ماسٹر سٹروک یا حماقت

اگرچہ پہلے لوگ جب سنتے تھے کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے تو مذاق اڑاتے تھے کہ بھلا کب ایسا وقت تھا جب یہ ملک نازک دور سے نہیں گزرا۔ ہر دور ہی نازک رہا ہے۔ وقت کے ساتھ لوگ بھی ان نازک حالات کے عادی ہوتے چلے گئے اور ان پر کسی بات کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم۔ اس ملک میں ایسے ایسے واقعات بھی ہوئے کہ لگتا تھا آسمان گرنے والا ہے لیکن مجال ہے لوگوں پر کوئی اثر ہوا ہو۔ وہ اپنی زندگی کی پرانی ڈگر پر چلتے رہے کہ ہمارا اس ملک کے حالات سے کیا لینا دینا۔
میں نے صحافی ہونے کے ناتے بڑے نازک مراحل پر لوگوں کی اکثریت کو ملکی حالات سے لاتعلق پایا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ انہیں بڑے لوگوں کے مفادات‘ فائدہ یا نقصان سمجھ کر لوگ اصل ایشوز سے دور رہے۔ ان لوگوں کو پاکستان میں خاموش اکثریت کا نام دیا گیا جن کو جمہوریت اور جمہوری لوگوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی‘ جس کا فائدہ ہمیشہ آمرانہ حکومتوں یا ڈکٹیٹروں نے اٹھایا کیونکہ جب عوام کی اکثریت اپنے ملک کے حالات سے لاتعلق رہے گی کہ جمہوریت ہو یا آمریت‘ ان کی بلا سے۔ عام لوگ جمہوریت سے اس لیے بھی دور ہوئے کہ جمہوریت کے نام پر جو لوٹ مار کی گئی اس نے لوگوں کو بدظن کر دیا۔ سیاست اور جمہوریت لوگوں کے نزدیک راتوں رات امیر اور طاقتور بننے کا شارٹ کٹ بن گیا۔ بعد میں اگر جمہوری کرپشن کے نام پر فوجی حکومتیں آ بھی گئیں تو کچھ عرصے بعد وہی فوجی حکمران انہی کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ مل کر حکومت کررہے تھے‘ لہٰذا جو اس خاموش اکثریت کو تھوڑی بہت امید تھی بھی تو وہ بھی جلد ختم ہوگئی۔سیاسی اور فوجی حکومتیں‘ دونوں اپنا اعتماد کھو بیٹھیں۔
یوں جب عمران خان نے نیا نعرہ مارا تو وہ خاموش اکثریت اس سے مل گئی اور ایک پاپولر لیڈر نے جنم لیا۔ اسٹیبلشمنٹ بھی شاید چاہتی تھی کہ زرداری اور شریفوں سے ہٹ کر تیسرا آپشن بھی پیدا ہو اور اس کا فائدہ عمران خان کو ہوا۔عمران خان کو بھی کندھوں پر اقتدار میں لا کر بٹھا دیا گیا۔ اب عمران خان کے پاس دو تین آپشنز تھے کہ وہ اس ملک میں حکمرانی کی نئی مثالیں قائم کرتے یا پھر ایوب خان‘ بھٹو‘ ضیا‘ مشرف اور نواز شریف کی طرح وہ بھی اپنے دور کی اپوزیشن کے ساتھ سینگ پھنسا کر ان سب کو جیل میں ڈالتے۔
ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ مسئلہ رہا ہے کہ وہ ووٹ تو جمہوریت کے نام پر لیتے ہیں لیکن وزیراعظم بنتے ہی وہ جنرل ضیا اور مشرف بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفوں کو عدالتوں یا اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ ایسا نظام پسند نہیں کرتے جس میں ایف آئی اے یا ایف بی آر اگر ان کے سیاسی مخالفوں کو گرفتار کرے تو کوئی انگلی حکومتِ وقت پر نہ اٹھائے کہ یہ انتقامی کارروائی ہے بلکہ سب کہیں کہ یہ اس ادارے کا اپنا انفرادی عمل ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ادارہ حکومتی اثر و رسوخ سے بالاتر ہے۔میرے خیال میں یہ کام اگر کوئی کرسکتا تھا تو وہ عمران خان تھے جن کے اوپر نہ سکینڈلز تھے نہ ان کی اپنی فیکٹریاں تھیں نہ انہوں نے مال بنایا تھا۔ لہٰذا وہ وزیراعظم بن کر افورڈ کر سکتے تھے کہ وہ ایسا ڈی جی ایف آئی اے‘ چیئرمین ایف بی آر یا چیئرمین ایس ای سی پی لگائیں جن کے فیصلوں کو حکومت سے نہ جوڑا جائے۔لیکن کیا کریں عمران خان نے وہیں سے شروع کیا جہاں نواز شریف نے 1999ء میں چھوڑا تھا۔ جب ان کی حکومت نے جمائما خان پر نایاب ٹائلوں کی سمگلنگ کا الزام لگا کر مقدمہ درج کرالیا تھا اور یوں اپنے مخالفوں کو سرکاری مشینری کے ذریعے کچلنے کا عمل جاری رہا۔ پرویز مشرف کے مارشل لاء نے عمران خان کو ایک طرف ان مقدمات سے ریلیف دیا تو دوسری طرف خان کو امید بھی جگا دی کہ مشرف انہیں وزیراعظم بنا دے گا۔ اس کے بدلے عمران خان نے 2002 ء میںمشرف کے صدارتی ریفرنڈم کے لیے ووٹ مانگے‘لیکن جب مشرف نے عمران خان کو استعمال کر لیا تو انہیں دھوکے کا انکشاف ہوا تو وہ مشرف کے دشمن بن گئے اور لندن جا کر نواز شریف کو وطن لوٹ کر مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد پر راضی کرتے رہے جس کا میں عینی شاہد ہوں۔عمران خان کو ایک بڑا موقع ملا تھا کہ وہ وزیراعظم بن کر نئی شروعات کرتے۔ وہ زرداری کی طرح یاروں دوستوں کو پاور سے دور رکھتے اور شریفوں کی طرح اپنے خاندان کو بھی اندر نہ گھسنے دیتے‘ لیکن انہیں وزیراعظم بن کر احساس ہوا کہ دوستوں یاروں کو نوازے بغیر کام نہیں چلے گا اور پنجاب کا صوبہ نالائقوں کے حوالے کر دیا جنہوں نے نالائقی ایک طرف‘ کھل کر مال کمایا۔
خان صاحب کا سب سے بڑا بلنڈر قومی اسمبلی چھوڑ کر سڑکوں پر جانا تھا کہ وہ الیکشن کرا کے نومبر سے پہلے وزیراعظم بن کر نیا آرمی چیف لگائیں گے۔ پھر انہوں نے پنجاب حکومت بھی تڑوادی اور خیبرپختونخوا کی حکومت بھی۔ ان دونوں حکومتوں کو توڑنے کے بعد اب وہ اپنے ارکان کو واپس قومی اسمبلی لے جانے کے خواہشمند ہیں۔ مطلب جس اسمبلی سے استعفیٰ دے کر دس ماہ پہلے نکلے تھے اب وہاں واپس جانا چاہتے ہیں۔ جہاں حکومتیں تھیں وہ توڑ کر وہاں اپنے مخالفین بٹھا دیے اور خود اب دوبارہ سڑکوں پر جا پہنچے ہیں۔مان لیا کہ اس دوران ان کی پاپولیرٹی بہت بڑھ گئی اور وہ اس دوران 17 جولائی کو ضمنی الیکشن بھی پنجاب میں جیت چکے ہیں۔ میرے سمیت بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ پنجاب اسمبلی توڑناایک ماسٹرسٹروک تھا جس وجہ سے زرداری اور شریف پھنس کر رہ گئے۔ ان سب نے بڑی کوشش کی کہ پنجاب اسمبلی نہ ٹوٹے اور معاملہ اکتوبر تک لٹکتا رہے۔ پنجاب میں خرید وفروخت تک کی گئی اور حمزہ شہباز نے ہر کوشش کر کے دیکھ لی لیکن پھر بھی بات نہیں بنی۔
اگرچہ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان اب ایک جگہ رک جائیں اور اسمبلیاں توڑنے کی بجائے وہ اب پنجاب میں اپنی حکومت کو پکا کریں لیکن خان کے ذہن میں وہی پلاننگ تھی کہ اگر وہ ابھی پنجاب کا الیکشن کرا کے وہاں پی ٹی آئی کی حکومت بنالیں تو نہ صرف اگلے پانچ سال سب سے بڑے صوبے میں حکومت کریں گے بلکہ اگلے قومی اسمبلی الیکشن جیت کر وزیراعظم بھی بن جائیں گے۔ خان اس کے علاوہ کچھ اور سوچنے کو تیار نہیں تھے۔ انہیں لگتا تھا کہ ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب کل تک جہاں پی ٹی آئی سب سے بڑے صوبے کی حکمران تھی وہاں اب ایسا وزیراعلیٰ لگا دیا گیا ہے جس کے انتخاب نے خان اور ان کی پارٹی کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ پولیس اور بیوروکریسی کی وہ پوری ٹیم واپس آرہی ہے جو چوبیس‘ پچیس مئی کو پنجاب میں موجود تھی اور جس نے پی ٹی آئی ورکرز پر تشدد کیا تھا۔اب ساتھ ہی عمران خان نے نئے وزیراعلیٰ کے خلاف احتجاجی جلسوں کا اعلان کر دیا ہے۔ یوں الیکشن سے پہلے ماردھاڑ کے خطرات ہیں۔ لگتا ہے شریف اور زرداری نے بھی جان بوجھ کر محسن نقوی کو وزیراعلیٰ لگایا ہے تاکہ عمران خان کو میسج دیا جائے کہ اب ان کو کوئی رعایت نہیں ملے گی‘ ورنہ ان کے پاس نگران وزیراعلیٰ کے لیے احمد نواز سکھیرا کی سہولت موجود تھی جن کے نام پر کہیں سے کوئی اعتراض نہیں ہونا تھا‘ لیکن وہی بات کہ عمران خان کو میسج دینا تھا کہ ہم اب جو چاہیں گے وہی کریں گے۔پہلے پنجان اسمبلی توڑ کر ماسٹر سٹروک خان نے کھیلا تو اب محسن نقوی کو وزیراعلیٰ لگا کر جوابی سٹروک زرداری اور نواز شریف نے کھیل دیا ہے۔یہ قوم اب ان کے سٹروکس کے درمیان فٹ بال بنی رہے گی اور اپنی اپنی مرضی کے لٹیر ے کے نعرے مار کر خوش رہے گی۔