وزیراعظم سے وزیراعلیٰ KPK کی ملاقات، امکانات اور خدشات کی نئی بحث شروع

مزاحمت کیلئے بنائے جانے والا وزیراعلیٰ مفاہمت کی راہ پر کیونکر چل نکلا؟،وزیراعظم سے وزیراعلیٰ KPK کی ملاقات، امکانات اور خدشات کی نئی بحث شروع .

صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہبازشریف کی حلف برداری تقریب میں شرکت نہ کرنے کا انتہائی فیصلہ کا جواز خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے یہ پیش کیا تھا کہ صدر اور وزیراعظم دونوں ہی فارم 45نہیں بلکہ 47والے ہیں ،ہم ان کو آئینی صدر اور وزیراعظم نہیں مانتے، انہیں مینڈیٹ چور صدر اور وزیراعظم قرار دیا اس لئے تقریب حلف برداری میں شرکت نہیں کرینگے، ان کے اس موقف کی تائید کرنے والوں میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا یہ کہنا تھا کہ حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے کا مطلب یہ ہو گا کہ پاکستان تحریک انصاف نے دونوں شخصیات کی ان مناصب پر تقرری کو تسلیم کر لیا ۔

اس طرح وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے اتحادی جماعتوں کی وفاقی حکومت کو سخت پیغام دیا تھا جسے طبل جنگ بجانے کے مترادف قرار دیا جا رہا تھا .

لیکن گزشتہ روز وزیراعظم ہاؤس میں ان کی وزیراعظم شہبازشریف سے طویل ملاقات کو جہاں پی ٹی آئی کی ’’مفاہمت کی پالیسی‘‘ قرار دیا جارہا ہے وہاں اس ملاقات کے تناظر میں متضاد قیاس آرائیوں اور خدشات نے بھی جنم لیا، ایک طرف تو تندخو وزیراعلیٰ اپنے مزاج کے برعکس نرم خو نظر آرہے ہیں تو دوسری طرف اسد قیصر کا طرزعمل انتہائی جارحانہ ہے، وہ بعض الزامات اور مفروضوں پر مبنی فیصلوں کے حوالے سے فیصلہ کن لہجے میں وفاقی حکومت کو متنبہ کر رہے ہیں وہ ان اقدامات کے ردعمل میں وفاقی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریک چلائیں گے۔

شیرافضل مروت اور بیرسٹر گوہر خان نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے قیدی چیئرمین سے ملاقات پر پابندی ختم نہ کی گئی تو پی ٹی آئی کے تمام ارکان اسمبلی اڈیالہ جیل کے باہر دھرنا دیں گے اور گرفتاریاں پیش کریں گے۔

وزیراعظم سے وزیراعلیٰ کے پی کے کی یہ پہلی ملاقات تھی جس میں انہوں نے وزیراعظم کو صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت کی جانب سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی کرائی اور صوبے کو درپیش مسائل اور مشکلات سے آگاہ کیا۔

اس موقع پر وزیراعظم کے ہمراہ اہم وزرا جن میں اسحاق ڈار،خواجہ محمد آصف،احسن اقبال اور امیر مقام شامل تھے لیکن قابل ذکر بات یہ ہے کہ وزیراعلیٰ کے پی کے علی امین نے یہ ملاقات پی ٹی آئی کے کسی رہنما کی ہمنوائی کے بغیر کی۔ تاہم وزیراعظم وزیراعلیٰ کے درمیان وزیراعظم ہاؤس میں ون آن ون کسی ملاقات کی تصدیق نہیں ہوسکی۔

ملاقات کے حوالے سے شدت کے ساتھ زیربحث موضوع یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے اپنے رفقا ءکی شدید مخالفت کے باوجود جارحانہ خیالات کے اظہار کیلئے معروف جس شخصیت کو وفاق سے مزاحمت کیلئے اس منصب پر مقرر کیا تھا وہ مفاہمت کی راہ پر کیونکر چل نکلا، کیا اس اقدام کیلئے ’’المعروف قیدی نمبر804‘‘ کی ا ٓشیر باد حاصل تھی اگر واقعی ایسا ہی ہے تو اڈیالہ جیل سے آنے والے اس پہلے مثبت فیصلے کا خیر مقدم ضروری ہے .

اگر یہ کسی حکمت عملی کی منصوبہ بندی ہے جس کے بعض شواہد کی طرف اشارے بھی ہو رہے ہیں تو وہ بھی جلد ہی سامنے آجائیں گے تاہم حقیقت یہ ہے کہ وفاقی حکومت جس برق رفتاری اور روانی کے ساتھ اہم امور پر فیصلے کر رہی ہے۔