یہاں ایسے ہی چلتا رہے گا

کالم نگار بعض اوقات اپنی بات کہنے کیلئے کوئی کردار وضع کر لیتے ہیں اور ذاتی خیال یا فلسفہ اس کے منہ میں ڈال کر اپنی بات کہہ لیتے ہیں۔ آپ یقین کریں یہ ا یسا معاملہ نہیں ہے۔واقعہ بالکل ایسے ہی ہوا ہے جیسا کہ میں لکھنے جا رہا ہوں تاہم نام اور کسی قسم کی شناختی نشانی اس لئے نہیں لکھ رہا کہ جس ماحول اور تناظر میں یہ ساری گفتگو ہوئی تھی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسی حرکت اخلاقیات کے تقاضوں کے خلاف ہو گی کہ شریکِ محفل دوستوں کی شناخت اشارۃًبھی ظاہر کی جائے۔
میں اپنے ایک عزیز دوست سے ملنے گیا تو وہاں پہلے سے ہی اس کا ایک اور دوست بیٹھا ہوا تھا‘ میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں یہ میرے دوست کابہت ہی قریبی دوست ہے اور ان کے درمیان گاڑھی چھنتی ہے۔ فرض کر لیں کہ میرے دوست کا نام عبداللہ ہے اور اس کے دوست کا نام عبدالرحمن ہے۔ گو کہ اس ساری گفتگو کے دوران ایک بار بھی اس گفتگو کے آف دی ریکارڈ یا آن دی ریکارڈ ہونے کا تذکرہ تک نہیں ہوا لیکن آپ خود سمجھ جائیںگے کہ اس ساری گفتگو کے تناظر میں میری از خود اختیار کی جانے والی اس احتیاط کی کیا وجوہات ہیں۔ اب صرف اور صرف کالم کا پیٹ بھرنے کیلئے دوستوں کیلئے ایسی مصیبت توکھڑی نہیں کی جا سکتی جس کے بارے میں وہ دورانِ گفتگو پہلے ہی اپنے تحفظات کا اظہار کر چکے ہوں۔ میری تربیت مشرقی ماحول میں ہوئی ہے اور مجھے دوستی اور اس کے تقاضے نبھانے کی مروجہ روایات کا پاس ہے۔ اب میں مغربی معاشرے کا وہ بے مروت اور بے دید رویہ تو اختیار نہیں کر سکتا جسے بعض لوگ صاف گوئی کے پردے میں لپیٹ دیتے ہیں۔ صاف گوئی ایک مختلف چیز ہے اور اللہ نے اس عاجز کو اس سے بھی خوب نوازا ہے لیکن میں کم از کم ایسی صاف گوئی کا بہرحال قائل نہیں ہوں کہ ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کے دوران چیف آف دی آرمی سٹاف کسی کو یہ کہیں کہ آپ تقریروں اور جلسوں میں مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل کے نام سے نہ پکارا کریں اور میں صبح یہ بات بھی جلسوں میں دہرا دوں۔ ممکن ہے میرے اس اخفا پر بعض لوگ اس ساری گفتگو کے حقیقی ہونے پر شک کریں اور اسے میری ذہنی اختراع قراردیں؛ تاہم میں نام افشا کرنے سے بہتر سمجھتا ہوں کہ مجھ پر یہ الزام لگ جائے۔ بہتر یہی ہے کہ رمضان کے مقدس مہینے میں ہم ایک دوسرے کی بات پر یقین کریں۔
میں جب اپنے دوست عبداللہ کے پاس پہنچا تو وہاں اس کا دوست عبدالرحمن بیٹھا ہوا تھا۔ عبدالرحمن کے بارے میں یہ بتا دوں کہ یہ پی ٹی آئی کا صرف ورکر یا سپورٹر نہیں بلکہ اس کا فرنٹ لائن لیڈر ہے اور عمران خان کے خاصے قریب ہے۔ مخلص ساتھی ہے اور آپ اسے ہوا کا رخ پہچان کر پی ٹی آئی میں آنے والوں میں شمار نہیں کر سکتے۔ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو خان کے ساتھ دل و جان سے ہیں اور اچھے برے وقت میں ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ کسی حد تک اقتدار سے بھی لطف اندوز ہو چکا ہے اور ایک اردو محاورے کے مطابق تین میں نہ سہی‘ مگر تیرہ میں بہرحال ضرور ہے۔
اس محاورے کے پس منظر میں ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ بان پور (بندیل کھنڈ) کے راجا مردن سنگھ نے اپنے علاقے کے معزز ٹھاکروں کی دعوت کی۔ ان ٹھاکروں کے تین گھرانے بندیلے‘ پنوار اور گھگھنرے تھے ان کے علاوہ دیگر تیرہ گھرانے اور بھی تھے جن کا شمار اعلیٰ ذات کے ٹھاکروں میں ہوتا تھا۔ اس دعوت میں ایک ایسا شخص بن بلائے آن پہنچا جو نہ تو ان پہلے والے تین گھرانوں سے تھا اور نہ دوسرے تیرہ گھرانوں سے۔ تو ایسے شخص کو دعوت میں کھانا کھلانے کے بجائے اس کے گھر کھانا بھجوا دیا گیا اور محاورہ بن گیا کہ ” نہ تین میں نہ تیرہ میں‘ مردنگ بجاوے ڈیرے میں‘‘۔ مردنگ دونوں طرف سے بجنے والی ڈھولک کو کہتے ہیں۔ یہ محاورہ تو ایسے ہی درمیان میں آ گیا تو سوچا کہ اس سیاسی دنگل کے دوران اردو محاورے پر ہی بات ہو جائے تو شاید اس ماحول کی کثافت کم ہو جائے۔
عبدالرحمن ایک جارحانہ رویہ رکھنے والا شخص ہے اور عموماً چہکتا رہتا ہے مگر اس روز وہ تھوڑا ڈاؤن دکھائی دے رہا تھا۔ گفتگو شروع ہوئی تو اس کے لہجے میں جوش و خروش نہیں تھا جو اس کا خاصہ ہے۔ لگے ہاتھوں میں نے مناسب سمجھا کہ کچھ تشنہ باتوں پر اس سے آگاہی لی جائے۔ میں نے چھوٹتے ہی اس سے پوچھا کہ آپ ماشاء اللہ خان صاحب کے کافی قریب ہیں اور ان کے معاملات میں دخیل اور مشاورت میں بھی شامل رہتے ہیں۔ مجھے ایک سوال گزشتہ ساڑھے تین سال سے پریشان کر رہا ہے۔ اس کی مختلف وجوہات اور تاویلات سن چکے ہیں لیکن اس کے باوجود اس کا کوئی حتمی اور شافی جواب نہیں مل سکا اور وہ یہ کہ عمران خان نے کیا دیکھ کر پنجاب عثمان بزدار جیسے انتہائی فارغ آدمی کے سپرد کر دیا؟عبدالرحمن ہنسا اور کہنے لگا: ایمانداری کی بات ہے کہ شاید یہ وہ واحد معاملہ ہے جس کے بارے میں مجھے بالکل علم نہیں کہ اس انتخاب کی کیا وجہ تھی اور یہ کیونکر ہوا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے عمران خان سے یہ سوال نہیں کیا؟ وہ کہنے لگا :دراصل عمران خان اپنے اس انتخاب کے بارے میں چونکہ ہٹ دھرمی کی حد تک ڈٹے ہوئے تھے‘ لہٰذا ہمیں ان سے اس معاملے میں اختلاف تو ایک طرف رہا وجہ پوچھنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی۔ میں نے کہا :آپ تو ماشاء اللہ بڑے کھرے اور سیدھی بات کرنے والے ہیں اس معاملے میں کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا: خالد صاحب! آپ کتابی باتیں کرتے ہیں‘ سیاست میں زندہ اور موجود رہنے کیلئے کچھ چیزوں سے سمجھوتا کرنا پڑتا ہے اور اس میں پہلا سمجھوتا یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے پارٹی لیڈر سے اختلاف نہ کریں۔
میں نے کہا: عثمان بزدار کو چھوڑیں‘ ندیم بابر‘ فیصل واوڈا‘ زلفی بخاری‘ ظفر مرزا‘ تابش گوہر اور اس طرح کے لوگ کہاں سے آئے ؟ وہ ہنسا اور کہنے لگا: ان میں سے اکثر لوگ اوپر سے مسلط کیے گئے تھے۔ میں نے کہا کہ خان صاحب صرف بات سن کر بلاتصدیق آگے کرنے کی جس عادت کا شکار ہیں آپ نے اس سلسلے میں انہیں کچھ بتایا یا سمجھایا؟ اور وہ جو خان صاحب کو اپنے علم کے بارے میں خوش فہمی ہے کہ انہیں دنیا کے ہر معاملے پر سب سے بڑھ کر جانکاری حاصل ہے۔ وہ مغرب کو سب سے زیادہ جانتے ہیں‘ امریکہ کو امریکیوں سے زیادہ جانتے ہیں‘ برطانیہ کو گوروں سے زیادہ جانتے ہیں اور وہ ازبکستان کو ازبکستانیوں سے زیادہ جانتے ہیں حتیٰ کہ حال ہی میں فرمانے لگے کہ وہ بھارت کو بھی سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ جواباً وہ خاموش ہو گئے۔ پھر کہنے لگے: آپ پھر کتابی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ ایسی باتیں اگر کسی عام آدمی کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو وہ آپ سے ناراض ہو جائے گا کجا کہ وہ عمران خان جیسا بندہ ہو۔ وہ مجھے کہنے لگا کہ ایسی باتیں کرنے والا مجلس سے فارغ کر دیا جاتا ہے۔ آئندہ ایسے لوگوں کو اس مجلس میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی۔ پاکستان میں سیاست ایسی محفلوں میں رہنے اور لیڈر کی قربت سے چلتی ہے۔ وگرنہ پہلے آپ محفل اور پھر سیاست میں Irrelevant ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں سیاست کا سارا ڈائنامکس لیڈر کی خوشنودی پر چلتا ہے۔ آپ نے چودھری نثار علی خان اور جاوید ہاشمی کا حال نہیں دیکھا؟ میں نے کہا: نواز شریف تو مغلیہ شہنشاہوں سے متاثر تھے‘ عمران خان تو مغربی جمہوریت کی مثالیں دیا کرتے تھے۔ وہ سب کیا ہوا؟ وہ کہنے لگا : ان باتوں کو چھوڑیں‘ یہ پاکستان ہے یہاں سب ایسے ہی چلتا ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی چلتا رہے گا۔