شہباز شریف چودہ برس بعد آصف زرداری کے کہنے پر پرویز الٰہی کے گھر گئے‘ لیکن چوہدریوں نے غالباً سوچا کہ اچھا موقع ہے‘ عمران خان سے بارگین کرکے وزارتِ اعلیٰ لے لیتے ہیں‘ زیادہ بہتر ہوگا۔ نواز لیگ کا وزیراعلیٰ لگ کر وہ مزہ نہیں رہے گا۔ جب شریف برادران نے زرداری سے شکایت کی کہ آپ کے وعدے پر چوہدریوں کے گھر گئے تو انہوں نے اس کو مونس الٰہی کے نمبرز خان کے سامنے ٹانکنے کیلئے استعمال کر لیا تو آصف زرداری نے کہا ہو گا: ہیٹ سے ایک اور کبوتر نکال لیتے ہیں۔ انہوں نے ترین گروپ نکال لیا جس کے بعد چوہدریوں کی وزارت اعلیٰ چھوڑیں سپیکرشپ اور وزارتیں تک خطرے میں ہوں گی‘ اگر ترین گروپ نواز لیگ کے ساتھ مل کر بزدار کو ہٹا کر نیا وزیر اعلیٰ اور سپیکر لاتے ہیں۔ اب چوہدری شجاعت‘ جن کی طبیعت خراب ہے‘ کو اٹھا کر پہلے مولانا کے گھر لے گئے پھر زرداری صاحب کے‘ لیکن بس شاید مس ہو چکی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ خان صاحب کو کیا کرنا چاہیے؟ کسی سیانے نے کیا خوبصورت بات کی تھی کہ کبھی کامیاب بندے یا حکمران کو مشورہ نہ دیں‘ وہ خود بہت سیانے ہوتے ہیں کیونکہ ٹاپ پر بیٹھا بندہ نیچے کھڑے بندے کی بات کو وزن نہیں دیتا۔ خان صاحب کے پاس دو تین آپشن تھے۔ ایک وہ استعمال کر چکے ہیں کہ نعرہ ماریں کہ پوری دنیا ان کے خلاف سازش میں شامل ہے۔ یہی الزام بھٹو صاحب نے اپنی اپوزیشن پر لگایا تھا۔ انجام سب جانتے ہیں۔ ہر سازش کا الزام امریکہ پر لگانا پاکستان میں فیورٹ ٹاپک ہے۔ اب اس نعرے میں جان نہیں رہ گئی۔ دوسرا آپشن تھا کہ وہ چوہدریوں سے لے کر ایم کیو ایم تک سب کی منتیں کریں جو وہ کر چکے‘ اور دونوں اتحادی کہہ چکے ہیں کہ ابھی انہوں نے ساتھ رہنے یا چھوڑنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ اگلا آپشن تھا کہ وہ ہر طرف سے مایوس ہو کر غصہ اپوزیشن پر نکالنا شروع کر دیں۔ یہ کام میلسی اور کراچی سے شروع ہوچکا۔ کہیں سے نہیں لگا کہ ملک کا وزیراعظم اپنے مخالفین کے بارے میں گفتگو کررہا ہے۔ اب اگلا آپشن یہ ہے کہ اپنے ایم این ایز کو ڈرایا جائے۔انہیں نااہل کرنے کی دھمکیاں دی جائیں۔ پارلیمنٹ کے اندر دنگا فساد کا پروگرام تربیت دیا جائے۔ مطلب اب وہی راستہ اختیار کیا جائے جو ٹرمپ نے پچھلے سال چھ جنوری کو امریکہ میں کیا تھا جب ان کے ہزاروں حامیوں نے کیپٹل ہل پر حملہ کر دیا تھا۔
ابھی سے کچھ پی ٹی آئی پارٹی لیڈرز یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ جس دن تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو اس دن ان کے حامی باہر ڈی چوک پر موجود ہونے چاہئیں۔ مقصد وہی ہے: گند ڈالا جائے اور وہی بات کہ ‘نہ کھیڈاں گے ناں کھیڈن دیاں گے‘۔ اب اس سٹریٹیجی میں بہت سارے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں لیکن خان صاحب کا مزاج سامنے رکھتے ہوئے انہیں یہی مشورے دیے جا رہے ہیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیں۔ خاں صاحب کے پاس ایک اور راستہ بھی تھا۔ وہ ایک ہائی مورال گرائونڈ لیتے اور کہتے کہ کسی اتحادی کے پاس نہیں جائیں گے۔ کسی ایم این اے کو اپنے خلاف ووٹ دینے سے نہیں روکیں گے۔ کوئی دنگا فساد نہیں کرائیں گے۔ وہ کسی کے ہاتھ پائوں نہیں پکڑیں گے۔کسی کی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوں گے۔ وہ اس دن ہائوس میں موجود رہیں گے جس دن ووٹنگ ہوگی۔ ہر کسی کو آزادی ہے کہ اگر سمجھتا ہے کہ وہ بہتر وزیراعظم ثابت نہیں ہوئے تو انکے خلاف ووٹ دے۔ وہ کسی کے ہاتھ باندھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ خدا نے انہیں وزیراعظم بنا دیا۔ وہ اب تین دفعہ بنیں یا ایک دفعہ ان کا نام اب اس فہرست میں شامل ہے۔ ان کو اس وقت victim نظر آنا چاہئے تھا جس کے خلاف سب گینگ اپ ہوگئے تھے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ جب وہ کسی انسان کو کمزور دیکھتے ہیں جس کے خلاف سب اکٹھے ہو جائیں تو ان کی ہمدردیاں اس اکیلے بندے کے ساتھ ہوجاتی ہیں۔
عمران خان بھی شاید اب ٹرمپ کی طرح کے اقدامات کی سوچ رہے ہیں۔ مخالفین پر اس طرح ذاتی حملے کررہے ہیں جو وزیراعظم کے عہدے کی شان کے خلاف ہے۔ ان کو ایڈوائزر غلط مشورے دے رہے ہیں۔ ان کو اس وقت ایک ہی مشورے کی ضرورت ہے: اگر شکست کھانی ہے تو بھی گریس کے ساتھ کھائی جائے کہ لوگ یاد رکھیں‘ ورنہ درجنوں وزیراعظم آئے لیکن دو تین کے علاوہ نئی نسل کو کسی کا نام یاد نہیں۔