سرسوں کے کھیت اور زندگی کا سفر

موٹروے کی انتظامی خرابیاں اپنی جگہ لیکن دل خوش کرنے کے لئے قدرت نے بہرحال کچھ نہ کچھ انتظام ضرور کر رکھا ہے اور جنوری فروری میں تو سرسوں کے پیلے رنگ کی چھب ہی سفر میں بدانتظامی کی ساری کلفت دور کر دیتی ہے۔ جنوری کے مہینے میں یہ پیلا رنگ اپنے پورے جوبن پر ہوتا ہے؛ تاہم فروری میں پیلے پھول جیسے جیسے پک کر بیج بننے کی منزل کی طرف بڑھتے جاتے ہیں یہ پیلا رنگ ماند پڑتا جاتا ہے۔ جہاں یہ پیلا رنگ دل و نظر کو تراوت اور راحت بخشتا ہے وہیں یہ ملال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سرسوں پک رہی‘ اس کے سبز پات اب دمِِِ آخر پر ہیں اور سرسوں کا ساگ اب ہمیں اگلے سیزن تک داغ مفارقت دے کر رخصت ہو رہا ہے۔ سرسوں کا ساگ اچھا پکا ہوا ہو اور منہ کو لگا ہو تو پھر یہ عادت سے آگے نکل کر کمزوری بن جاتا ہے۔ اس فقیر کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔
میرے اپنے گھر کو تو چھوڑیں، تقریباً سارے خاندان میں کہیں اچھا ساگ نہیں بنتا تھا۔ میرے اپنے گھر کا یہ معاملہ تھا کہ ماں جی اللہ بخشے ایسے مزیدار اور لذیذ کھانے پکاتی تھیں کہ مثال دینا مشکل ہے۔ ویسے تو اپنی ماں کے ہاتھ کا کھانا سب کو ہی بہت لذیذ لگتا ہے مگر یہ امر واقع ہے کہ ماں جی کے کھانے کی لذت کی دھوم سارے خاندان اور ملنے جلنے والوں میں دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ چٹ پٹی بھنڈیاں، دم کئے ہوئے کدو، مسالہ بھرے ثابت ٹینڈے گوشت، مٹن پلائو، آلو گوشت، نرگسی کوفتے اور سب سے بڑھ کر آلو والے پراٹھے‘ لیکن ساگ والا معاملہ خاصا کمزور تھا۔ اس کی بنیادی وجہ محض یہ تھی کہ ابا جی مرحوم کو ساگ پسند نہ تھا اور جب گھر کے سربراہ کو ہی پسند نہ تھا تو بھلا اس کیلئے تردد کون کرتا؟ ایک تو ابا جی کو ساگ ویسے ہی پسند نہ تھا اوپر سے گھٹا ہوا ساگ تو باقاعدہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔ اگر کبھی سیزن میں ایک آدھ بار گھر میں ساگ بنتا بھی تو موٹا کٹا ہوا بنتا۔ اسے باریک کاٹنا، رات بھر ہلکی آنچ پر پکاتے ہوئے باتھو کی دو پوتھیاں ڈالنا، اس میں ڈھیر ساری سبز مرچیں ڈالنا اور اسے گھوٹتے ہوئے مکئی کا آٹا ڈالنے کا اہتمام نہ کیا جائے تو بھلا پھر ساگ میں وہ ذائقہ کہاں پیدا ہو سکتا ہے جو آپ کو اپنی لذت کا اسیر کر لے۔
گھر میں نہ ایسا ساگ کبھی بنا اور نہ ہی ماں جی ساگ پکانے میں وہ مقام و مرتبہ حاصل کر سکیں جو آپ کو ساگ کھانے کی علت میں مبتلا کر دے۔ میری اہلیہ نے ابھی اپنی تعلیم بمشکل مکمل کی ہی تھی کہ شادی ہوگئی۔ یوں سمجھیں کہ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے تقریباً سیدھی ہمارے گھر آگئی۔ ماں جی نے اپنا کھانا پکانے کا سارا ہنر اور ذائقہ اسے منتقل کردیا۔ مجھے سب سے زیادہ آسانی یہ ہوئی کہ ماں جی کی شاگردی کے طفیل میری اہلیہ کے ہاتھ کا ذائقہ بھی ویسا ہی تھا جس کا میں ساری عمر سے عادی تھا۔ عموماً ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد اپنی ماں کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کا لطف اور ذائقہ تادیر یاد رہتا ہے اور ماضی میں بھی لے جاتا ہے لیکن بیوی کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے کی زبانی کلامی تعریف گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کیلئے بہرحال ضروری ہے؛ تاہم میرے ساتھ ہرگز ایسا نہ ہوا۔ شادی کے بعد بھی کھانے کی لذت وہی رہی جس کا میں ہمیشہ سے عادی تھا‘ لیکن ماں جی کی شاگردی کے بہت سے فوائد کے ساتھ ساتھ ایک نقصان یہ ہوا کہ میری اہلیہ بھی ساگ بنانے میں وہ مہارت حاصل نہ کر سکی جس پیمانے کا ساگ کھانے کی ہمیں علت پڑ چکی تھی۔ اس خرابی کو ہوا دینے والے ہمارے دو چار دوست تھے جن کے گھر سے ہمیں ساگ کا چٹورا پن نصیب ہوا۔
میری اہلیہ نے اِدھر اُدھر سے پوچھ کر دو چار بار ساگ بنایا مگر ان کچے پکے تجربات پر میرا بدلحاظ قسم کا تبصرہ سن کر اس نے آئندہ ساگ پکانے سے توبہ کرلی؛ تاہم حسب سابق مجھے دو چار گھروں سے ساگ کی سپلائی آ جاتی تھی۔ پھر میری اہلیہ نے بھی اپنی ذاتی پبلک ریلیشننگ کے ذریعے سپلائی چین کو وسعت دے دی۔ عثمان آباد میں سامنے گھر والی خاتون نے تو مزے کروا دیئے۔ سیزن کے آخر میں ایک پوری بڑی روغنی ہنڈیا بھری ہوئی آ جاتی۔ اس کے پیکٹ بنا کر فریزر کے حوالے کئے جاتے اور سیزن کے ختم ہونے کے بعد بھی اس کا لطف لیا جاتا۔ پھر یکے بعد دیگرے وہ خاتون اپنے آبائی قصبے کمالیہ اور میری اہلیہ اپنے مالک کے پاس چلی گئی۔ میری ساگ سے محبت کے طفیل نہایت عمدہ ساگ پکانے والے دوچار دوستوں نے سیزن میں ساگ کی سپلائی مستقل کر دی۔ بڑی بیٹی کے علاوہ باقی تینوں بچے بھی ساگ کے شیدائی نکلے۔
اللہ جنت نصیب کرے ڈاکٹر ظہور کو، اس کے گھر سے کبھی کبھار عمدہ ساگ آ جاتا تھا۔ رانا شفیق نے یہ فریضہ بڑی باقاعدگی سے سرانجام دیا۔ میاں یٰسین جب تک ملتان تھا سیزن میں دو بار ساگ کی اچھی خاصی مقدار بھجواتا تھا۔ اب جب سے سرگودھا گیا ہے یہ سپلائی ٹوبہ ٹیک سنگھ سے جاری ہے۔ لاہور یا اسلام آباد سے واپسی پر ٹوبہ ٹیک سنگھ انٹرچینج کے ٹال پلازہ کے ساتھ کوئی برخوردار ساگ کے ساتھ منتظر ہوتا ہے۔ ایک طرف ٹال دے کر باہر نکلتا ہوں، ساگ وصول کرتا ہوں اور دوسری طرف سے دوبارہ موٹروے پرچڑھ کر سفر شروع کر دیتا ہوں۔ اس بار بھی انٹرچینج پر یہ کام کیا اور ملتان روانہ ہوگیا۔ ایسے دوست قسمت والوں کو ملتے ہیں۔
گزشتہ بیس پچیس دنوں میں تین بار موٹروے پر سفر کرنا پڑا۔ دو بار اسلام آباد کیلئے اور ایک بار لاہور کیلئے۔ ملتان سے لیکر موٹروے پر چڑھنے تک شام کوٹ کے پاس سڑک کی بائیں طرف سرسوں کے کھیت پوری رنگینی کے ساتھ اپنے پیلے پھولوں کی بہار کے ساتھ لہلہا رہے ہوتے ہیں۔ ملتان لاہور موٹروے پر یہ پیلا رنگ جگہ جگہ اپنی حشر سامانی کے ساتھ دکھائی پڑتا ہے لیکن اس کی جو رنگینی بلکسر انٹرچینج کے نواح میں دکھائی دیتی ہے اس سے بڑھ کر صرف چکوال کے راستے میں گزشتہ سال دیکھی تھی وگرنہ بلکسر انٹرچینج کے اردگرد یہ پیلا رنگ جس طرح بکھرا نظرآتا ہے بہت کم جگہوں پر ایسی خوبصورت پیلی چادر بچھی دکھائی دیتی ہے۔
بلکسر انٹرچینج وہی ہے جہاں پر موٹروے کے کنارے ایک نسواری رنگ کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے جو برصغیر سے تعلق رکھنے والے پہلے وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والے صوبیدار خداداد خاں کے گائوں ڈب‘ جس کا نام اب ڈب خداداد خان ہے‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔ کل انتیس انڈین فوجیوں کو رائل برٹش آرمی کا بہادری کا یہ اعلیٰ ترین تمغہ مل چکا ہے۔ ان انتیس وکٹوریہ کراس حاصل کرنے والوں میں سب سے پہلا شخص صوبیدار خداداد خان تھا جس نے بہادری کا یہ تمغہ Hollebecke (بلجیم) کے محاذ پر حاصل کیا۔ تب خداداد خان ڈیوک آف کوناٹ کی 129ویں بلوچ رجمنٹ میں تھا جو پاکستان بننے کے بعد دسویں بلوچ رجمنٹ قرار پائی۔
بیس پچیس دن پہلے یہاں سے گزرا تو پیلے رنگ کی بہار ہی کچھ اور تھی اور اب گزرا ہوں تو سرسوں کے پیلے پھولوں کے یہ تختے پہلے کی نسبت بہت ماند پڑ چکے ہیں۔ چند دن بعد یہ رہے سہے پھول بھی بیجوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ یہ بیج ہی ہے جو زندگی کے چلتے رہنے اور ایک نسل سے دوسری نسل کے آغاز کا سندیسہ لے کرآتا ہے۔ یہ فصل جلد ہی مرجھا جائے گی اور کٹ جائے گی لیکن اس کا ماحصل اگلی فصل اور پیلے پھولوں کی بہار کا پیامبر ہے۔ یہی زندگی ہے جو ازل سے چل رہی ہے اور تب تک جاری رہے گی جب تک میرے مالک نے مہلت دی ہوئی ہے۔