مخدوم بمقابلہ مخدوم

آٹھ قومی اور تین صوبائی نشستوں پر ضمنی انتخابات کا مرحلہ اور نتائج مکمل ہوئے۔ اندازے کے عین مطابق عمران خان نے میدان مار لیا۔ گو کہ بظاہر تحریک انصاف نے دو قومی اور ایک صوبائی اسمبلی کی نشست کھو دی لیکن میرے حساب سے گیارہ میں سے تین نشستیں کھو دینے کے باوجود تحریک انصاف نے‘ بلکہ زیادہ صاف الفاظ میں‘ عمران خان نے جو کامیابی حاصل کی ہے وہ فقید المثال ہے کہ ساری بڑی جماعتیں مع دو چار تانگہ پارٹیوں کے‘ عمران خان کے مقابلے میں کھڑے ہوئے امیدواروں کی پشت پر تھیں‘ کیا مردان والے مولانا قاسم اور کیا ایمل ولی خان‘ کیا غلام احمد بلور اور کیا عابد شیر علی‘ عمران خان نے سب کا دھڑن تختہ کرکے رکھ دیا۔ مرکزی حکومت خلاف‘ الیکشن کمیشن سے ٹکراؤ اور نیوٹرلز کے ساتھ کشیدگی کے باوجود یہ نتائج فیصلہ کن قوتوں کیلئے یقینا خوشگوار نہیں ہیں لیکن اب کیا کیا جائے کہ یہی حقیقت ہے اور بہت سوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔
اس ساری مارا ماری میں جب ہر طرف بلے کا ڈنکا بج رہا تھا‘ ملتان کے حلقہ این اے 157سے پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر تیر کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑنے والے علی موسیٰ گیلانی نے تحریک انصاف کی امیدوار مہر بانو قریشی کو خاصے بڑے مارجن سے شکست دے کر جہاں شاہ محمود قریشی کی لیڈری کے غبارے سے ہوا نکالی ہے‘ وہیں اس کی اس کامیابی نے سید یوسف رضا گیلانی کی سیاسی ساکھ کو ملتان کی سیاست میں اور پیپلز پارٹی میں اُن کے مرتبے کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ گو کہ اس نشست پر علی موسیٰ گیلانی کی کامیابی نے پیپلز پارٹی کے کھاتے میں ایک سیٹ کا اضافہ کر دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس طرح اس سیٹ پر مہر بانو قریشی کی ناکامی کو پاکستان تحریک انصاف کی ناکامی نہیں کہا جا سکتا‘ اسی طرح علی موسیٰ کی کامیابی کو پیپلز پارٹی کی کامیابی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ جب قومی اسمبلی میں نشستیں گنی جائیں گی تو یہ نشست پیپلز پارٹی کے کھاتے میں جائے گی۔
میں نے اپنے مورخہ گیارہ ستمبر کے کالم ”این اے 157اور الیکشن کا التوا‘‘ میں جو کچھ لکھا تھا اگر اس میں سے چند سطریں دوبارہ تحریر کر دوں تو ریکارڈ درست ہو جائے گا حالانکہ اس کالم پر کئی قارئین نے مجھے طعنہ دیا تھا کہ میں علی موسیٰ گیلانی کی حلقے میں پوزیشن کو بڑھا چڑھا کر بیان کر رہا ہوں اور عمران خان کے بیانیے کے سامنے علی موسیٰ گیلانی کا میل ملاپ‘ حلقے کے لوگوں سے تعلق اور گزشتہ آٹھ سال سے اس حلقے میں مسلسل موجودگی کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے اور عوام اب اس قسم کی باتوں پر رتی بھر توجہ نہیں دیتے اور میرے کالم میں یہ لکھنے پر کہ ”فی الوقت صورتحال انیس بیس‘‘ ہے‘ تحریک انصاف سے ہمدردی رکھنے والوں نے میرے بڑے لتّے لیے۔ میں نے لکھا کہ ”علی موسیٰ کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ گزشتہ کئی سال سے حلقے کے عوام میں ذاتی طور پر موجود ہے‘ اپنے عوامی طرزِ عمل کے باعث حلقے کی عوام میں خاصا مقبول بھی ہے اور ہمہ وقت ان کی خوشی غمی میں شریک بھی رہا ہے۔ عام آدمی سے گلے ملنا‘ اس کے ساتھ بان کی چارپائی پر بیٹھ کر سرائیکی میں ”حال ونڈانا‘‘ اور ان سے گھل مل جانا ایسی خصوصیات ہیں جو شاہ محمود قریشی کو چھو کر بھی نہیں گزریں‘‘۔ اس کے علاوہ بھی کافی باتیں تھیں جو بہرحال ریکارڈ پر ہیں۔ مجھے یقین بھی تھا اور میں نے اپنے اسی کالم میں لکھ بھی دیا تھا کہ یہ مقابلہ بہرحال بڑا کانٹے دار ہوگا۔ تب کسی کو شاید میری بات پر یقین نہیں آ رہا تھا۔
گو کہ میں نے گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ مہر بانو کی پوزیشن نسبتاً بہتر ہے اور اسے اس حلقے کی شہری یونین کونسلز میں برتری حاصل ہے جبکہ علی موسیٰ کو حلقے کی دیہی یونین کونسلز کے زور پر اس برتری کو ختم کرنا ہے اور وہ اسے کس حد تک کر پائے گا اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا؛ تاہم میں نے مخبرِ اعظم قبلہ ”شاہ جی‘‘ کا فرمان بھی لکھ دیا تھا کہ ”اگر علی موسیٰ گیلانی الیکشن والے دن اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشنز تک لانے میں کامیاب ہو گیا تو وہ بازی پلٹ بھی سکتا ہے‘‘۔ علی موسیٰ گیلانی الیکشن کے دن اپنے ووٹروں کوگھروں سے پولنگ سٹیشنز تک لانے میں کامیاب ہو گیا اور اس نے میدان مار بھی لیا۔
علی موسیٰ گیلانی نے قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں پر ہونے والے ان ضمنی انتخابات میں سب سے زیادہ یعنی ایک لاکھ سات ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیابی سمیٹی ہے۔ اتنے زیادہ ووٹوں کا حصول یہ بات ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ علی موسیٰ گیلانی اپنے ووٹروں کو گھروں سے نکال کر پولنگ سٹیشنز پر لے آیا تھا۔ 2018ء کے الیکشن میں اس نشست پر جیتنے والے امیدوار زین قریشی نے ستر ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ اب مہر بانو قریشی نے بیاسی ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں۔ یعنی عمران خان کے بیانیے کی غیر معمولی پذیرائی اور مقبولیت کا اس حلقے پر بہت زیادہ اثر نہیں ہوا جبکہ صوبائی حلقہ پی پی 217میں جہاں سے 2018ء کے الیکشن میں شاہ محمود قریشی نے خود اکتیس ہزارووٹ لیے اور ناکام ہوئے تھے جبکہ بعد میں اسی سیٹ پر ان کے فرزند زین قریشی نے عمران خان کے بیانیے کی مقبولیت کے زور پر سینتالیس ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے۔ 2018ء میں اسی حلقے سے سلیمان نعیم چونتیس ہزار سے زائد ووٹ لے کرکامیاب ہوا تھا اور ضمنی الیکشن 2022ء میں ساری پارٹیوں کی حمایت کے باوجود چالیس ہزار ووٹ لے سکا تھا۔
پی ڈی ایم کی اتنی خراب صورتحال کے باوجود ضمنی انتخابات میں ایک لاکھ سات ہزار ووٹ لینا ایک انتہائی مشکل کام تھا جو علی موسیٰ گیلانی نے انجام دیا؛ تاہم میرے خیال میں یہ پی ٹی آئی بمقابلہ پیپلز پارٹی سے زیادہ شاہ محمود قریشی بمقابلہ سید یوسف رضا گیلانی الیکشن تھا اور اس الیکشن میں سید یوسف رضا گیلانی نے شاہ محمود قریشی کو اس برے طریقے سے پچھاڑا ہے کہ انہوں نے شاہ محمود قریشی کو ان کی کل سیاسی اوقات یاد کروا دی ہے۔ اس نتیجے پر ہمارا دوست ملک خالد بہت خوش ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس شکست سے اس کو کئی اقسام کی خوشیاں حاصل ہوئی ہے۔ پہلی یہ کہ شاہ محمود قریشی کو اپنے تکبر اور اکڑ کا جواب مل گیا ہے۔ دوسری یہ کہ عمران خان پر شاہ محمود قریشی کی مقبولیت کا بھرم بھی کھل گیا ہے۔ تیسری یہ کہ شاہ محمود قریشی کی بزعم خود عمران خان کا متبادل ہونے والے غبارے سے ہوا بھی نکل گئی ہے اور چوتھی یہ کہ عمران خان کو موروثی سیاست کو پروموٹ کرنے کا نتیجہ مل گیا ہے اور اب شاید وہ ایک ہی خاندان کے سارے بندوں کو ٹکٹ دینے سے باز آ جائیں۔ پانچویں اور آخری خوشی یہ کہ شاہ محمود قریشی کے اپنے قریبی ساتھیوں نے ان کی مسلسل بے اعتنائی‘ بے فیض رویے اور طوطا چشمی کے جواب میں ان سے جو ہاتھ کیا ہے اور اس سے انہیں جو ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اس سے ”چَس‘‘ آ گئی ہے۔
ہمارے دوست جو خود بھی قریشی ہیں‘ شاہ محمود قریشی کی صاحبزادی کی پچیس ہزار ووٹوں سے شکست پر کہنے لگے کہ یہ مقابلہ دو مخدوموں کا مقابلہ تھا نہ کہ دو پارٹیوں کا۔ مجھے خوشی ہے کہ مخدوم آپس میں لڑ پڑے اور اس لڑائی میں خوش اخلاق مخدوم نے تکبر کے مارے ہوئے مخدوم کو شکست فاش دی۔ میں نے پوچھا کہ اُس کی اس بات کا کیا مطلب ہے تو وہ کہنے لگا: زیادہ بھولا بننے کی ضرورت نہیں۔ آپ اپنے پرانے کالم دوبارہ پڑھ لیں‘ آپ کو میری بات کی ساری سمجھ آ جائے گی۔