یہ دوستوں کے بس کی بات نہیں

گز شتہ سے پیوستہ کالم کا آغاز تو سیفان کی کتاب سے محبت سے شروع ہوا مگر لکھنے کی روانی میں بات اصل موضوع سے کہیں اور چلی گئی۔ اس کالم کے حوالے سے بعض قارئین نے نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ بھلا انہیں آپ کی اور آپ کے گھر والوں کی سیروتفریح سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے اور مزید یہ کہ گیٹلن برگ پر اس کالم کا عام قاری سے کیا تعلق ہے؟ یہ سوال ایک حساب سے تو جائز بنتا ہے لیکن اگر کالم کے مندرجات کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو ہم محض مسافر ہیں اور گیٹلن برگ ایک استعارہ ہے کہ کس طرح صرف ایک شہر اپنی دلچسپیوں سے سالانہ لاکھوں سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔یہ شہر بنیادی طور پر پورے خاندان کیلئے دلچسپیوں کا سامان لیے ہوئے ہے۔ کیا بچے‘ کیا بوڑھے اور کیا جوان۔ نہ عمر کی قید ہے اور نہ صنف کی بندش۔ سب کیلئے کچھ نہ کچھ موجود ہے۔ امریکہ میں اکثر ریسٹورنٹس کے ایک کونے میں بار موجود ہوتی ہے اس لیے اس شہر میں باقاعدہ بارز کی تعداد نہایت ہی محدود ہے‘ لہٰذا یہاں آنے والی اکثریت اپنا وقت بارمیں گزارنے کے بجائے دوسری پرکشش سرگرمیوں میں صرف کرتی ہے۔ یہ کہنا کہ شراب کے بغیر سیاحت کا تصور خام ہے کسی حد تک غلط ہے کہ یہ شہر جو سیاحت اور سیر و تفریح کے حوالے سے امریکہ میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے محض شراب کے زور پر سیاحت کے تصور کی نفی کرتا ہے۔
ہمارے ہاں سیاحت کے نام نہاد تصور کے ساتھ کئی چیزیں جوڑ دی گئی ہیں جن میں سرفہرست یہ ہے کہ مغربی سیاح کو جب تک شراب تک رسائی نہ دی گئی ہمارے ہاں سیاحت کبھی بھی پنپ نہیں سکے گی۔ صورتحال یہ ہے کہ اگر مغربی سیاح کو محض شراب کی دستیابی سے ہی غرض ہو تو وہ اسے اپنے ملک میں بہ افراط‘ سستی اور آسانی سے دستیاب ہے اسے اس خرابے میں پڑنے کیلئے اتنا لمبا سفر کرنے اور مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس امر کو آپ محض ایک اضافی دلچسپی توکہہ سکتے ہیں بنیادی چیز قرار نہیں دے سکتے۔ فی الوقت پاکستان میں سیاحت کے فروغ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن و امان کے بارے میں مغرب میں ہمارے بارے میں وہ تصورات ہیں ہیں جن کو عالمی میڈیا بھی اچھالتا رہتا ہے اور مغربی ممالک کی متعلقہ وزارتیں اپنے شہریوں کو جن ممالک کے بارے میں سفر سے منع کرتے ہوئے ”ٹریول ایڈوائزری‘‘ جاری کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہوتا ہے۔
مغرب نے اپنے شہریوں کو تحفظ کے جس تصور سے روشناس کروایا ہے اس کے زیرِ اثر وہ اپنی زندگی کے بارے میں رتی برابر رسک لینے کیلئے تیار نہیں ہوتے تو بھلا ایسے میں وہ پاکستان کیلئے کیسے سفر کر سکتے ہیں جب ہر طرف سے یہ اطلاع مل رہی ہو کہ پاکستان سفر کرنے والوں کیلئے ایک انتہائی غیر محفوظ ملک ہے لہٰذا پاکستان کو سیاحت کیلئے قابل قبول بنانے کیلئے سب سے ضروری چیز تو یہ ہے کہ یہ تاثر زائل کیا جائے کہ پاکستان سیاحت کیلئے غیر محفوظ ملک ہے‘ لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہماری نااہلی ہے کہ ہم دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ گزشتہ چند سال میں حالات بہت بہتر ہوئے ہیں اور پاکستان اب ایک بہتر اور محفوظ ملک ہے لیکن صورتِ حال یہ ہے کہ ہماری حکومت اس سلسلے میں عملی پیش رفت کے بجائے کمیٹیاں بنانے اور لوگوں کو عہدے بخشنے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں کر رہی۔
گزشتہ حکومتوں کی مانند عمران خان صاحب نے بھی آتے ہی سیاحت کے فروغ اور پاکستان کو سیاحت دوست ملک بنانے کے بڑے دعوے کیے اور لگتا تھا کہ عملی طور اس بار کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی مگر اس بار بھی سب دعوے نقش برآب ثابت ہوئے اور حقیقی طور پر کوئی ایسی بات دکھائی نہیں دے رہی جس سے پتا چلے کہ ملک میں سیاحت کے فروغ کیلئے حکومتی دعووں اور اقدامات کا کوئی مثبت نتیجہ نکلا ہے۔ سیاست سے میری مراد عالمی سطح پر سیاحت ہے یعنی ملکِ عزیز میں دوسرے ممالک سے سیاح آئیں‘ جیسا کہ چند عشرے قبل اس ملک میں سیاح دکھائی دیتے تھے۔ ملتان میں چوک عزیز ہوٹل پر ایک ہوٹل ہوتا تھا۔ اسی ہوٹل کے نام پر اس چوک کا نام مشہور ہوا تھا۔ یہ دو سڑکوں کے کونے پر بنا ہوا چھوٹا سا‘ عام سادہ سا عزیز ہوٹل تھا۔ سنا تھا کہ یورپ میں سیاحت سے متعلق کسی رسالے نے کبھی کوئی ایسی آفر کی کہ اتنے پیسے دیں تو آپ کا اشتہار ہمیشہ کیلئے اس رسالے میں چھپتا رہے گا۔ اس ہوٹل کے مالک نے اس خصوصی آفر کے تحت اس رسالے کو مطلوبہ رقم بھجوا دی اور اس ہوٹل کا اشتہار اس رسالے میں چھپنا شروع ہو گیا۔ پھر عشروں تک یورپ سے آنے والے وہ سیاح جو اس رسالے سے فیض حاصل کرتے تھے عزیز ہوٹل میں آ کر ٹھہرتے رہے۔ سائیکلوں اور موٹر سائیکلوں پر بھی سیاح آتے تھے اور شہر میں گھومتے تھے۔ نہ خوف ہوتا تھا اور نہ ہی کوئی ڈر۔ پھر سب کچھ دہشت گردی کی نذر ہو گیا۔ پھر مزید ظلم یہ ہوا کہ مذہبی تنگ نظری نے حالات مزید ناگفتہ بہ کر دیے۔ عزیز ہوٹل جو کئی عشرے تک ان غیر ملکی سیاحوں کا منظورِ نظر ہوٹل تھا خدا جانے اب کس حال میں ہے۔
موجودہ حکومت نے سیاحت کے فروغ کیلئے نیشنل کوآرڈی نیشن کمیٹی برائے ٹورازم (NCCT)بنائی ہے اور اس میں حسبِ معمول صرف اپنے دوست‘ منظور ِنظر افراد اور بیوروکریٹس کو اکاموڈیٹ کیا گیا ہے۔ صورتحال یہ ہے سیاحت کو فروغ دینے کا شور تو بہت ہے مگر اس کا ثمر کہیں نظر نہیں آ رہا۔ ایسی صورتحال کے لیے ایک سرائیکی کہاوت بڑی مناسب ہے لیکن بدقسمتی سے یہ کہاوت چھپنے کیلئے مناسب نہیں اس لئے فی الوقت اس کہاوت کو رہنے دیں۔
میں کمبوڈیا گیا‘ وہاں بلامبالغہ لاکھوں سیاح سارے ملک میں گھوم رہے تھے۔ نیپال گیا تو کھٹمنڈو جو بالکل فارغ سا شہر ہے‘ اس کے ایئر پورٹ پرجہازوں کی ایک لمبی قطار تھی اور لاؤنج میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ نیپال میں ان سیاحوں کی آمد کی وجہ شہرہ آفاق آٹھ ہزاری چوٹیاں ہیں۔ یہ کل چودہ چوٹیاں ہیں جو آٹھ ہزار میٹر سے بلند ہیں اور انہیں Eight-Thousanderکہا جاتا ہے۔ ان چودہ میں سے آٹھ چوٹیاں نیپال میں ہیں جبکہ پاکستان میں پانچ اور چین میں ایک چوٹی ہے۔ پاکستان میں واقع ان پانچ چوٹیوں میں سے کے ٹو اور نانگا پربت ایسی چوٹیاں ہیں جو کوہ پیماؤں کیلئے خواب کی حیثیت رکھتی ہیں مگر چلاس کے واقعے کے بعد پاکستان میں کوہ پیماؤں کی آمد تو تقریباً ختم ہو گئی تھی جو اب بمشکل دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ نیپال میں دنیا بھر سے آنے والوں میں غالب تعداد ٹریکنگ کرنے والوں کی ہوتی ہے اور پاکستان اس سلسلے میں پوری دنیا کے ٹریکرز کی جنت بن سکتا ہے اور کنکارڈیا کے علاوہ نانگا پربت کے بیس کیمپس یعنی فیری میڈوز اور تری شنگ وغیرہ دنیا کے بہترین ٹریکنگ روٹ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اس کیلئے اعلانات سے بڑھ کر دنیا کو یہ باور کروانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں کیسے شاندار اور محفوظ ٹریکنگ روٹس اور سہولتیں میسر ہیں لیکن یہ کام بابوؤں اور دوستوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ مخلص‘ پیشہ ور اور سخت کوشوں کا کام ہے یار دوست ایڈجسٹ کرنے سے کام نہیں چلے گا۔