ذکر پراگ شہر کا اور ایک بیان ِحلفی

نگری نگری‘ دیس دیس اور شہر شہر گھومنے والا یہ مسافر ایک شہر کو دوبارہ دیکھنے سے کہیں بہتر سمجھتا ہے کہ وہ کوئی نیا شہر دیکھ لے۔ نئے شہر دیکھنے کی لگن اور تمنا اس مسافر کو مسلسل لئے پھر رہی ہے۔ ان گنت شہر دیکھتے ہوئے بہت کم ہوا کہ کسی شہر کو دوبارہ‘ سہ بارہ دیکھنے کی تمنا دل میں پیدا ہوئی ہو۔ قرطبہ کے بعد پراگ ایسا شہر ہے جسے مسافر دوسری بار بھی دیکھنے کی خواہش دل میں رکھتا ہے۔ شہر خوبصورت ہے‘ سرکار اور عوام نے شہر کی خوبصورتی کو محفوظ رکھا ہے۔ سیاحوں کیلئے حالات ایسے خوشگوار کہ جیب میں پیسے ختم ہونے کا خدشہ نہ ہو تو بندہ جانے کا نام نہ لے۔ اور آسانی یہ کہ ہر طرح کے مسافر کیلئے دلداری کا سامان موجود ہے اب اس میں سے کیا چننا ہے؟ یہ مسافر پر منحصر ہے۔
ہوٹل‘ اپارٹمنٹ‘ ہاسٹل اور بی این بی رہائش گاہیں فراواں ہیں اور کم از کم معیار کا ایسا خیال رکھا گیا ہے کہ کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ تنگ گلیاں ٹریفک کی یکطرفہ روانی کے باعث کشادہ لگتی ہیں اور پرانے شہر کی قریب نوے فیصد سڑکیں چوکور یا مستطیل پتھر کی اینٹوں سے جبکہ تقریباً سارے فٹ پاتھ پتھر کے دو اڑھائی انچ کے چوکور ”گٹکوں‘‘ پر مشتمل ہیں۔ سفید‘ سیاہ اور سرمئی رنگ پر مشتمل ان پتھروں کے ساتھ ایسے ڈیزائن بنائے گئے ہیں کہ بندہ ان کو دیکھنے میں ایسا مگن ہوتا ہے کہ راہ چلتے لوگوں سے ٹکرا جائے۔ اکثر عمارتوں کے دروازوں کے دونوں طرف یا دروازے کے اوپر نہایت ہی متناسب الاعضا انسانی مجسمے اور دیوما لائی کرداروں کی شبیہیں ہیں۔ دکانیں ایسی سجی ہوئی کہ گویا نمائش گاہ کا حصہ ہوں، دکاندار ایسے خوش اخلاق اور سیاح دوست کہ اپنے دکانداروں کے رویے کا سوچ کر ملال ہوتا ہے۔ ہر چوتھی دکان پر چینی شکل کی لڑکی یا لڑکا دکاندار کے فرائض دے رہا ہوتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ویتنامی ہیں اور انگریزی سے تقریباً اتنے ہی نابلد ہیں جتنے کہ پراگ والے خود ہیں۔ چیک ریپبلک میں کل ایشیائی باشندوں کا ساٹھ فیصد صرف ویتنامی ہیں۔ جس دکان میں مرضی گھس جائیں۔ سجاوٹی اشیا یا دستکاریوں سے بھری پری دکانوں میں جا کر ان خوبصورت چیزوں کی تصویر کھینچنے کی اجازت مانگیں تو آرام سے مل جاتی ہے۔ کوئی دکاندار اپنی دکان کی اشیا کے راز افشا ہونے کے وہم میں مبتلا نہیں اور تقریباً ساٹھ ستر فیصد دکانداری کے فرائض خواتین سرانجام دے رہی ہیں۔ گاہکوں سے ایسی خوش اخلاقی سے بات کرتی ہیں کہ پہلی با ر اس تجربے سے آشنا ہونے والا تو غلط فہمی کا شکار ہی ہو جائے۔
سوائے پرانے قلعے کے‘ جو دراصل اب قلعہ کم اور محل زیادہ ہے، شہر سے تھوڑا ہٹ کر ہے۔ اس قلعے کے سا تھ ہی صدارتی محل ہے جس کے باہر نہ کوئی ریڈزون ہے اور نہ ہی پولیس یا قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے باوردی اہلکاروں کی موج ظفر موج۔ دروازے پر گنتی کے چار سپاہی کھڑے تھے اور ایسے بے حس حرکت کہ مجسموں کا گمان ہوتا تھا۔ قلعہ مرکزی شہر سے تھوڑے فاصلے پر ہے مگر ایسا نہیں کہ پیدل نہ جا سکیں‘ تاہم پہاڑی پر ہونے کی وجہ سے کم از کم گھٹنوں کے ہاتھوں یہ تنگ و پریشان مسافر اس پر چڑھنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔ پرانے شہر کا مرکز اولڈ ٹاؤن سکوائر ہے۔ درمیان میں ایک میدان ہے جس کے درمیان ایک بلند و بالا پتلا سا میرین کالم ہے۔ یہ ایک مذہبی یادگار ہے جو 1650ء میں تعمیر کی گئی تھی اس بلند ستون کے اوپر ”کنواری مریم‘‘ کا مجسمہ ہے۔ اس ستون کے سامنے ایک چبوترے پر مجسموں کا ایک مجموعہ ہے جس کے درمیان میں ایک طویل القامت شخص جبہ پہنے کھڑا ہے۔ یہ ایک مذہبی اور فلاسفر جان ہُس کا مجسمہ ہے۔ جان ہُس10- 1409ء کے درمیان چارلس یونیورسٹی پراگ میں ڈین اور ریکٹر کے فرائض سرانجام دیتا رہا۔ جان ہُس نے کیتھولک عیسائیت کے بہت سے رائج الوقت مذہبی اعتقادات پر اعتراض کرتے ہوئے ان میں بہتری اور تبدیلی لانے کیلئے آواز اٹھائی۔ اس کی تحریک کو ماننے والوں کو Hussites کہا جانے لگا۔ کیتھولک عیسائی پادریوں نے اس کے نظریات اور تعلیمات کو عیسائی مذہب کیلئے گمراہ کن قرار دیتے ہوئے اس پر کفر کا فتویٰ لگا کر 6جولائی 1415ء کو زندہ جلا دیا۔ اس کی سزا کو پوپ الیگزینڈر پنجم کی تائید حاصل تھی۔
2ستمبر 1415ء کو جان ہُس کو زندہ جلانے کے خلاف بوہمیا اور موراویہ کے سو سے زائد معززین نے ایک قرارداد پر دستخط کئے جس میں جان ہُس کو ایک اچھا عیسائی قرار دیتے ہوئے اس کے بہیمانہ قتل پر احتجاج کیا۔ یہ دستاویز ”بوہیمن پروٹسٹ‘‘ کہلاتی ہے۔ بوہمیا کے لوگوں نے جان ہُس کے قتل پر بڑی شدت سے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے پوپ کی تعلیمات اور ہدایات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا۔ دریں اثنا پوپ مارٹن پنجم نے جان ہُس کے ماننے والوں کا قتل جائز قرار دیتے ہوئے ان کی موت کا فرمان جاری کر دیا۔ اس حکم کے تحت جان ہُس کے پیروکاروں کے خلاف ”کروسیڈ‘‘ کا آغاز ہو گیا۔ اس جنگ میں بوہیما اور چیک کی بیشتر عوام جان ہُس کے پیروکاروں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو گئی۔ 1419ء سے 1434ء کے درمیان کیتھولک اور Hussitesکے مابین تین بڑی جنگیں ہوئیں۔ ان میں کیتھولک لشکروں کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ مجبوراً کیتھولک چرچ نے بوہمیا کے لوگوں کو ان کے اپنے عقیدے کے مطابق زندگی گزارنے کیلئے آزاد کر دیا۔ اس سا رے علاقے میں آج بھی جان ہُس کے نظریات پر مشتمل عیسائی عقیدہ رائج ہے۔ جان ہُس کے زندہ جلائے جانے کے تقریباً چھ سو سال بعد 1999ء میں پوپ جان پال دوم نے جان ہُس کی ظالمانہ موت پر رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تاسف کا اظہار کیا۔ 6جولائی 1915ء کو جان ہُس کی پانچ سو سالہ برسی کے موقع پر اس مجسمے کو نصب کیا گیا۔
اولڈ ٹاؤن سکوائر پر چودہویں صدی عیسوی کا ایک چرچ ہے۔ پرانا ٹاؤن ہال ہے جس پر 1410ء کا بنا ہوا عجوبہ کلاک ہے جو ہر گھنٹے بعد اپنے ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ دوپہر دو بجے جب میں نے اس کلاک کی گھنٹیاں سنیں تب کئی ہزار کا مجمع ان گھنٹیوں کو سننے کیلئے کھڑا تھا۔ سکوائر کی ایک طرف کنسکی پیلس ہے جس میں اب آرٹ میوزیم قائم ہے۔ اسی سکوائر میں نکولس چرچ ہے۔ سارا پرانا شہر اسی طرح محفوظ کیا گیا ہے جیسا تین صدی پہلے ہوتا ہوگا‘ لیکن زندگی کی ہر سہولت اور سیاحت کی ساری ضروریات پوری کی گئی ہیں۔ شہر کے درمیان سے گزرنے والے دریائے ولٹاوا (Vltava)پر محراب دار چارلس برج 1357ء میں شاہ چارلس چہارم نے تعمیر کروایا۔ ساڑہے چھ سو سال پرانے پل کی مضبوطی کو دیکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ اگر کوئی آفت نہ آئی تو یہ پل مزید کئی سو سال قائم رہے گا۔ حکومتِ پاکستان کو اپنے ٹھیکیداروں کو ادھر بھیجنا چاہیے تاکہ وہ مضبوط پل تعمیر کرنے کی تربیت حاصل کریں‘ تاہم نیت کی درستی تک کسی قسم کی بہتری کی کوئی امید نہیں۔
ملکِ عزیز میں فی الوقت بیاناتِ حلفی کا دور دورہ ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ کالم میں مجھ سے اردو کی ایک سنگین غلطی ہو گئی تھی اور میں نے جملے میں ”سب سے قدیم ترین‘‘ لکھ دیا تھا جس پر ایک قاری نے مجھے اس ایک غلطی پر پانچ بار ای میل کر کے میری طبیعت صاف کرنے کے ساتھ ساتھ میری ایک گزشتہ غلطی کی تصحیح فرمانے کا بھی بڑی شدومد سے تذکرہ کرتے ہوئے مجھے لتاڑا ہے۔ ادھر ملک عزیز میں ایک ہی جرم میں شیریں مزاری کو پانچ بار حوالۂ زنداں کیا گیا تو اِدھر مجھے ایک ہی جرم میں پانچ ای میل کے ذریعے ”کھڑکایا‘‘ گیا۔ میں بھی ایک عدد بیانِ حلفی کے ذریعے آئندہ محتاط اُردو لکھنے اور اچھے چال چلن کا مظاہرہ کرنے کا وعدہ کرتا ہوں۔