امن و امان اور سیاحت کے امکانات …(1)

سیاحت صرف اعلان کر دینے سے عام نہیں ہو جاتی‘ اس کیلئے پورا نظام وضع کرنا پڑتا ہے۔ سکیورٹی تو فی الحال صرف ہمارا مسئلہ ہے اس لیے اس پر بہت زور دیا جاتا ہے وگرنہ جہاں سکیورٹی کوئی مسئلہ نہیں وہاں ترجیحات مختلف سہی مگر ہیں ضرور۔ رہائشی سہولیات ان میں شاید سب سے اہم اور ضروری چیز ہیں۔ یہاں امریکہ میں آپ کے پاس سیر و سیاحت کے دوران رہائش کے دو بنیادی ذرائع ہیں: ایک ہوٹل یا موٹل اور دوسرا ایئر بی این بی۔ بی ان بی سے مراد ”بیڈ اینڈ بریک فاسٹ‘‘ ہے‘ یعنی آپ کو رہائش کے ساتھ صبح کے ناشتے کی سہولت بھی میسر ہوتی ہے۔ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں ہوٹل چاہے چھوٹا ہو یا بڑا‘ مہنگا ہو یا سستا اس میں آپ کو رہائش کی کم از کم بنیادی سہولتیں اور خاص طور پر صفائی کا معیار بہرحال بہت ہی اچھا ملے گا۔ ادھر ہمارے ہاں کیا ہے؟ صفائی شاید ہماری ترجیحات میں کہیں بھی نہیں ہے۔ سفر کے دوران اگر کہیں باتھ روم جانا پڑ جائے تو صرف دروازہ کھول کر جھانک کر واپس پلٹنا پڑتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صفائی ہمارے دین میں نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔
ابھی یہ سوال تو چھوڑیں کہ ہمارے ہاں غیر ملکی سیاح کیوں نہیں آتے۔ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ بیرونِ ملک رہائش پذیر بہت سے پاکستانی آخر اپنی چھٹیاں گزارنے پاکستان کیوں نہیں آتے؟ یہ کوئی معمولی سوال نہیں بلکہ ایک نہایت ہی اہم سوال ہے۔ خوشی یا غمی میں رشتے کی قربت یا تعلق کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان آنا یا والدین اور بہن بھائیوں سے ملاقات کی غرض سے سال دو سال بعد پاکستان کا پھیرا لگانا ایک علیحدہ بات ہے؛ تاہم صرف چھٹیاں گزارنے اور سیروتفریح کے لیے کتنے بیرونِ ملک مقیم پاکستانی خاندان پاکستان آتے ہیں؟ ایک دوست کے بقول: بہت سے لوگ اسی امن و امان کے خوف سے پاکستان آنے کے بجائے دبئی وغیرہ دے ہو کر امریکہ‘ کینیڈا یا یورپ واپس چلے جاتے ہیں۔ بھلا دبئی سے پاکستان کا فاصلہ ہی کتنا رہ جاتا ہے ؟ لیکن بندہ چھٹیاں گزارنے یا سیرو تفریح کی غرض سے آتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے کہ سفر اچھا گزرے‘ رہائش صاف ستھری اور آرام دہ ہو جن چیزوں کی غائبانہ بکنگ کروائی ہے وہ حقیقت میں بھی ویسی ہی ہوں۔
امریکی ہوٹل ہمارے فائیو سٹار ہوٹلوں کے برعکس مسافروں کو ہر چیز پر لوٹنے اور ان کی جیب کاٹنے کے بجائے اپنے رہائشیوں کو دو تین بنیادی چیزیں مفت فراہم کرتے ہیں۔ ہر کمرے میں ایک عدد استری اور استری سٹینڈ لازمی ہوگا‘ کافی اور چائے کی مشین مع کافی‘ چائے‘ دودھ‘ دو عدد کپ بمعہ چمچ اور چینی و کینڈرل وغیرہ ہر کمرے کا لازمی جزو ہیں۔ چائے یا کافی کا سامان کم پڑ جائے تو مزے سے نیچے کائونٹر سے جتنی چاہیں چائے‘ کافی‘ دودھ یا چینی لے آئیں نہ کوئی روک ٹوک ہے اور نہ کوئی پوچھ گچھ۔ ادھر ہمارے ہاں کافی یا چائے کا کپ منگوائیں تو ہوٹل اپنی حیثیت کے مطابق سو ڈیڑھ سو روپے سے پانچ سو روپے فی کپ آپ کے بل میں شامل کر دیتا ہے۔ بیشتر کمروں کے ایک کونے میں چھوٹا سا کچن نما حصہ بنا ہوتا ہے جس میں کپ‘ گلاس‘ پلیٹیں‘ چمچے‘ ٹوسٹر‘ بلینڈر اور کوکنگ کے ضروری برتن اور ایک عدد چولہا بھی ہوتا ہے تاکہ آپ اپنے کمرے میں چھوٹی موٹی کوکنگ کر سکیں۔ ادھر یہ عالم ہے کہ ہمارے ہوٹلوں میں نوٹس لگا ہوتا ہے کہ باہر سے کسی کھانے والی چیز کے کمرے میں لانے اور کھانے کی اجازت نہیں ہے۔
آپ جونہی شمالی علاقہ جات‘ سوات یا کشمیر جانے کیلئے سفر پر روانہ ہوں راستے میں صاف باتھ روم ملنا محال ہے۔ راستے میں سڑک وغیرہ کی تو خیر ہے کہ بندہ ذہنی طور پر تیار ہوتا ہے کہ سڑک خراب ہے اور راستہ خطرناک ہے۔ اور اسے ایڈوینچر کا ہی حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ضروری حوائج کا کیا کیا جائے؟ اوپر سے ہوٹل ایسی لوٹ مار کرتے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔ اکتوبر میں جائیں تو وہی ہوٹل جس کمرے کے تین ہزار روپے لیتا ہے جون جولائی میں وہی کمرہ آٹھ ہزار روپے میں بھی مشکل سے ملتا ہے۔ کوئی طے شدہ ریٹ نہیں‘ محاورے کے مطابق ”لگتی کا دائو‘‘ ہے۔ آن لائن کمرہ بک کروائیں تو معاملہ ہاتھی کے دانتوں والا ہے کہ کھانے کے اور ہیں جبکہ دکھانے کیلئے اور ہیں۔ میں‘ شوکت گجر اور شوکت اسلام چند ماہ پہلے سوات گئے۔ ہم نے آن لائن ایک پرائیویٹ پراپرٹی میں دو کمرے بک کروائے۔ بکنگ سے پہلے اس جگہ کی تفصیل پڑھی تو لطف آ گیا۔ لکھا تھا: کالام کے شور شرابے سے محض آدھ کلو میٹر دور‘ درختوں اور پہاڑوں کے بیچ میں‘ قدرتی ماحول کی خوبصورتی سے مالا مال منظر نامے کے عین بیچ میں‘ شفاف پانی والی پہاڑی ندی کے کنارے صاف ستھری رہائش۔ کالام پہنچ کر ہم نے اس جگہ جانے کیلئے راستہ تو کسی طرح تلاش کر لیا مگر یہ وہی مصطفی زیدی والا راستہ تھا۔
انہی پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آئو
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
راستہ ایسا کہ اسے راستہ کہنا زیادتی تھی۔ خیر ہم فور ویل گاڑی پر تھے اور اس خرابے کو کسی نہ کسی طے کرنے کی پوزیشن میں تھے مگر راستہ تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ جب ہم بمشکل وہاں پہنچے تو یہ سفر ایک کلو میٹر سے زائد ہو چکا تھا جو کہ ویب سائٹ پر آدھا کلو میٹر بتایا گیا تھا۔ اس ڈیڑھ کلو میٹر کو طے کرنے میں بلا مبالغہ بیس منٹ لگے؛ تاہم اصل مایوسی وہاں پہنچ کر ہوئی۔ دور دور تک کوئی قدرتی منظر نامہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ ارد گرد کثرت سے بے ڈھنگی تعمیرات ہو رہی تھیں۔ دور تین چار درخت تھے اور ندی کے نام پر سیمنٹ سے بنائی ہوئی ایک چھوٹی سے پختہ نالی جس میں گدلا پانی بہہ رہا تھا‘ برآمدے کے سامنے سے گزاری گئی تھی‘ کمروں کی حالت ناگفتہ بہ تھی‘ بستروں کی چادریں خستہ حال اور تکیے اپنی عمر طبعی گزار چکے تھے۔ کمروں کا کرایہ اتنا تھا جتنا کہ ہم مالم جبہ میں فائیو سٹار ہوٹل میں ادا کر چکے تھے۔ شکر ہے ابھی ادائیگی نہیں کی تھی وگرنہ کسی مائی کے لعل نے پیسے واپس نہیں کرنے تھے۔
میرا ایئر بی این بی میں ٹھہرنے کا پہلا اتفاق سڈنی آسٹریلیا میں ہوا۔ انور مسعود صاحب میرے ہمراہ تھے۔ دو کمرے‘ ایک لائونج‘ چھوٹا سا ڈائننگ روم‘ برآمدہ‘ ایک چھوٹا سا اِن ڈور سوئمنگ پُول اور مختصر سا پھولوں بھرا صحن‘ گھر کے باہر نمبروں والا تالا تھا جس کا کمبی نیشن ہمیں بکنگ کنفرم کرنے کے ساتھ ہی بتا دیا گیا تھا۔ ہم گئے‘ نمبر دبائے اور گھر کھول لیا۔ صاف ستھرہ گھر تھا‘ سات آٹھ دھلے ہوئے تولیے۔ بستروں کی اضافی چادریں‘ الماریوں میں اضافی کمبل‘ باتھ روم میں نہانے کے سارے لوازمات‘ باورچی خانے میں ہر قسم کا سامان‘ فریج میں دودھ‘ ڈبل روٹی‘ مکھن‘ جیم‘ پانی‘ شیلف پر کافی مشین‘ کافی کے ساشے‘ کریم‘ چینی‘ کینڈرل اور چاکلیٹ پائوڈر‘ لانڈری میں کپڑے دھونے کی مشین کے ساتھ ڈیٹرجنٹ کا پیکٹ اور کچن میں سنک کے ساتھ برتن دھونے کا محلول اور سفنج‘ غرض ایسا انتظام تھا کہ کسی چیز کی کمی محسوس ہی نہیں ہو رہی تھی۔ بس اپنا سفری بیگ لے کر آئیں اور رات سونے کے ساتھ ساتھ ناشتے اور چائے کافی سے لطف لیں۔ جیسا ویب سائٹ پر لکھا ہوا تھا گھر اس سے بڑھ کر تھا اور سہولیات اس سے سوا تھیں۔ (جاری)