مشیرِ اطلاعات خیبر پختون خوا بیرسٹر سیف نے کا کہنا ہے کہ علی امین گنڈاپور کا قافلہ اپنی منزل کی طرف دوبارہ روانہ ہو گیا ہے۔ ’جیو نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر محمد علی سیف نے کہا کہ مزید مزید پڑھیں
نئے سال کا تحفہ
اکیسویں صدی کے اکیسویں سال نے‘ جو ابھی ابھی اِس دنیا سے اُٹھ کر گیا ہے، جاتے جاتے ہماری قومی اسمبلی میں دھینگا مشتی اور زور زبردستی کے جو مناظر دیکھے، اسکے بعد اس نے آنکھیں بند کر لینے ہی میں عافیت جانی ہو گی… یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا۔ 2021ء تو لوٹ کر نہیں آئے گا، ہمیشہ کیلئے رخصت ہو چکا لیکن اہلِ پاکستان کو نئے سال کیساتھ چلنا ہے، اور چلتے چلے جانا ہے کہ قوموں کی زندگی میں ایک سال بعض اوقات ایک لمحے کی طرح گزر جاتا ہے، بعض اوقات ایک صدی پر بھاری پڑ جاتا ہے۔ گزشتہ سال جو گزرا ہے، وہ ایک لمحے تو کیا، ایک سال کی طرح بھی نہیں گزرا، بہت لمبا ہو ہو گیا ہے کہ جو خواب دیکھے اور دکھائے گئے تھے، ان میں سے کسی کی تعبیر ہاتھ نہیں آ سکی۔ ہاتھ ملتے کبھی آنکھ ملتے وقت کٹتا اور کاٹتا چلا گیا۔’صبح کرنا شام کا لانا تھا جوئے شیر کا‘۔ دودھ اور شہد کی نہریں تو کیا بہتیں، ندی نالوں میں معمول کی جولانی بھی دیکھے میں نہیں آئی۔ وہ جن کے ہاتھ میں زمامِ اختیار ہے اور وہ جن کے ہاتھ اس زمام کو چھین لینے کیلئے بیتاب ہیں۔ فری سٹائل ریسلنگ سے دِل بہلاتے رہے؎
نہ سوالِ وصل نہ عرض غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں
تیرے عہد میں دِل زار کے سبھی اختیار چلے گئے
پاکستان کا کوئی بھی ادارہ وہ کر نہیں پا رہا، یا وہ کرنا نہیں چاہتا جس کیلئے اُسے بنایا گیا ہے۔ ہر ایک کو دوسرے کی فکر ہے، دوسروں کو درست کرنے کے جذبے نے سب کو ہلکان کر رکھا ہے۔ عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ، میڈیا سب ایک دوسرے کے درپے ہیں۔ ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں، ایک دوسرے کی زندگی اجیرن بنا رہے ہیں، گویا آنکھ زبان کا، معدہ دِل کا، اور گردے جگر کا کردار ادا کرنے کیلئے بے چین ہیں۔ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ وہ مکان کا نقشہ بہت اچھا بنا سکتا ہے، وکیل سمجھتا ہے کہ وہ صحت کے مسائل حل کر سکتا ہے، انجینئر سمجھتا ہے کہ ہسپتال اُس نے بنایا ہے، اس لیے چلانے کا حق بھی اُسی کو حاصل ہے۔ ایک ہی گاڑی کو کئی انجن لگے ہوئے ہیں، جو اسے اپنی اپنی طرف کھینچ رہے ہیں، بوگیوں کی تکا بوٹی ہوتی ہے تو ہوتی رہے ان کی بلا سے۔ کوئی یہ سمجھنے کو تیار نہیں کہ وہ ایک بڑے کل کا جز ہے، اگر جز بن کر رہے گا تو کل کو تقویت دے گا، لیکن کل بننے کی کوشش میں اپنے آپ سے بھی جائے گا۔ اسی کو لغت میں طوائف الملوکی کہتے ہیں، مرکزیت کا خاتمہ ہو جائے تو ریاست کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔
اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے ڈیڑھ سو برس تک سلطنت مغلیہ قائم رہی تھی، اچانک حرکتِ قلب بند ہونے سے اس کا انتقال نہیں ہوا، طوائف الملوکی کے کینسر نے اسے آہستہ آہستہ نگلا۔ بہادر شاہ ظفر کی حکومت لال قلعے تک محدود ہو چکی تھی، لیکن اسداللہ خان غالب جیسے شاعر اُس وقت بھی اُس کے قصیدے لکھ رہے تھے، اور ذو ق کی جگہ لینے پر شاداں و فرحاں تھے؎
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اِتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
غالب جب دربار سے وابستہ ہوئے تو چھ ماہ بعد تنخواہ ملتی تھی۔ سال میں دو بار ان کی جیب بھاری ہوتی، ماہانہ خرچ بنیے سے ادھار لیکر چلانا پڑتا۔ سود در سود کے انبار لگتے چلے جاتے، اس پر انہوں نے جو منظوم درخواست بادشاہ کی خدمت میں پیش کی، نئے سال کے تحفے کے طور پر ملاحظہ فرمائیے ؎
اے شہنشاہ آسماں اورنگ
اے جہاندار آفتاب آثار
تھا میں اک بے نوائے گوشہ نشیں
تھا میں اک درد مند سینہ فگار
تم نے مجھ کو جو آبرو بخشی
ہوئی میری وہ گرمیٔ بازار
گرچہ از روے ننگ و بے ہنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار
کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار
شاد ہوں لیکن اپنے جی میں کہ ہوں
بادشاہ کا غلام کار گزار
خانہ زاد اور مرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ گزار
بارے نوکر بھی ہو گیا صد شکر
نسبتیں ہو گئیں مشخص چار
نہ کہوں آپ سے تو کس سے کہوں
مدعائے ضروری الاظہار
پیر و مرشد! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوق آرائشِ سرود ستار
کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زمہریر آزار
کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں، ہے اگرچہ نزار
کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار
رات کو آگ اور دن کو دھوپ
بھاڑ میں جائیں ایسے لیل و نہار
میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار
رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اسی چلن پہ مدار
مجھ کو دیکھو تو ہوں بہ قید حیات
اور چھ ماہی ہو، سال میں دو بار
بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سود کی تکرار
میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہوکار
آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعر نغز گوئے خوش گفتار
ظلم ہے گرنہ دو سخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار
آپ کا بندہ اور پھروں ننگا
آپ کا نوکر، اور کھائوں ادھار
میری تنخواہ کیجیے ماہ بہ ماہ
تا، نہ ہو مجھ کو زندگی دشوار
ختم کرتا ہوں، اب دعا پہ کلام
شاعری سے نہیں مجھے سروکار
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
غالب کی یہ دعا کیسے قبول ہوئی، اسے ہم سب جانتے ہیں، چند برس کے اندر اندر بادشاہ کے شہزادوں کے سر طشت میں سجا کر اُس کی خدمتِ اقدس میں تحفے کے طور بھجوا دیئے گئے، اور وہ خود اپنی بیوی ممتاز محل کے ساتھ رنگون کے ایک سرونٹ کوارٹر میں قید کر دیا گیا ؎
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دِل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے میں وہ ایک مشتِ غبار ہوں