این اے 157اور الیکشن کا التوا

الیکشن کمیشن نے ملک میں سیلاب کی بدترین صورتحال کے پیش نظر تمام ضمنی انتخابات ملتوی کر دیے ہیں۔ اس التوا کی زد میں آ کر ملتان کے حلقہ این اے 157میں آج کے روز (مورخہ 11ستمبر) ہونے والا ضمنی الیکشن بھی ملتوی ہو گیا ہے۔ یہ سیٹ شاہ محمود قریشی کے فرزند ارجمند زین قریشی کے مستعفی ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ اس استعفے کی وجہ بہت سے قارئین کو تو معلوم ہی ہو گی مگر جن کو نہیں معلوم ان کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ شاہ محمود قریشی جنرل الیکشن 2018ء میں ملتان شہر سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 156سے اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 217 سے امیدوار تھے۔ وہ این اے 156سے قومی نشست تو جیت گئے مگر انہیں صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی 217سے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ‘کم عمر‘ سلمان نعیم نے چار ہزار ووٹوں سے شکست دی۔ میں نے سلمان نعیم کو کم عمر اس لیے لکھا ہے کہ وہ بمشکل اس عمر تک پہنچا تھا جو الیکشن لڑنے کیلئے درکار ہے بلکہ ایک خبر تو یہ بھی ہے کہ وہ جب الیکشن لڑا تب اس کی عمر اس حد تک نہیں پہنچی تھی جو آئین کے تحت الیکشن لڑنے کیلئے کم از کم درکار ہے اور اس نے اس مسئلے کا یہ حل نکالا کہ عمر میں دوچار ماہ کی کمی کو پورا کرنے کیلئے اس نے ایک عدد نیا شناختی کارڈ بنوا لیا جس میں اس نے مطلوبہ عمر کے مطابق اپنی تاریخ پیدائش پیچھے کروا لی اور الیکشن لڑنے کی اہلیت حاصل کرلی۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو شکست ہوئی اور یہ صرف کسی صوبائی اسمبلی کی سیٹ پر شکست نہیں تھی بلکہ یہ ان کی دیرینہ دلی خواہش کی المناک موت تھی جو وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے متعلق ایک عرصے سے اپنے سینے میں لیے پھرتے تھے۔ شاہ محمود قریشی نے ایک دو ‘فرنٹ مینوں‘ کے ذریعے سلمان نعیم کی کم عمری اور دو شناختی کارڈوں کے حوالے سے عدالت میں رِٹ کروا دی۔ تقریباً دو سال سے زائد عرصے تک سلمان نعیم کی رکنیت معطل رہی اور وہ بڑی مشکل سے اسمبلی پہنچا۔ بعد ازاں حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنوانے کیلئے جو بیس ارکانِ اسمبلی نااہلی کی زد میں آئے ان میں سلمان نعیم بھی تھا۔ اب حلقہ پی پی 217 ایک بار پھر خالی تھا۔ شاہ محمود قریشی خود اپنے حلقہ این اے 156 سے اور ان کا فرزند زین قریشی حلقہ این اے 157سے اجتماعی استعفے کے تحت مستعفی ہو چکے تھے۔ انہوں نے پی پی 217 سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے اپنے بیٹے کو میدان میں اتارا۔ تب عمران خان کا ڈنکا چاروں طرف بج رہا تھا اور ہر طرف خان صاحب کی جے جے کار مچی ہوئی تھی۔ زین قریشی نے شاہ محمود کی نسبت کہیں کمزور امیدوار ہونے کے باوجود سلمان نعیم کو پچھاڑ دیا۔ یہ صرف عمران خان کے حکومت سے فراغت کے بعد والے بیانیے کی مقبولیت تھی جس نے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر شاہ محمود قریشی کو چار ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دینے والے سلمان نعیم کو زین قریشی کے مقابلے میں چھ ہزار ووٹوں کے فرق کے ساتھ شکست سے دوچار کیا۔
زین قریشی نے چودھری پرویز الٰہی اور حمزہ شہباز کے وزارتِ اعلیٰ کے الیکشن سے قبل صوبائی اسمبلی کا حلف اٹھا لیا اور یوں حلقہ این اے 157خالی ہو گیا۔ اب اس حلقے سے جہاں ایک طرف سید یوسف رضا گیلانی کا بیٹا علی موسیٰ گیلانی پیپلز پارٹی کا امیدوار ہے تو دوسری طرف شاہ محمود قریشی کی دختر مہر بانو پی ٹی آئی کی امیدوار ہے۔ ملتان کی سیاست کے قدیمی حریف خاندانوں کی نئی نسل ایک دوسرے سے نبرد آزما ہے لیکن ایمانداری سے پوچھیں تو یہ قریشیوں اور گیلانیوں کا یا پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کا انتخابی مقابلہ یا معرکہ نہیں ہے‘ یہ صرف اور صرف عمران خان اور علی موسیٰ کے درمیان ہونے والا الیکشن ہے۔ میں یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ یہ بلے اور موسیٰ گیلانی کے درمیان مقابلہ ہے مگر بلا بھی کیا ہے؟ یہ عمران خان کا تصویری خبرنامہ ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ نشان اب بذات خود عمران خان ہے اور یہ مقابلہ بھی انہی دو کے درمیان ہے۔ عمران خان کی حالیہ مقبولیت کی لہر کے تناظر میں بظاہر یہ انتہائی بے جوڑ اور غیر متوازن مقابلہ ہے لیکن ایمانداری کی بات ہے کہ یہ حالیہ عرصہ میں ملتان کا شاید سب سے زیادہ کانٹے دار مقابلہ ہے۔
شاہ محمود قریشی کا علاقے میں امیج کیونکہ ایک پیر اور گدی نشین کا ہے اس لیے ان کی دختر نہ تو عوامی اجتماعات سے خطاب کر رہی ہے اور نہ ہی جنرل کمپین کر رہی ہے۔ مہر بانو قریشی صرف خواتین میں اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے اور اس کی مہم خاصی کامیاب اور مؤثر بھی ہے جبکہ دوسری طرف علی موسیٰ گیلانی کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ وہ گزشتہ کئی سال سے حلقے کے عوام میں ذاتی طور پر موجود ہے‘ اپنے عوامی طرزِ عمل کے باعث حلقے کی عوام میں خاصا مقبول بھی ہے اور ہمہ وقت ان کی خوشی غمی میں شریک بھی رہا ہے۔ عام آدمی سے گلے ملنا‘ اس کے ساتھ بان کی چارپائی پر بیٹھ کر سرائیکی میں ”حال ونڈانا‘‘ اور ان سے گھل مل جانا ایسی خصوصیات ہیں جو شاہ محمود قریشی کو چھو کر بھی نہیں گزریں۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر یہ عام الیکشن ہوتا اور حالات وہی ہوتے جو آج سے سات آٹھ ماہ قبل تھے تو علی موسیٰ قریشی خاندان کے کسی بھی امیدوار کو شکست فاش دیتا۔ عمران خان کی مقبولیت کا سورج نصف النہار پر ہے اور خان صاحب کا نام الیکشن میں کسی کامیاب فلم کے پہلے شو کی ٹکٹ کی طرح بک رہا ہے۔ غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو علی موسیٰ کو فی الوقت تیر کے نشان پر لڑنے کا جو گھاٹا‘ نقصان اور خسارہ ہے مہر بانو قریشی کو بلے کے نشان پر لڑنے کا اتنا ہی فائدہ اور نفع ہے۔ دوسرے لفظوں میں علی موسیٰ گیلانی تمام تر برے حالات اور خراب صورتحال کو سر پر رکھے الیکشن لڑ رہا ہے لیکن ان تمام Odds کے باوجود اگر وہ الیکشن کو کانٹے دار بنا رہا ہے تو آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ کس قدر توانا اور تگڑا امیدوار ہوگا۔ فی الوقت وہ اکیلا مہنگائی‘ شاہ محمود قریشی اور عمران خان کے بیانیے کے خلاف الیکشن لڑ رہا ہے۔
اس پورے علاقے میں پیپلز پارٹی کے نظریاتی ووٹ تو سمجھیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس حوالے سے تیر کا نشان انتخابی ماحول میں رتی برابر گرما گرمی یا فائدے کا باعث نہیں ہے۔ ہاں! سید یوسف رضا گیلانی کا ذاتی میل ملاپ اور علاقائی گروپنگ ضرور اہم ہیں‘ لیکن یہ سب کچھ مل کر بھی بہرحال حالیہ انتخابی مقبولیت کے اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا جس اوجِ ثریا پر عمران کی مقبولیت کا چراغ جل رہا ہے۔ گیلانی خاندان بھی اپنی زندگی کا شاید سب سے زیادہ خرچے والا الیکشن لڑ رہا ہے اس سے پہلے تو یوسف رضا گیلانی کے الیکشن وغیرہ کا خرچہ ان کے سپانسرز اور انویسٹرز کیا کرتے تھے۔ یہ پہلی بار ہے (ممکن ہے میرا یہ خیال غلط ہو مگر میں اپنی بہترین معلومات کی بنا پر لکھ رہا ہوں) گیلانی خاندان نے کسی الیکشن میں اپنے پلے سے اتنا خرچہ کیا ہے۔ گزشتہ ماہ سے علی موسیٰ گیلانی کی تشہیری مہم جاری تھی۔ الیکشن کمیشن کے التوا کے فیصلے نے گیلانی خاندان کیلئے جہاں اس اشتہار کے تسلسل کو قائم رکھنے کا خرچہ بڑھا دیا ہے وہیں زمینی حقائق کے پیش نظر علی موسیٰ گیلانی کو تھوڑا فائدہ ہونے کا امکان بھی پیدا کر دیا ہے۔ بہرحال فی الوقت تو صورتحال انیس بیس تھی اور عمران خان کی مقبولیت کے باعث یہ کہنا مشکل نہیں کہ پی ٹی آئی کی امیدوار بیس تھی لیکن اس التوا کے بعد کیا صورتحال بنتی ہے اس پر پھر سہی۔ فی الوقت تو دعا ہے کہ اللہ اس قوم کو درپیش حالیہ مشکلات آسان کرے۔