آخری ملاقات

ڈاکٹرز ہسپتال کے کمرہ نمبر508 پر دستک دی تو اٹینڈنٹ انعام اکبر کو بُلا لایا۔ انہوں نے وسیع کمرے کے اندر ایک اور کمرے کا دروازہ کھولا، اور مجھے ساتھ آنے کی دعوت دی۔ اندر داخل ہوا تو غلام اکبر لیٹے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر رونق تھی۔ مسکراتے ہوئے مجھے خوش آمدید کہا۔ چند لمحوں بعد عاصمہ بیٹی نے اُٹھ کر یخنی کے چند گھونٹ ان کے لبوں سے لگائے اور تروتازہ ہو کر انہوں نے بات چیت شروع کر دی۔ وہ پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے۔ بیماری پھیل چکی تھی۔ زندگی بھر سگریٹ سے سگریٹ جلاتے اور اپنے تئیں آلامِ روزگار کو آساں بناتے رہے، لیکن اب جان پر بنی ہوئی تھی۔ وہ اس سے بے نیاز یا بے خبر مستقبل پر نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ اسّی سال گزارنے کے باوجود اکتائے نہیں تھے۔ بیماری سے ہوتے ہوتے بات سیاست پر پہنچی۔ گزرے ہوئے ماہ و سال نظروں کے سامنے جھلملانے لگے۔ عمران خان سے نواز شریف، بے نظیر بھٹو، ایئر مارشل اصغر خان، اور پھر ذوالفقار علی بھٹو یاد آتے گئے۔ کتابِ ماضی کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھے جانے لگے۔ ایک نئے عزم کے ساتھ بولے، ہسپتال سے باہر نکل کر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر سیریز شروع کریں گے۔ سوال کیا، یوٹیوب پر؟ تو ہاں میں سر ہلا دیا۔ ہم دونوں کے پاس تاریخ کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالنے کے لیے اپنی اپنی دیا سلائی موجود تھی۔ گزشتہ پانچ عشروں میں ان کے ساتھ تعلقات نے کئی کروٹیں لیں۔ وہ لاہور میں تھے تو مسلسل ملاقات رہتی، لیکن جب کراچی اور اسلام آباد چلے گئے تو وقفہ بڑھتا گیا۔ وہ اپنی دھن میں مگن تھے، میں اپنے کاموں میں الجھا ہوا تھا۔ میں نے تو کوچۂ صحافت میں قدم رکھا تو بس اُسی کا ہو رہا۔ صحافت ہی میری پہلی اور آخری محبت تھی۔ غلام اکبر کا معاملہ کچھ مختلف ہو گیا۔ بائیس برس کے تھے کہ روزنامہ ”کوہستان‘‘ کے میگزین ایڈیٹر ہو گئے۔ نسیم حجازی ان کے ماموں تھے۔ ان کے سایے میں چوکڑیاں بھرنے لگے۔ اُردو اور انگریزی‘ دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے تھے۔ کئی اخبارات کی ادارت سنبھالی، ہفت روزوں کا اجرا کیا، ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی محبت میں مبتلا ہوئے، لیکن ان کی حکومت کے مقابل تن کر کھڑے ہو گئے۔ نتیجتاً صحافت کو خیرباد کہنا پڑا۔ ایڈورٹائزنگ کی چکا چوند میں جا پہنچے۔ اورینٹ کے وسیع الظرف بانی ایس ایچ ہاشمی نے اپنے تاج میں اِس نگینے کو سجا لیا۔ ان کے لاہور آفس کے انچارج بن گئے۔ چند ہی برس بعد اپنی ایڈورٹائزنگ ایجنسی ”میڈاس‘‘ کی بنیاد رکھی۔ منو بھائی کو اس کا چیئرمین بنایا، اور بڑے بڑے ٹی وی سٹار اپنے کارواں میں شامل کر لیے۔ دور و نزدیک دھوم مچ گئی۔ ”میڈاس‘‘ کی افتتاحی تقریب میں اُس وقت کے وزیر اطلاعات راجہ ظفر الحق مہمان خصوصی تھے۔ صوبائی وزیر خزانہ نواز شریف کو انہوں نے صدارت سونپ دی۔ انتظام و انصرام میں میرا بھرپور تعاون انہیں حاصل تھا۔ نواز شریف کرسیٔ صدارت پر براجمان ہوئے تو مرکزی وزیر اطلاعات پر پروٹوکول کی یہ بے احتیاطی گراں گزری، لیکن نواز شریف غلام اکبر کو بھا گئے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو ان کے دِل سے اترے، ”تو جھوٹ کا پیغمبر‘‘ لکھ کر داد پائی تھی۔ اس کا دیباچہ مجھ سے لکھوایا کہ بھٹو دور کے کشتگانِ ستم میں میرا نام بھی شامل تھا۔ ایئر مارشل اصغر خان ایک عرصہ تک ان کے دِل میں براجمان رہے، نواز شریف سے بھی دِل لگا رہا، محترمہ بے نظیر بھٹو کے سحر میں برسوں مبتلا رہے، اور اس کے بعد عمران خان کو دِل دے بیٹھے۔ وہ ایک ماہیٔ بے آب تھے۔ پاکستان کو مثالی ریاست بنانے کا جذبہ انہیں چین نہیں لینے دیتا تھا۔ انہوں نے راستے بدلے، سواریاں بدلیں، رفیقانِ سفر بدلے، ڈرائیور تبدیل کیے لیکن دِل بدلا نہ دِل کی آرزو بدلی۔
اس رومانی سفر کی دلچسپ روداد ان ہی کی زبانی سنیے: ”ساکھ کا احساس مجھے بھی بہت رہا ہے مگر میں نے اپنے آپ کو کبھی غیر جانبداری کے لباس میں نہیں چھپایا۔ میں بھٹو کا مداح اور مدح سرا تھا تو تھا، تصویر کا دوسرا رخ سامنے آیا تو میرا بھٹو ”سچا‘‘ کے بجائے ”جھوٹ کا پیغمبر‘‘ بن گیا۔ بھٹو کے خلاف میرے قلم کی جنگ ان کے پورے دورِ اقتدار میں جاری رہی۔ پھر جب میری سوچ میں اعتدال آیا تو مجھے دُکھ ہوا کہ ایک ایسے شخص کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا، جس نے مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے لیے پہلا بڑا قدم اٹھایا تھا اور جس کی بصیرت میں یہ حقیقت ابھری تھی کہ اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ بنا تو اندرا گاندھی یا اس کا کوئی جانشین پھر فیروز شاہ کوٹلہ گرائونڈ میں بھارت واسیوں کو خوش خبری سنا سکتا ہے کہ بھارت ماتا کے ایک سپوت یا اس کی ایک ناری نے ہر اُس شکست و رسوائی کا بدلہ لے لیا ہے جو اسے غوری یا غزنوی یا کسی دوسرے مسلمان سالار کے ہاتھوں اٹھانا پڑی تھی۔ اسی سوچ کی اسیری نے مجھے محترمہ بے نظیر بھٹو کے کیمپ میں دھکیلا اور اگرچہ ”زرداری قوم‘‘ کو برداشت کرنا میرے بس سے باہر تھا اس کے باوجود میں پورے 16 برس تک محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ رہا۔ میں انہیں ہمیشہ ”نواز شاہی‘‘ کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھتا تھا۔ ان سے بے شمار کوتاہیاں ہوئیں۔ ان پر کرپشن کے بھی سنگین الزامات لگے، لیکن میرے شعور میں وہ ہمیشہ ایک سچی عورت، ایک محب وطن پاکستانی اور ایک پیکر استقامت رہیں، آج میں اُس شخص کی کامیابی کا متمنی ہوں جس کی طویل جدوجہد اور عزم راسخ کی بدولت ”نواز شاہی‘‘ کا دور اپنے انجام کو پہنچا۔ 22 اگست 1996ء کو مجھ سے اپنی پہلی ملاقات کے دوران محترمہ بے نظیر بھٹو نے باتوں ہی باتوں میں اچانک پوچھا: ”کیا آپ میرے لیے کام کریں گے؟‘‘ ”اگر اِس بات کے باوجود کہ میں ”جھوٹ کا پیغمبر‘‘ کا مصنف ہوں، آپ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ بنانا چاہتی ہیں، تو میں انکار نہیں کروں گا‘‘ یہ میرا جواب تھا۔ ”میں نے آپ کی کتاب کے کچھ حصوں کو پڑھا ہے۔ مجھے بہت دُکھ ہوا تھا مگر میں سوچے بغیر نہ رہ سکی کہ یہ کتاب ایک ایسے شخص کے قلم سے ہے جو میرے باپ سے بہت محبت کرتا تھا‘‘ ”آپ درست فرما رہی ہیں محترمہ، میری محبت ایک ایسے پرستار کی تھی، جس کی محبوبہ کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہو‘‘ ۔
اگر صحافت کے ہو کر رہ جاتے تو ایک بڑی ایمپائر کھڑی کر سکتے تھے۔ ان کے قلم میں بے پناہ طاقت تھی۔ دِلوں میں جگہ بنا گزرتا تھا۔ ایڈورٹائزنگ کی دنیا میں قدم رکھا، تو کمال کو چھو لیا۔ ”میڈاس‘‘ نے ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ سیاست کو اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا تڑکا لگانے لگے۔ سیاسی مہم جوئیوں میں دِل و جان سے شریک ہو گئے۔ بڑے بیٹے انعام اکبر نے زمانہ طالب علمی ہی میں ان کے ساتھ کام شروع کر دیا تھا۔ بالآخر تحت اسے سونپ دیا۔ آفتاب اکبر اور ندیم اکبر نے میڈاس ہی کے پرچم تلے اپنی الگ دنیائیں بسا لیں۔ غلام اکبر نے پھر کوچۂ صحافت میں پناہ لے لی۔ روزنامہ ”الاخبار‘‘ اور انگریزی ہفت روزے نیشنل ہیرلڈ ٹریبون کے ذریعے اپنا اور اپنے قارئین کا دِل بہلاتے رہے۔ سوشل میڈیا پر بھی جوہر دکھا رہے تھے۔ عمران خان ان کی آخری محبت تھے۔ ان کی ٹیم سلیکشن پر اعتراضات ہوتے تو تنک کر جواب دیتے، قائد اعظم نے بھی تو کھوٹے سکوں کے ساتھ پاکستان حاصل کر کے دکھایا تھا۔ ان کی صحت یابی کی دُعا دِل میں تھی کہ موبائل کی سکرین پر انعام اکبر کے الفاظ ابھرے۔ میرے سر سے سایہ اُٹھ گیا، میں تنہا رہ گیا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھایا، اور میں اپنا دِل پکڑ کر بیٹھ گیا، آخری ملاقات کے مناظر پانی بن کر آنکھوں میں تیرنے لگے؎
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی
گمان تک نہ ہوا، وہ بچھڑنے والا ہے