چھوٹی سے بڑی برائی تک کا سفر

یہ ہے ہمارے چوہتربرسوں کی کاوش کا نتیجہ کہ آج ہمارے سابق اور موجودہ حکمران ملک کو ڈبونے اور سول وار کی طرف لے جانے کیلئے تیار ہیں لیکن آپس میں بیٹھ کر کوئی درمیانی حل نکالنے کو تیار نہیں یا یوں کہہ لیں کہ وہ حل تلاش کرنا نہیں چاہتے۔ سیاست اب ذاتی دشمنی بن چکی ہے۔ اب یہ لوگ ایک دوسرے کے لہو کے پیاسے ہوچکے ہیں۔ اب قتل ہونے کی باتیں ہورہی ہیں۔
ہمیں بتایا گیا تھا سیاست اور سیاستدانوں میں لچک ہوتی ہے‘ وہ آمروں اور بادشاہوں سے بہتر لوگ ہوتے ہیں‘ وہ عوام کی بات سنتے ہیں‘ عوام کا بھلا سوچتے ہیں‘ اپنی ذات یا اَنا کے چکر میں نہیں پڑتے۔ ان کے نزدیک عوام اور ملک کا بھلا اہم ہوتا ہے اپنی ذات نہیں‘لیکن ان سب سیاستدانوں نے مل کر ہمیں غلط ثابت کردیا ہے۔ یہ سیاستدان مل کر ملک کو اس نہج پر لے آئے ہیں کہ پورا ملک پوچھ رہا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ ہمارا کیا بنے گا؟ ہمارا حشر سری لنکا جیسا تو نہیں ہوگا جہاں اس وقت سول وار کی سی صورتحال پیدا ہوچکی ہے۔ لوگ اپنے مستقبل سے مایوس ہیں۔ لوگ اب مرنے مارنے پر تل گئے ہیں۔ یہی چیز ہمارے سیاستدان چاہتے ہیں۔ نفرتیں بڑھ چکی ہیں‘ رشتہ دار اور دوستیاں ختم ہو چکی ہیں‘پورا معاشرہ اب نفرت سے اُبل رہا ہے‘ برسوں کی کوشش کے بعد یہ سب مل کر حالات کو اس سٹیج پر لے آئے ہیں کہ ملک گورننس کے قابل نہیں رہا۔
جمہوریت اس لیے متعارف کروائی گئی تھی کہ لوگ خود اپنے حکمران چن لیں‘ ووٹ کے ذریعے‘ نہ کہ تلوار سے فیصلہ ہو کہ نیا بادشاہ کون ہوگا۔ لیکن لگتا ہے انگریزوں کا یہ جمہوری تجربہ جو دنیا بھر میں کامیاب ہوا ہے ہمارے ہاں جواب دے گیا ہے۔ اب جو کچھ ہورہا ہے اس کے فیصلے تلوار اور گالی گلوچ سے ہوں گے۔ اب خون بہے گا تو فیصلہ ہوگا۔ اب کسی کو کوئی پروا نہیں رہی۔ جو سیاستدان اور حکمران ملک سے محبت کے دعوے کرتے ہیں وہ ملک کو سول وار کی طرف لے کر جارہے ہیں۔ یہ واضح ہے کہ اب حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔ عمران خان بھی ایک سال صبر نہیں کرسکتے کہ وقت پر الیکشن ہوں۔ وہ بھی فوراً الیکشن چاہتے ہیں ورنہ قوم دھرنوں‘ احتجاج اور مار دھاڑ کیلئے تیار رہے۔
ویسے ایک سال صبر توزرداری، شہباز شریف اور نوازشریف بھی نہ کرسکے تاکہ عمران خان اپنا نامۂ اعمال لے کر پانچ سال بعد عوام کے پاس جاتے ۔مجھے یاد ہے کہ صرف دوماہ پہلے تک عوام بلک رہے تھے اور لوگ دہائیاں دے رہے تھے۔ خان صاحب کے پرانے حامی اور ووٹر تک معافیاں مانگ رہے تھے کہ ان سے غلطی ہو گئی۔ الٹا میڈیا روز دبائو ڈال رہا تھا کہ اپوزیشن سڑکوں پر نکلتی کیوں نہیں؟اب دو ماہ بعد حالات بدل گئے ہیں۔ اب وہی عمران خان عوام کے پاپولر لیڈر بن چکے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ملک اسی صورت میں چلے گا اگر وہ وزیر اعظم ہوں گے‘ ورنہ خان کے بعد قیامت ہے۔
اب اہم حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ الیکشن کرا بھی دیے جائیں تو اگر خان صاحب الیکشن ہار گئے تو اس کے نتائج وہ نہیں مانیں گے۔ عمران خان صرف وہی رزلٹ مانیں گے جس میں وہ وزیراعظم بنیں اور اگر عمران خان کو وزیراعظم نہ بنایا گیا تو پھر قوم تیار رہے کہ سکون کسی کو نہیں ملے گا۔ عمران خان کو داد دیں کہ وہ ایسا ایسا پینترا بدلنے کا فن جانتے ہیں کہ دل کھول کر داد دینے کو دل چاہتا ہے۔ کیسے وہ ایک ماہ میں عوام کو پھر اپنے پیچھے لگا چکے ہیں کہ ان کے بعد قیامت ہے۔ عوام بھی یہی سمجھ رہے ہیں۔
اس میں عمران خان سے زیادہ شریف خاندان کی اپنی گورننس اور سکینڈلز کا بڑا ہاتھ ہے۔ ان کی کرپشن اور اقربا پروری کی اتنی کہانیاں لوگوں کو زبانی یاد ہوگئی ہیں کہ انہیں عمران خان ان کے مقابلے میں فرشتہ لگتا ہے۔لوگوں کو جب عمران خان کے وزیروں اور قریبی دوستوں کی کرپشن کا بتایا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو بہت کم ہے‘ شریفوں نے یا زرداری نے زیادہ کرپشن کی۔میں ہنس کر کہتا ہوں تیس سالوں سے صحافت کررہا ہوں‘ شریفوں کی کرپشن اس لیے زیادہ ہے کہ وہ تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں، نواز شریف اور شہباز شریف کئی دفعہ حکومت کر چکے ہیں۔ جب نواز شریف کی 1990 ء کے الیکشن کے بعد حکومت بنی تھی تو اُس وقت ان پر کرپشن کے کتنے الزامات تھے؟ ان کی دوسری حکومت بھی کرپشن کی وجہ سے برطرف نہیں ہوئی تھی بلکہ جنرل مشرف کو برطرف کرنے کی وجہ سے ہوئی تھی۔ شریفوں کی کرپشن کھل کر 2013 ء کے بعد سامنے آئی جب نواز شریف تیسری دفعہ وزیراعظم بنے اور پورا خاندان ایکسپوز ہوا اور اربوں روپوں کے ٹی ٹی سکینڈلز سامنے آئے۔ رہی سہی کسر پانامہ سکینڈل نے پوری کر دی اور لوگوں کو احساس ہوا کہ یہ تو ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں اور دنیا کے پانچ براعظموں میں ان کی جائیدادیں ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے یہی سمجھا جاتا تھا کہ انہوں نے بینکوں سے قرضے لے کر واپس نہیں کیے یا چھوٹی موٹی وارداتیں ڈالیں جو اکثر کاروباری لوگ ڈالتے رہتے ہیں۔ اصل کارنامے تو تیسری حکومت میں سامنے آئے۔لہٰذا آپ یوں سمجھ لیں کہ عمران خان کے وزیر اور درباری بھی اس حوالے سے وہیں کھڑے ہیں جہاں نواز شریف 1990\93 ء میں کھڑے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ بھی تجربہ کار ہوتے چلے گئے اور کھل کر جائیدادیں بنائیں۔
اگر دیکھا جائے تو پہلی حکومت اور ناتجربہ کار ہونے کے باوجود عمران خان حکومت کے بھی کم سکینڈلز سامنے نہیں آئے‘ لیکن وہ تقریر کرنے کا ایسا فن جانتے ہیں کہ اپنے حامیوں کو صحرا میں کھڑے ہو کر ریت بیچ دیتے ہیں اور وہ مہنگے داموں خرید بھی لیتے ہیں۔ان کے حامی سمجھتے ہیں کہ خان صاحب کے دورِ حکومت میں کرپشن کم تھی۔ اگر کی بھی تو اتنی زیادہ نہ تھی۔عمران خان کے مخالفین ان کے مقا بلے میںBig Evil ہیں جب کہ وہSmall Evil ہیں۔ اب اندازہ کریں اس ملک‘ قوم اور معاشرے کے دیوالیہ پن کا کہ ان بے چاروں کا انتخاب بڑی یا چھوٹی evil کے درمیان کرنا ہے۔ ان کا چوائس اچھے اور برے کے درمیان نہیں رہا بلکہ دو برائیوں کے درمیان ہے کہ ایک کو پِک کر لیں۔
ویسے سوال تو یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ عمران خان چھوٹی برائی کیوں اور کیسے بنے؟ وہ تو سب سے مختلف تھے۔ ایمانداری کا پرچار کرتے تھے پھر ان کے حامیوں کو کیوں کہنا پڑتا ہے کہ وہ کم برائی ہیں؟ وہ کیوں سو فیصد خود کو اچھے اور ایماندار حکمران نہ بنا سکے کہ کوئی نہ کہتا کہ وہ کم برائی ہیں بلکہ وہ سراپا نیکی اور ایمانداری ہیں اور ان کی پوری ٹیم بھی ایماندار ہے۔ قوم کو ایماندار حکمران کی ضرورت تھی۔یہ بات شریفوں اور زرداریوں کیلئے شرمندگی کا سبب ہونی چاہیے کہ ان پر اتنے سنگین الزامات ہیں کہ ملک کے نوجوان ان سے نفرت کرتے ہیں۔اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوسکتی ہے کہ معاشرے اور پڑھے لکھے لوگوں کو اس مقام پر لا کر قائل کیا جائے کہ دو برائیوں میں سے ایک کم برائی ہے۔ اور لوگ بھاگ کر کم برائی کو گلے لگا لیں۔ اگر آپ لوگوں کو یاد ہو تو یہی نعرہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے درمیان 90 ء کی دہائی میں مشہور ہوا تھا کہ بینظیر بھٹو سکیورٹی تھریٹ بنا دی گئی تھی اور نواز شریف کو ان کے مقابلے میں کم برائی بنا کر پیش کیا گیا کہ نواز شریف کرپٹ ہوگا لیکن وہ سکیورٹی تھریٹ نہیں ہے۔ وہ Small Evilہے۔
آج وہی چھوٹی برائی بڑی برائی بن چکی اور اب عمران خان کو اس کے مقابلے میں چھوٹی برائی سمجھا جارہا ہے۔ تسلی رکھیں اگر خان دوسری تیسری دفعہ وزیراعظم بنیں گے تو انہیں بھی اس وقت تک یہی خطاب مل چکا ہوگا اور ہم لوگ پھر کسی نئی چھوٹی برائی کے پیچھے لگ کر اس کا ڈھول بجا رہے ہوں گے۔