My way or highway

کبھی کبھار لگتا ہے انگریزوں نے ہندوستان میں جمہوریت متعارف کرا کے غلط کیا۔ انگریزوں نے جن علاقوں یا قوموں پر حکومت کی‘ لمبی پلاننگ ذہن میں رکھ کر کی۔ بہت سے لوگ کہیں گے کہ انہوں نے جو سڑکیں‘ ریلوے لائن‘ جہاز‘ نہریں‘ پل‘ وغیرہ بنائے ان سب میں ان کا اپنا مفاد تھا۔ وہ ہندوستان سے سب کچھ لوٹ کر انگلستان لے جانا چاہتے تھے لہٰذاانفراسٹرکچر کی ضرورت تھی۔ اگر یہ بات ہے تو پھر افغانستان اور سینٹرل ایشیا سے ہندوستان پر حملہ آور ہو کر لوٹ مار کر کے ہاتھیوں پر لاد کر لے جانے والوں کے بارے کیا کہیں گے؟ اُس وقت تو ریل گاڑی‘ بحری جہاز یا سڑکیں نہیں تھیں۔ لوٹ مار تو اس وقت بھی جاری تھی۔ نادر شاہ نے تو دہلی میں جو معصوم لوگوں کا لہو بہایا اس سے آج بھی تاریخ کے صفحا ت رنگین ہیں۔ وہی نادر شاہ کوہ نور ہیرا لے گیا تھا۔حملہ آور کوئی بھی ہو وہ تو لوٹنے ہی آتا ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ اس نے مقامی لوگوں کو ترقی دینے کی کوشش کی یا صرف لوٹ مار ہی اُس کا مقصد تھا۔
خیر‘ اس بحث میں پڑے بغیر جو بات میں کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں صدیوں سے اقتدار کے لیے جاری قتل و غارت کو بند کرایا۔ ہندو عورتوں کو خاوند کی موت کے بعد زندہ جلانے (ستی) کا رواج تھا‘ اسے ختم کرایا۔پہلے ہندوستان میں باپ کے مرنے کا انتظار کیے بغیر بیٹے اپنی فوج تیار کر کے باپ سے جنگ لڑتے تھے۔ تخت کی لڑائی میں صرف شہزادہ یا بادشاہ قتل نہیں ہوتا تھا بلکہ پورا شاہی خاندان ختم ہو جاتا اور پھر اس بادشاہ یا شہزادے کے درباریوں کی باری آتی تھی۔ سلطنتِ دلی کے بعض حکمران تو اتنے ظالم تھے کہ قتل ہونے والے بادشاہ کے چھوٹے بچوں تک کو قتل کرا دیتے تاکہ وہ بڑے ہو کر تخت کا دعویٰ نہ ٹھوک دیں۔انگریزوں کے اپنے ہاں بھی یہی کچھ ہوتا تھا۔ جو بادشاہ بنتا وہ سب سے پہلے اپنے رشتہ داروں کا صفایا کرتا تھا۔ بڑے عرصے تک ترک بھی یہی کرتے تھے کہ جب بادشاہ مرتا تو اس کی جگہ جو بیٹا بادشاہ بنتا وہ سب سے پہلے اپنے سگے بھائیوں کے سر قلم کراتا تھا۔ وجہ یہ بتائی جاتی کہ اگر بادشاہ نے اپنے بھائی زندہ چھوڑ دیے تو سلطنت کو خطرات لاحق رہیں گے۔ ہندوستان میں مغل بھی یہی کرتے تھے۔ اکبر بادشاہ کی جہانگیر سے جنگ ہوئی‘ جہانگیر کی اپنے بیٹے سے ہوئی۔ شاہ جہاں سوتیلے بھائی کو قتل کر کے بادشاہ بنا‘جبکہ شاہ جہاں کے بیٹے اورنگزیب نے بھی بھائیوں کا صفایا کیا۔ اور تو اور اپنے بھتیجوں کو بھی نہ چھوڑا۔

سلطنتِ دہلی کے حکمران اس کام میں مغلوں سے ایک قدم آگے تھے۔علائوالدین خلجی نے اپنے چچا جلال الدین کو قتل کیا جس نے اسے بیٹے کی طرح پالا پوسا اور اپنے جگر کا ٹکڑا قرار دیا تھا‘لیکن علائوالدین خلجی پر بادشاہ بننے کا بھوت سوار تھا تواس نے اسی باپ نما چچا کو قتل کر دیا‘یہ سب اس لیے تھا کہ اُس دور میں یہ تصور نہ تھا کہ قتل و غارت کے بغیر‘ ووٹ کے ذریعے بھی بادشاہ کو بدلا جاسکتا ہے۔لیکن انگریز بھول گئے کہ اس خطے میں ہزاروں سال سے غلامی کا ایسا گہرا تاثر ہے کہ یہاں عقل اور سمجھ نہیں شخصیت پرستی چلتی ہے۔ یہاں کی قوموں نے خود کو پانچ طبقات میں تقسیم کررکھا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ سب اس تقسیم پر خوش ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے خدا نے ان کی قسمت میں یہ لکھ دیا ہے۔ہر وہ بندہ جوہاتھی‘ گھوڑے یا رتھ پر سوار ہے اسے دیوتا اور مسیحا ماننا روٹین کی بات ہے۔ ان لوگوں میں کہاں اتنی جرأت تھی یہ ان کے سامنے کھڑے ہوسکتے۔ یہ سب تو دونوں ہاتھ باندھ کر فوراً لیٹ جاتے تھے۔لیکن انگریزوں نے اس نظام کو جاری رکھا اور کم از کم اس حد تک وہ کامیاب رہے کہ بادشاہ بدلنے کے لیے اب جنگوں اور قتل وغارت کی ضرورت نہ تھی۔

یقینا پرانے بادشاہوں کے نظام میں قتل و غارت تھی تو جمہوری نظام میں کرپشن‘ دھاندلی‘ زبردستی‘ بدمعاشی‘ تھانہ کچہر ی اور طاقتور لوگ پورے نظام کو ہائی جیک کر کے اپنی مرضی کے بادشاہ منتخب کراسکتے تھے۔انگریزوں نے جدید قوانین ہندوستان میں متعارف کرائے جو ان معاشروں کے لیے بنے تھے جہاں جھوٹ کو ایک بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا جبکہ ہندوستان میں جھوٹ بولنا یا جھوٹی گواہی دینا ایک فیشن ہے‘ عادت ہے۔ گورے افسر پینڈرل مون(Penderel Moon) کی کتاب میں ایک افسر نے یہ کہا ہم نے ہندوستانیوں پر ظلم کیا کہ انہیں وہ قوانین دیے جو سچے معاشروں کے لیے بنے تھے جھوٹے معاشرے کے لیے نہیں۔ قتل کی سزا کے لیے دو گواہوں کی گواہی ڈال دی۔ اب پولیس جھوٹے گواہ ڈھونڈ کر سزا دلواتی ہے۔ جج کو پتہ ہوتا ہے جھوٹی گواہی ہے لیکن کیا کرے قانون یہی کہتا ہے۔یہی شاید جمہوریت کے ساتھ ہوا کہ یہ پڑھے لکھے اور باشعور معاشروں کے لیے ایجاد کی گئی تھی۔ یہ جمہوریت کیسے ان علاقوں میں چل سکتی تھی جہاں ہزاروں برہمن ہر جگہ پائے جاتے ہوں اور لاکھوں دلت ان کی غلامی کرنے پر مجبور۔

اب پاکستان کی حالت دیکھیں تو آپ کو ترس آئے گا کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔ ہم پر اکسفورڈ سے لے کر ایم آئی ٹی‘ کیمبرج‘ ہاورڈ یونیورسٹی تک کے پڑھے لکھے حکمرانوں نے حکومت کی۔ وہ پڑھے لکھے بڑے ڈکٹیٹر نکلے۔ وہ جمہوریت کو مضبوط کرسکتے تھے لیکن ان کے اندر موجود جاگیردار اور ڈکٹیٹر نے انہیں جمہوریت پسند نہیں بننے دیا۔ ان کے لیے اپنے ذاتی مفادات اور ہر قیمت پر حکمرانی حاصل کرنا ایسا خواب تھا جس کے لیے وہ ڈاکٹر فاؤسٹس کی طرح اپنی روح کا سودا کرنے کو تیار تھے۔اس کا نتیجہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اب کوئی بھی اپنی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ سب نے اپنے اپنے فالورز اکٹھے کر لیے ہیں۔ اب جھتے بن گئے ہیں جو صرف اپنے پسندیدہ لٹیرے کو ہی اپنا لیڈر اور حکمران مانتے ہیں اور مخالف کا گلہ کاٹنے کو بے تاب ہیں۔وہی حال ہوچکا ہے جو انگریزوں کے آنے سے پہلے تھا جب بادشاہ قتل ہوتا تھا اور اس کی جگہ نیا بادشاہ لے لیتا تھا۔ کوئی بادشاہ کی طبعی موت کا انتظار نہ کرتا تھا۔اب پاکستان میں وہی کچھ ہورہا ہے۔ کوئی بھی پارٹی یا لیڈر پانچ سال انتظار کرنے کو تیار نہیں‘ سب سمجھتے ہیں کہ اگران کا پسندیدہ لیڈر اقتدار میں ہے تو ملک کی سمت ٹھیک ہے ورنہ ملک تباہ ہورہا ہے۔ جمہوریت میں اہم بات انتظار اور صبر ہے جو ہندوستان کے عوام اور حکمرانوں میں نہ تھا جس کی وجہ سے جنگیں ہوتی تھیں اور ہزاروں لوگ مارے جاتے تھے۔مگرجمہوریت میں تمام ترخرابیوں کے باوجود وہی کامیاب تھا جو انتظار کرسکتا تھا۔ نواز شریف نے جیلیں بھگتیں‘ جلاوطنی کاٹی اور اب بھی لندن میں مفرور کی زندگی گزار رہے ہیں‘ لیکن انتظار کیا۔ صبر کیا اور تین دفعہ وزیراعظم بن گئے۔ زرداری گیارہ برس سنگین مقدمات پر جیل میں رہے۔ ایک دن صدر بن گئے۔ یوسف رضا گیلانی کو مشرف نے سات برس قید کی سزا سنائی اور جیل میں ڈالا‘ ایک دن ان سے مشرف نے وزیراعظم کا حلف لیا۔کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ سیاست لمبی ریس کے گھوڑے کا کام ہے۔ یہ ون ڈے نہیں ٹیسٹ میچ ہے۔ اس میں مرو یا مارو نہیں چلتا۔ جو مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں وہ ہندوستان کے پرانے بادشاہوں یا شہزادوں کی طرح اقتدار کے اس خونی کھیل میں مارے جاتے ہیں۔

آپ جتنے بھی پاپولر ہوں‘ پھر بھی بھٹو کی طرح پھانسی لگ جاتے ہیں۔ سیاست میںMy way or highwayنہیں چلتا۔ اپنا اپنا جتھہ تیار کر کے جو زبردستی کے نتائج لینے کی کوشش کریں گے وہ ہندوستان کے بادشاہوں کی خونی تاریخ کو دہرائیں گے جب تلوار ہی دلی کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتی تھی اور آخر میں بادشاہ بننے کے شوقین اپنے شاہی خاندانوں سمیت مارے جاتے تھے۔