پاکستان کی سیاسی تاریخ کے ’’منفی باب‘‘ قلم بند ہو رہے ہیں

پاکستان تحریک انصاف نے عمر ایوب خان کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار جبکہ بلوچستان اور پنجاب کے وزرائے اعلیٰ کی نامزدگی کا بھی اعلان کیا ۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان کی راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے یہ ’’چوتھی حکومتی نامزدگی‘‘ ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری و ساری ہے جو کئی حوالوں سے دلچسپ اور منفرد واقعہ تو ہے ہی لیکن کئی حوالے سے الارمنگ بھی، اس سے قبل وہ صوبہ خیبرپختونخوا کیلئے علی امین گنڈا پور کو وزیراعلیٰ نامزد کر چکے ہیں جن کی نامزدگی کئی حوالوں سے تنقید کی زد میں متنازعہ ہونے کی حد تک موضوع بحث بنی ہوئی ہے.

اطلاعات کے مطابق خود کو اس منصب کیلئے زیادہ موزوں اور حقدار سمجھنے والے خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے سینئر رہنما اس فیصلے کی خاموش مخالفت کے باوجود علی امین گنڈا پور کو ’’مبارکباد کا پیغام‘‘دینے پر طوعاًو کرہاً آمادہ ہوئے۔

قانون کی نظر میں شناخت سے محروم کسی بھی سیاسی جماعت جس کی آئینی اور قانونی حیثیت فی الوقت متنازعہ ہے اس کے سربراہ کا جیل سے وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کے عہدوں پر اپنی جماعت کے ارکان کو نامزد کرنا جو کئی مقدمات میں قانون کو مطلوب، مفرور اور روپوش ہیں پاکستان کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے جس کے اثرات جاری جمہوری عمل اور رواں ماہ بننے والی اتحادی حکومت پر ہی نہیں بلکہ جمہوریت پر بھی کس انداز سے اثرانداز ہونگے اس حوالے سے مثبت پہلو بھی نکالنا بھی مشکل ہے اور ایک ایسی صورتحال میں جب اتحادی جماعتوں کی حکومت رواں ماہ کے آخر میں قائم ہونے کی توقع ہے .

اس موقع پر پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کا اڈیالہ جیل سے احتجاجی تحریک کی کال دینا جمہوریت کیلئے تشویشناک اشارہ ہے پھر یہ اطلاعات اگر درست ہیں کہ شیر افضل مروت کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بنایا جائے گا.

اس سے قبل اس اہم ذمہ داری کیلئے عمر ایوب کا نام بھی لیا جا رہا تھا لیکن چونکہ اب وہ ’’وزیراعظم‘‘کیلئے نامزد کر دیئے گئے تو شیر افضل مروت کو مبینہ طور پر اپوزیشن لیڈر بنائے جانے کے’’خدشات اور امکانات‘‘پیدا ہوگئے ہیں۔