معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
بھول بھلیاں!
پاکستان کی تاریخ میں کئی نازک موڑ آئے ہیں ، ہمارا شاعر اور ادیب کبھی ایسے مواقع پر کھل کر اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے اور کبھی چپ کا روزہ رکھ لیتا ہے، یہ الگ بات ہے کہ جب مسلمانان ہند نے محسوس کیا کہ اکثریت نے ان کا جینا حرام کردیا ہے تو ان کی بہت بڑی تعداد تو قائداعظم کے پرچم تلے جمع ہوگئی مگر ہمارا شاعر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھا رہا، البتہ پنجابی کے شعراء نے اپنا حق ادا کردیا، اردو کے اکا دکا شاعر بھی اس حوالے سے سامنے آئے مگر ان میں کوئی بڑا نام نہیں تھا۔ تاہم پاکستان بننے کے بعد 1965ء کی جنگ کے دوران ہمارے شعرا نے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ ہمارے لیفٹ کے ممتاز دانشور صفدر میر تو کھلے ٹرک پر کھڑے ہو کر ’’چلو واہگے کی سرحد پر‘‘ کے نعرے لگاتے شہریوں کو دشمن کے سامنے سینہ سپر ہونے پر ابھارتے رہے۔ اسی طرح صدر سوئیکارنو نے جب ’’گنجنگ انڈیا‘‘ کا نعرہ لگایا یعنی ’’انڈیا کو تباہ کردو‘‘تو انجم رومانی نے اس ’’مصرعہ طرح‘‘ پر پُرجوش گیت لکھا۔ ان کے علاوہ کم و بیش تمام اہم شعراء نے نہایت خوبصورت اور ولولہ انگیز رجزیہ گیت تحریر کئے۔ 1971ءمیں جب سقوط ِمشرقی پاکستان کا دلخراش سانحہ پیش آیا تو اس حوالے سے ہمارے افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں نے بالواسطہ یا بلاواسطہ اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس کی جھلکیاں ہمیں انتظار حسین،طاہرہ اقبال، خالدہ حسین، رضیہ فصیح احمد، صدیق سالک اور مسعود مفتی کے افسانوں اور ناولوں میں نظر آتی ہیں۔ شعرا کی کوئی معرکۃ الآرا نظم میری نظروں سے نہیں گزری۔
اور آج ملک تاریخ کے جس بدترین بحران سے گزر رہا ہے ہمارا دشمن تو پاکستان کی بربادی کے لئے متحد ہے اور ایک بار پھر ہمارے مقدس پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہا ہے، اس نے تو ہماری اسٹیبلشمنٹ، بیورو کریسی اور عوا م کو بھی ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، مگر ہمارے شاعر نے الا ماشا اللّٰہ اپنی رائے محفوظ کر رکھی ہے۔ ایسا نہیں کہ اس کی کوئی رائے نہیں، وہ بھی اس حوالے سے مکمل طور پر تقسیم ہو چکا ہے، مگر عمومی طور پر اس کے اظہار سے صرف اس لئے کتراتا ہے کہ کہیں اس کی وجہ سے اس کی ’’ریٹنگ‘‘ پر اثر نہ پڑے۔ شاعر سے یہ توقع نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ ’’نعرہ تکبیر‘‘ لگا کر اس معرکے میں کود پڑے مگر جو معرکہ آرائیاں وہ اپنی شاعری کے حوالے سے فیس بک پر کرتا نظر آتا ہے اور اپنے ’’دشمنوں‘‘ کو تہہ تیغ کرتا چلا جاتا ہے وہ پاکستان کی موجودہ صورتِ احوال کے حوالے سے بھی اپنی تلوار نیام سے نکالے اور کشتوں کے پشتے لگا دے۔ مگر وہ کسی بھی پلیٹ فارم سے اپنی رائے کا اظہار تو کرے۔ آج کی صورتحال صرف سیاسی نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق پاکستان کو آگے لے جانے یا پیچھے دھکیل دینے سے وابستہ ہے۔ شاعر اور ادیب جب اس موضوع پر اظہار خیال کریں گے تو ادبی پیرائے میں کریں گے۔ اس میں دانش ہوگی، سختی نہیں، نرمی ہوگی، مخاطب کو زیر کرنے کے لئے نہیں، بات سمجھنے یا سمجھانے کے لئے ہوگی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ملک بھر میں آگ اور خون کا جو کھیل کھیلا جا رہا ہے اس سے پاکستان کے دیرینہ مسائل حل ہو جائیں گے تو وہ بھی اپنی رائے کا اظہار مدلل انداز میں کرے اور اگر کسی کے نزدیک موجودہ کھیل ملک سے کھیلا جا رہا ہے تو وہ بھی اپنی بات کا اظہار تمام سیاق و سباق کو سامنے رکھ کر کرے، اس وقت یہی پاکستان کی خدمت ہوگی۔
انسانی ذہن بھی عجیب چیز ہے۔ میں نے جب اس کالم کا آغازکیا تو میرا ارادہ صرف آج کی یا ماضی کی صورت حال پر فوکس کرنا نہیں تھا بلکہ میں تو یہ لکھنا چاہ رہا تھا کہ ادیب اور شاعر کو اپنے اردگرد کی صورتحال سے غافل نہیں رہنا چاہئے بلکہ لب و رخسار اور من و تُو کے تصور کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کو درپیش مسائل بھی ادب کے دائرے میں رہتے ہوئے موضوع قلم بنانے چاہئیں۔ ماضی میں ترقی پسند تحریک نے اس حوالے سے بہت کام کیا اور ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری کھیپ نے اپنے قلم کو انسانی المیے کے بیان کے لئے وقف کردیا۔ دوسری طرف اسلامی ادب کی تحریک بھی چلائی گئی مگر اس کی زیادہ پذیرائی نہ ہوئی۔ ان کے علاوہ ایک اور لہر ساتھ ساتھ چل رہی تھی جو ادب برائے ادب کے حامی تھے، چنانچہ حلقہ ارباب ذوق کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ ایک حلقہ ارباب ذوق سیاسی کہلایا اور دوسرا حلقہ ارباب ذوق ادبی۔ ادبی حلقے میں صف اول کے ادیب شامل تھے مگر مزے کی بات یہ ہے کہ ادب برائے ادب کے سب سے بڑے حامی اپنے انتظار حسین تھے جبکہ میرے نزدیک وہ بہت بڑے سیاسی افسانہ نگار تھے۔ یہ بحث بہت عرصے تک چلتی رہی۔ اب اگرچہ ترقی پسند تحریک کا فورم باقی نہیں مگر اس تحریک نے ذہنوں کو جلا بخشی اور اس کے گہرے اثرات آج بھی ہمارے ادب پر نظر آتےہیں، گویا کسی تنظیم کا وجود ختم بھی ہو جائے ، اگر اس کے نظریہ میں کوئی دم خم ہو تو اس کا اثر و نفوذ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
اس کالم کے دوران میری نظر حمید شاہد کی ایک بہت حساس تحریر پر پڑی، انہوں نے وہی کچھ کہا ہے جو میں اپنے کالم کے آغاز میں کہہ رہا تھا، آپ یہ تحریر بھی پڑھ لیں:’’ملکی سطح پر جس مکروہ کھیل کے ہم تماشائی ہونے پر مجبور ہیں وہ بدن میں اضمحلال بھر رہا ہے، نہیں جانتے کہ یہ تماشا کب ختم ہوگا۔ کئی طرح کے اندیشے ہیں جن میں الجھا رہتا ہوں، کیا ہم اس صورتحال سے بخیر و خوبی نکل پائیں گے؟ عجب طرح کی دلدل ہے جس میں ہم دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ لکھنے پڑھنے بیٹھتا ہوں تو اپنی سوچوں سے الجھ کر بیٹھے کا بیٹھا رہ جاتا ہوں‘‘۔ جس دکھ اور جس کرب کا اظہار ہمارے اس افسانہ نگار نےکیا ہے ہر حساس پاکستانی ان دنوں اسی صورتحال سے دو چار ہے، سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ ہم لوگ کدھر جا رہے ہیں، کون ہمیں لے جا رہا ہے، کبھی لگتا ہے وہ ہمارا دوست ہے اور کبھی وہ دشمن لگتا ہے۔ ہمیں اتنا کنفیوژ کردیاگیا ہے کہ ہم سب لکھنے والے افسانہ نگار حمید شاہد کی طرح الجھ کر رہ گئے ہیں، لکھنے بیٹھتے ہیں تو ذہن ادھر ادھر بھٹک جاتا ہے، کوئی خالص ادبی تحریک تو کجا سیدھا سا دہ کالم لکھنا بھی محال ہوگیا ہے، میں تجزیہ نگاروں کی بات نہیں کر رہا، تجزیہ نگاری اور چیز ہے، کالم نگاری اس سے بہت مختلف ہے، اللہ جانے ہم اس دلدل سے کب نکلیں گے، کب ہمارے لوگوں کے چہروںپر مسکراہٹ کی شفق پھوٹے گی، ہم تعمیر وطن میں کب حصہ لے سکیں گے، مہنگائی نے علیحدہ مت ماری ہوئی ہے، معیشت سنبھل نہیں رہی، موجودہ صورت حال کے تناظر میں اس کے سنبھلنے کے امکانات مزید دھندلا گئے ہیں۔ ہے کوئی ہمارے درمیان روشنی کی کرن دکھانے والا؟۔