تھوڑا بہت خراب تو ہونا ہی چاہیے

صبح ناشتے سے پہلے دنیا اخبار کی ایپ پر اخبار پڑھتے ہوئے کافی پیتا ہوں۔ اس روز جب میں اخبار کے ایڈیٹوریل صفحہ پر رسول بخش رئیس کا کالم ”چائے‘ کافی اور اشرافیہ‘‘ پڑھ رہا تھا تو کافی کا کپ میرے ہاتھ میں تھا۔ اس دو آتشہ نے صبح کا مزا دوبالا کر دیا۔ اب یہ کالم لکھتے ہوئے بھی کافی کا کپ سامنے پڑا ہے اور لکھتے ہوئے درمیان میں کافی کے گھونٹ بھرتا ہوں‘ کھڑکی سے باہر نظر دوڑاتا ہوں۔ ہلکے ہلکے برف کے گالے ہوا میں تیر رہے ہیں۔ سڑک اور لان کے درمیان پیدل چلنے والے راستے کی دونوں اطراف پر کھڑا ہوا پانی جم کر برف بن چکا ہے۔ اس مختصر سی رہائشی کمیونٹی (Canterbury) کے پہلو میں بہنے والی ندی کی جلترنگ بند ہو چکی ہے اور کل گزرتے ہوئے دیکھا کہ دریائے مامی کی لہریں سردی کی شدت سے جم چکی تھیں اور پہلو بدلنے سے قاصر تھیں۔ گزشتہ دو تین دن تو ہوا بھی اتنی تیز اور سرد تھی کہ بدن ڈھانپنے کے سارے بندو بست اس کی شدت کے سامنے ہاتھ کھڑے کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ باہر درجہ حرارت منفی نو ڈگری سنٹی گریڈ ہے اور محکمہ موسمیات کی پیش گوئی ہے کہ ابھی سردی کی شدت میں مزید اضافیہ ہو گا۔

کل دوپہر کے بعد ہوا رکی ہوئی تھی تو میں ایسے ہی چلتا ہوا گھروں سے آگے نکل گیا اور ندی کے ساتھ ساتھ چلتا ہوا تھوڑی دور نکل گیا‘ آگے ایک طرف کھلا میدان تھا اور دوسری طرف درختوں سے بھرا ہوا قطعہ اراضی تھا۔ شروع میں کچھ درخت ”بارہ ماہے‘‘ یعنی سارا سال سرسبز رہنے والے تھے۔ ان کے بعد ٹنڈ منڈ درختوں کا ایک سلسلہ دور تک پھیلا ہوا تھا۔ میرے دائیں طرف دور تک کھلا میدان تھا اور اس کے ایک طرف دو شیڈ تھے اور ایک بلند و بالا ”سائیلوز‘‘ تھا میدان بالکل خالی تھا، فصل کٹ چکی تھی اور ابھی کسی نئی کاشت کے آثار دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ میں ٹہلتے ٹہلتے شیڈز اور سائیلوز کے پاس چلا گیا۔ وہاں ایک ساٹھ پینسٹھ سال عمر کا صحت مند گورا نیلی جین اور جیکٹ پہنے اپنے ٹریکٹر کے انجن کا جائزہ لے رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے دوستانہ انداز میں ہاتھ ہلایا اور مجھے سائڈ پر پڑے ہوے سٹول پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ چند منٹ بعد اس نے انجن کا کوربند کیا، ہاتھ صاف کیے اور میرے قریب آکر خوشگوار مسکراہٹ سے ”گڈآفٹر نون‘‘ کہا اور دوسرے سٹول پر بیٹھ گیا۔

اس کے نام کا پہلا حصہ جو اس نے بتایا خاصا مشکل سا تھا‘ جو مجھے سمجھ میں نہیں آیا؛ تاہم اس کے نام کا دوسرا حصہ سمتھ تھا۔ اس کے فارم کے بارے گفتگو ہوئی تو وہ بتانے لگا کہ اس نے یہاں اپریل کے وسط میں سویابین کاشت کی تھی اور اپنی فصل اکتوبر کے وسط میں ”ہارویسٹ‘‘ کر لی تھی۔ اس کے پاس یہاں چھ سو ایکڑ کے قریب زمین ہے جس میں سے اس نے چار سو ایکڑ پر سویا بین کاشت کی تھی اور بقیہ دوسو ایکڑ میں مختلف سبزیاں، فصلیں اور بقیہ زیادہ تر زمین پر چارہ کاشت کیا تھا۔ اس کے پاس چالیس عدد گائیں تھیں اور ساتھ والا دو منزلہ اونچا سا شیڈ اپنی گائیوں کیلئے بنایا گیا تھا۔ سائیلوز میں ”سائلیج‘‘ بھرا ہوا تھا جو ساری سردیاں اس کی گائیوں کے چارے کیلئے استعمال ہوگا۔ ساری سردیاں اس کے پاس اپنی گائیوں کو کھلانے کیلئے اب یہی سائیلج ہے جو اس نے اپنی چارے کی فصل سے بنا رکھا ہے۔ اس نے اسے تیار کرنے کا طریقہ بھی بتایا جس کی کئی باتیں تو میرے پلے ہی نہیں پڑیں کہ ان سے بہت سی چیزیں میرے لیے بالکل نئی تھیں اور مزید یہ کہ کئی چیزوں کے نام بھی میں نے نہیں سنے تھے؛ تاہم اتنا سمجھ آیا کہ وہ چارے کی فصل کو باریک کاٹ کر اس میں یوریا اور مولیسز (Molasses) ڈالتے ہیں۔ چارے اور دیگر اشیا سے تیار کردہ اس مرکب کو ہوا بند سائیلوز میں بند کردیا جاتا ہے۔ اس دوران مولیسنر کے باعث خمیر پیدا ہوتا ہے اور سائیلج تیار ہو جاتا ہے۔ اب وہ سردیوں میں اپنے مویشیوں کو یہی تیار شدہ سائیلج کھلا رہا ہے۔ میں نے پوچھا کہ اس کا کھیت فارغ کیوں پڑا ہے؟ اس نے بتایا کہ وہ سویا بین کے بعد عموماً ”ونٹررائی‘‘ کاشت کرتا ہے مگر دو تین سال کے بعد کھیت کو فارغ چھوڑ دیتا ہے۔ اب چند دن بعد ادھر برفباری شروع ہو جائے گی۔ میری ساری زمین برف سے ڈھک جائے گی۔ اگلے چار ماہ یہ برف اس زمین پر پڑی رہے گی۔ یہ برف آہستہ آہستہ اس زمین میں جذب ہو جائے گی۔ یہ آسمانی برف خدائی تحفہ ہے۔ اس میں نائٹروجن ہوتی ہے اور یہ برف میری زمین میں نائٹروجن کی ساری کمی پوری کر دے گی۔ میری اگلی فصل بھرپور ہوگی اور مجھے زمین فارغ چھوڑ دینے کا معاوضہ آئندہ فصل سے مل جائے گا۔
اس نے بتایا کہ اس نے اس سال ساٹھ بشلز (اللہ جانے یہ کیا ہے تاہم یہ وہاں استعمال ہونے والا کوئی پیمانہ ہے) فی ایکڑ ہوئی ہے اور اس سال ریٹ تیرہ ڈالر فی بشل تھا۔ میری فی بشل لاگت چار ڈالر سے تھوڑی سی زیادہ تھی۔ میں نے حساب کیا تو اس کی کل لاگت تقریباً ایک لاکھ ڈالر کے لگ بھگ جبکہ اس کی کل آمدنی تین لاکھ ڈالر سے زیادہ تھی۔ اس شرح منافع کی واحد وجہ صرف اور صرف یہی تھی کہ وہاں سویا بین کی فصل کیلئے درکار پیداواری مداخل کی قیمت بہت کم تھی اور سب کچھ حکومت کی طرف سے زرعی شعبے کو دی جانے والی سہولتوں کے طفیل ممکن ہوا ہے۔ ادھر یہ عالم ہے کہ کسان کھاد کیلئے لائنوں میں خوار ہو رہا ہے اور حکومتی ذمہ داران بشمول وزیراعظم ملک میں یوریا کھاد کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث مافیا، فرٹیلائزر فیکٹریوں کی پیسے کی ہوس‘ منصوبہ بندی میں ناکامی اور حکومت کی نا اہلی کا اعتراف کرنے کے بجائے مختلف تاویلات دے رہے ہیں کہ کسان ضرورت سے زیادہ کھاد خرید رہے ہیں۔ پھر یہ خوشخبری بھی دی گئی کہ فروری کے بعد کھاد وافر مقدار میں میسر ہوگی۔ اب بندہ پوچھے کہ مارچ میں ملنے والی یوریا کھاد گندم کی فصل کو پہنچنے والے نقصان کا کس طرح ازالہ کر سکے گی؟

قارئین ! میں معذرت خواہ ہوں کہ ملکی سیاست پر ان دنوں کچھ نہ لکھنے کے ارادے کے باوجود پھر بھول کر سرکار کی نالائقی پر قلم اٹھانے کی غلطی کر چکا ہوں؛ تاہم یہ سیاست نہیں‘ ویسے ہی تقابل کرتے ہوئے تھوڑا ادھر ادھر ہو گیا ہوں۔ بات شروع ہوئی تھی رسول بخش رئیس کے کالم سے اور کافی سے ہوتی ہوئی امریکی زراعت اور پھر کھاد کی کہانی تک پہنچ گئی۔ باہر اس وقت برفباری ہو رہی ہے ایسے میں کافی کا تذکرہ نہ ہو تو بڑی زیادتی ہوگی۔ اب زندگی میں یہی ایک خرابی کافی ہی تو باقی بچی ہے اب اس سے بھی دستبردار ہو جائیں؟ جواد شیخ کا ایک شعر حسب حال ہے :

کیا ہے جو ہو گیا ہوں میں تھوڑا بہت خراب

تھوڑا بہت خراب تو ہونا ہی چاہیے

ہر خرابی کے پیچھے ایک کہانی ہوتی ہے۔ اس فقیر کی کافی والی خرابی کا قصہ بھی بس اسی قسم کا ہے۔ میں سن 80 کی دہائی میں میں پشاور کے علاقے فقیر آباد میں روسی اور امریکی جیکٹوں‘ سلیپنگ بیگز‘ رک سیک‘ کیمپنگ کا سامان اور اسی قسم کا الم غلم خریدا کرتا تھا۔ ایک دن وہاں ایلومینیم کی جگ نما شے ملی۔ اس کے اندر ایک ڈنڈی کے اوپر باریک جالی دار ایلومینیم کا ڈھکن دار حصہ تھا۔ دکاندار کو شاید اس کی حقیقت کا علم نہیں تھا؛ تاہم اس نے مبلغ سو روپے میں ہمیں لوٹنا چاہا‘ ہم نے بھی اس کی لا علمی کو غنیمت جانا اور سو روپے میں خرید لیا۔ یہ ایک ڈھیٹ قسم کا کافی بنانے والا جگ یعنی Percolater تھا۔ بھلا ملتان میں Brewing والی کافی کہاں سے ملتی ؟ یہ بندوبست مرحوم کورڈ مارکیٹ اسلام سے کیا اور پھر یہ خرابی ہمارا مقدر بن گئی۔ اگر کسی قاری کو اس کالم میں کوئی خاص بات نظر نہ آئے تو اس کے سو فیصد ذمہ دار ہمارے پیارے دوست رسول بخش رئیس ہیں اور ان کا کالم ”چائے‘ کافی اور اشرافیہ‘‘ ہے۔ ہمارا ذمہ ”اوش پوش‘‘۔