زندہ چیف جسٹس… اے آر کارنیلئس

صدرِ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی نے جسٹس عمر عطا بندیال کو پاکستان کا آئندہ چیف جسٹس مقرر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ وہ فروری کی دو تاریخ کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، اور 16ستمبر 2023ء کو ریٹائر ہو جائیں گے گویا ایک سال چھ ماہ اور پچیس دن تک یہ منصبِ جلیلہ ان کی تحویل میں رہے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان کے جانشین ہوں گے؎
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے
جسٹس عمر عطا بندیال اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی، اور یونیورسٹی آف کیمرج سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ پاکستان آکر وکالت کا آغاز کیا۔ اٹھارہ برس پہلے لاہور ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ وہ اپنے تحمل اور تدبر کیلئے مشہور ہیں۔ سوچ کر زبان کھولتے اور دیکھ بھال کر قدم اٹھاتے ہیں۔ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس گلزار احمد کراچی میں پیدا ہوئے، یہیں تعلیم حاصل کی، اسی شہر سے پریکٹس کا آغاز کیا، اور بیس سال پہلے، 2002ء میں سندھ ہائیکورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ کراچی شہر سے ان کی محبت نمایاں رہی۔ اسے اُس کی برسوں پرانی شکل میں بحال کرنے کی خواہش ان کے کئی فیصلوں اور اقدامات میں شدت سے موجود نظر آئی۔ اس کے اثرات اور مضمرات پر بحث جاری رہے گی، اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد زیادہ کھل کر ہو سکے گی۔ جسٹس عمر عطا بندیال پاکستان کے29ویں چیف جسٹس ہوں گے۔ ان سے پہلے اٹھائیس افراد یہ بوجھ اٹھا چکے، اور تاریخ میں اپنا نام محفوظ کرا چکے ہیں۔ جسٹس اے آر کارنیلئس اور جسٹس محمد حلیم دونوں کو آٹھ سال تک چیف جسٹس رہنے کا موقع ملا، جبکہ جسٹس شہاب الدین صرف 9دن اس منصب پر فائز رہے۔ 3مئی 1960ء کو حلف اٹھایا اور اسی سال 12مئی کو ریٹائر ہوگئے۔ بندیال صاحب کی تقرری کی منظوری‘ جو جناب صدر نے دی ہے، سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس میں ان کی صوابدید کا کچھ بھی دخل ہے یا وزیراعظم کی ایڈوائس نے یہ کرشمہ دکھایا ہے۔ صدر ہوں یا وزیراعظم چیف جسٹس کے تقرر میں ان کا کردار اب محض ڈاکخانے کا سا ہے۔ دستور میں قائم مقام چیف جسٹس کیلئے تو سینئر ترین کی شرط عائد تھی، لیکن مستقل چیف جسٹس کے تقرر کو وزیراعظم نے اپنا صوابدیدی اختیار قرار دے ڈالا تھا، جس نام کی سمری وزیراعظم کی طرف سے صدر کو بھجوائی جاتی، نوٹیفکیشن جاری ہوجاتا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے جسٹس سعد سعود جان کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کردی، اور ان سے کہیں جونیئر جسٹس سجاد علی شاہ کو چیف جسٹس بنا ڈالا۔ بعدازاں اعلیٰ ترین عدالتوں میں ججوں کی من مانی تقرریوں کے خلاف سپریم کورٹ اس طرح برہم ہوئی کہ شاہ صاحب ہی کی قیادت میں سنیارٹی کو اصول بنا دیا۔ سجاد علی شاہ اپنے اسی فیصلے کی نذر ہوئے کہ ان کے مخالف ججوں نے یہ اصول ان پر لاگو کرتے ہوئے انہیں اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔
چیف جسٹس افتخار چودھری کو یہ شرف حاصل ہواکہ انہیں نکال باہر کرنے کی کوشش جنرل پرویز مشرف کو الٹی پڑگئی، معاملات ایسے بے قابو ہوئے کہ انہیں ایوانِ صدر خالی کرنا پڑا۔ افتخار چودھری معزولی کے بعد عدالتی تحریک کے نتیجے میں بحال ہوکر نئی تاریخ رقم کر گزرے، ان کا ساتھ دینے والے ججوں کو بھی ایوانِ عدالت سے باہر نکالنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف کا پی سی او اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ افتخار چودھری بحالی کے بعد توقعات پر پورا نہ اتر سکے، اور اب گوشۂ گمنامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا عروج بھی اپنی مثال آپ تھا، اور اب تنہائی بھی اپنی نظیر آپ ہے۔ ان کے استقبال کیلئے گھنٹوں کھڑے رہنے والے عوام اور قانون دان‘ دونوں نگاہیں بدل چکے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور تاریخ پر پاکستانی عدالت نے جو اثرات مرتب کیے ہیں، وہ شاید ہی کسی دوسرے ملک کے حصے میں آئے ہوں۔ ایسے جج صاحبان بھی گزرے ہیں، جنہیں آج بھی پورے احترام سے یاد کیا جاتا ہے، اور ایسے بھی دیکھنے کو ملے ہیں جن کا نام تاریخ کے صفحات سے کھرچنے بلکہ نوچنے کو دِل چاہتا ہے۔ ایسے منصفوں میں پاکستان کے دوسرے چیف جسٹس محمد منیر کا نام سرفہرست ہے۔ وہ چھ سال تک اس منصب پر فائز رہے لیکن ان کے زیر قیادت سپریم کورٹ کے فیصلے پاکستانی ریاست کی بنیادوں کو ہلا گئے۔ ان کے ہمعصر جج، جسٹس کارنیلئس آج بھی ”مرجع خلائق‘‘ ہیں کہ ان کی اختلافی آواز حالات کا رخ تو نہیں موڑ سکی، لیکن اس کی گونج مسلسل سنائی دے رہی ہے۔
کارنیلئس کیتھولک مسیحی تھے، لیکن انسانی حقوق کے حوالے سے ان کے فیصلے، اور عدالتی نظرثانی کے حق پر ان کا اصرار عدالتی تاریخ کا قابلِ فخر حصہ بن چکا ہے۔ 1954ء میں جب گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی مجلس دستور ساز کو برطرف کیا، تو سپیکر مولوی تمیزالدین نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ گورنر جنرل ایسا اقدام کر گزرے تھے، جس کا انہیں اختیار ہی نہیں تھا۔ اُس وقت نافذ عبوری دستور کی کوئی شق انہیں یہ حق نہیں دیتی تھی۔ دستور ساز اسمبلی عوام کی منتخب کردہ تھی، جبکہ گورنر جنرل کابینہ کا نامزد کردہ، اورملکہ برطانیہ کا علامتی نمائندہ… سندھ ہائیکورٹ نے مولوی تمیزالدین کی استدعا منظور کرلی، لیکن وفاقی عدالت نے اسے کثرت رائے سے مسترد کردیا۔ گورنر جنرل کے دست باطل پرست پراس نے اپنا ہاتھ بھی رکھ دیا، اور یہ انوکھا فیصلہ صادر کیا کہ عدالت کورٹ جاری کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے۔ پاکستانی دستوریہ اسے یہ حق دے چکی تھی، لیکن چیف جسٹس اور ان کے ہم خیالوں نے اصرار کیا کہ اس بل پر گورنر جنرل کے توثیقی دستخط ہونا چاہئیں تھے۔ دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ دستور ساز اسمبلی ”ساورن‘‘ ہوتی ہے، اس لیے اسکے منظور کردہ کسی دستوری بل پر گورنر جنرل کے توثیقی دستخط حاصل نہیں کیے جاتے تھے۔ جسٹس منیر کورٹ نے انوکھی اختراع کرکے آزاد مملکت کو غلامی کی بیڑیاں پہنا دیں، فردِ واحد کے ہاتھ مضبوط کردیے، اور عوام کے وہ منتخب نمائندے، جنہیں بانیانِ پاکستان (فائونڈنگ فادرز) کہا اور سمجھا جاتا تھاکہ انہی کے ذریعے نئی آزاد مملکت کا ظہور ممکن ہوا تھا، گھر بھجوا دیئے گئے۔ اُس فیصلے سے جسٹس اے آر کارنیلئس نے اختلاف کیا، اور دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا حکم نامہ رد کردیا۔ اگر انکی بات مان لی جاتی تو آج پاکستان کی تاریخ مختلف ہوتی یہاں وہ کچھ نہ ہو پاتا، جو ہوتا چلا آیا ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی تقرری کے اعلان سے چند روز پہلے دو نوجوان قانون دانوں اسداللہ خان اور آمنہ عمر خان نے ”جسٹس اے آر کارنیلئس، ایک کانسٹیٹیوشنلسٹ (Constitutionalist) کے زیر عنوان ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل کتاب مرتب کرکے شائع کرائی ہے۔ اسے پاکستان کی انتہائی ممتاز لا فرم ”کارنیلئس، لین اینڈ مفتی‘‘ کے زیراہتمام ترتیب دیا گیا ہے۔ جسٹس کارنیلئس اس فرم سے وابستہ رہے، اور اب باوقار اور باکردار حامد خان اس کے روحِ رواں ہیں۔ جسٹس کارنیلئس کے افکار، فیصلوں اور شخصیت پر یہ ایک ایسا مجموعہ ہے جسے ہر جج، ہر وکیل، ہر اخبار نویس اور ہر سیاسی کارکن کو پڑھنا چاہیے۔ مر کر بھی زندہ رہنے والے کارنیلئس، ان شخصیات کے سامنے کس شان سے کھڑے ہیں جو دانا دنکا توجگ رہی ہیں، لیکن اِن چلتی پھرتی لاشوں سے بدبو کے وہ بھبکے اُٹھ رہے ہیں کہ قریب تو کیا دور کے لوگ بھی ناک پر رومال رکھنے کیلئے مجبور ہو جاتے ہیں۔