اب کی بار خسرو سرکار

کیا ملک ایسے چلتے ہیں جیسے ہمارا پچھلے چوہتر سال سے چل رہا ہے؟ آپ لوگوں کو کبھی لگا کہ ہم نارمل لوگ ہیں اور ایک نارمل ملک میں رہتے ہیں؟ چلیں آج زیادہ باتیں نہیں کرتے صرف ایک ایشو کو دیکھتے ہیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ہمارا گورننس یا قابلیت کا لیول کیا ہے اور ہم کتنے اہل ہیں۔
کل پرسوں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چل رہا تھا‘ وہاں کھاد کا ایشو اُٹھا‘ پتہ چلا کہ چیئرمین پی اے سی رانا تنویر اور آڈیٹر جنرل پاکستان اجمل گوندل نے خود بلیک میں کھاد خریدی ہے۔ چیئرمین پی اے سی رانا تنویر حیران تھے کہ ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ کھاد سرپلس موجود ہے اور شارٹیج نہیں ہے۔ سوال اٹھا کہ کھاد سرپلس تھی تو چین سے امپورٹ کیوں کر رہے ہیں؟ ریاض فتیانہ نے کہا کہ یوریا 1768روپے کے بجائے2500 روپے فی بوری اوپن مارکیٹ سے مل رہی ہے۔ ایاز صادق نے کہا کہ فرٹیلائزر سیکٹر کو گیس سبسڈائزڈ ریٹ پر دیتے ہیں پھر بھی کھاد مہنگی ہے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ کسانوں کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ خواجہ شیراز نے کہا کہ اسمبلی میں جو لوگ کہتے ہیں یوریا کی کوئی کمی نہیں وہی شام کوپچاس پچاس بوریوں کے لیے ڈپٹی کمشنر کو سفارش کر رہے ہوتے ہیں۔خواجہ شیراز نے سوال اٹھایا کہ انڈیا میں یوریا کی قیمت کیا ہے؟ آڈیٹر جنرل سے سوال کیا گیا کہ گوندل صاحب آپ بھی تو زمیندار ہیںآپ نے کھاد بلیک میں لی ہے یا عام مارکیٹ سے خریدی؟ جواب ملا کہ کھاد ہر جگہ بلیک میں مل رہی ہے جس پر رانا تنویر نے کہا: پھر آپ شرما کیوں رہے ہیں؟ سید طارق حسین نے کہا کہ یوریا بلیک پرائس پر مل رہی ہے‘ ساری زندگی نہیں دیکھا یوریا بلیک میں ملتی ہو‘ ملک کو فوڈ اِن سکیورٹی کی طرف لے جا رہے ہیں‘کون ایسا کر رہا ہے؟چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ شیخو پورہ میں کسان شدید احتجاج کر رہے ہیں‘ کھاد نہیں مل رہی‘ گندم کی پیداوار بھی کم ہو گی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ اس وقت جو یوریا امپورٹ کریں گے تو وہ پیلے رنگ کی ہو گی‘جو بیرون ممالک میں برف صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت بھی یوریا اور ڈی اے پی بلوچستان سے سمگلنگ ہو رہی ہے۔
اب ایک اور تصویر کا رخ کرتے ہیں۔پچھلے سال ستمبر میں اسد عمر نے ای سی سی اجلاس میں خبردار کیا تھا کہ کھاد کی شارٹیج پیدا ہو رہی ہے‘ دو لاکھ ٹن امپورٹ کر لیں‘ لیکن خسرو بختیار ڈٹ گئے کہ توبہ کریں جناب میرے ہوتے ہوئے کھاد کی شارٹیج؟ یوں تین ماہ ضائع کئے گئے‘ جب گندم کی بوائی ہونی تھی۔ پتہ چلا کہ مارکیٹ میں کھاد غائب ہے۔ قیمتیں یکدم آسمان کو چھونے لگیں۔ ڈی اے پی فی بوری دس ہزار اور یوریا تین ہزار تک بلیک میں ملنے لگی۔ آخر جب کسانوں نے رولا ڈالا تو کابینہ میں چند وزیروں نے شور مچایا۔ اس پر خسرو بختیار‘ جو انڈسٹریز کے وزیر ہیں اور ان کی ذمہ داری ہے کہ ان ایشوز کو دیکھیں‘ فوراً ان وزیروں پر چڑھ دوڑے جنہوں نے کھاد کا ایشو اٹھایا تھا۔ خسرو بختیار صاحب نے کہا :ملک کی ضرورت تیس لاکھ ٹن ہے اور اس وقت تینتیس لاکھ ٹن کے قریب کھاد موجود ہے‘آپ کو ہرگز امپورٹ کی ضرورت نہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے شور مچاتے والے وزیروں کی بات سننے کے بجائے خسرو بختیار کی بات کو اہمیت دی کہ واقعی کھاد کی کوئی کمی نہیں بلکہ کسانوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ کھاد کے لیے بڑی بڑی لائنیں لگا کر حکومت کو بدنام نہ کریں۔ یہ ڈیوٹی بھی خسرو بختیار اور فخر امام کے ذمے لگی کہ آپ سمجھدار وزیر ہیں جا کر اپنے کسان بھائیوں کو سمجھائیں جو حکومت کو بدنام کرنے پر تل گئے ہیں اور کھاد کیلئے لمبی قطاریں لگانے کا شغل لگائے ہوئے ہیں۔یوں ان دو وزیروں نے پریس کانفرنس میں کسانوں کو سمجھایا کہ کھاد بہت ہے وہ گھر جائیں۔
اس دوران کسانوں نے کھاد نہ ملنے پر کھاد کے ٹرک لوٹنا شروع کر دیے۔ اس پر پھر چند وزیروں نے رولا ڈالا کہ خدا کا خوف کریں ہمیں خود کھاد نہیں مل رہی مگرخسرو بختیار عمران خان کو مطمئن کئے بیٹھے تھے کہ بہت کھاد ہے۔ عمران خان لفظ ” بلیک میل‘‘ سن کر چڑ جاتے ہیں۔ یوں حکومت نے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی اکنامک کوآرڈینیشن کمیٹی میں کھاد ایشو پر دو ماہ بعد پھر ایشو اٹھا جہاں پر پہلے اسد عمر کی بات کو رد کیا گیا تھا ۔ اب اسی کمیٹی میں فیصلہ ہوا کہ فوراً چین سے پچاس ہزار ٹن یوریا منگوائی جائے۔ یہ فیصلہ کابینہ میں پہنچا تو وزیر اعظم نے منظوری دے دی۔ عمران خان سمیت کسی وزیر نے خسرو بختیار سے نہیں پوچھا کہ آپ مسلسل کابینہ کو بتاتے رہے ہیں کہ ملک میں کوئی شارٹیج نہیں اور آپ کی وجہ سے ان دو ماہ میں جہاں یوریا کھاد نہ ہونے سے قیمتیں بڑھ گئیں وہیں کسان گندم کی بوائی میں استعمال نہ کر سکے جس کا اثر اس کی پیداوار پر ہوگا۔ یوں خسرو بختیار صاحب کی اس ضد کی وجہ سے کسانوں کو مہنگی کھاد بلیک میں لینا پڑی اور پاکستانی کھاد کمپنیوں اور ڈیلرز نے کھل کر کسانوں سے پیسہ بٹورا۔ جب اسد عمر کہہ رہے تھے اُس وقت منگوا لی جاتی تو نہ کھاد بلیک ہوتی نہ قیمتیں بڑھتیں نہ گندم کی پیداوار کم ہونے کا خدشہ لاحق ہوتا۔بات یہاں نہیں رکے گی۔ کہا جارہا ہے کہ کھاد کم دستیاب اور مہنگی ہونے کی وجہ سے کم استعمال ہوئی ہے اور گندم کی پیداوار کم ہونے کا خدشہ ابھی سے پیدا ہورہا ہے۔ یوں خسرو بختیار کی ضد اس ملک کو مہنگی پڑ رہی ہے۔
ایک تگڑے زمیندار وفاقی سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ انہوں نے خود بہت بڑی سفارش کرا کے کھاد کی بوریاں اپنی فصل کے لیے خریدی ہیں۔اب پی اے سی میں پتہ چل رہا ہے کہ پاکستان کے جو سب سے بڑے اور طاقتور ادارے ہیں‘ جن سے سب ڈرتے ہیں‘ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور آڈیٹر جنرل آف پاکستان ‘ان کے سربراہان نے بھی بلیک میں کھاد خریدی ہے۔اس طرح کے حیرت انگیز فیصلے خان صاحب اور ان کی کابینہ نے گندم اور چینی کی ایکسپورٹ پر 2019ء میں بھی کئے تھے جب انہیں رزاق دائود نے شوگر ایسوسی ایشن کے بچھائے ہوئے جال کے تحت یہ خوشخبری دی تھی کہ ملک میں بیس لاکھ ٹن سے زائد چینی ہے۔ دس لاکھ ٹن باہر بھجوا دیں۔ بغیر سوچے سمجھے اجازت دی گئی اور الٹا چار ارب روپے کی سبسڈی بھی خسرو بختیار کے بھائی‘ جہانگیر ترین‘ ان کے ماموں شمیم خان اور مونس الٰہی کی ملوں کو دی گئی۔ جونہی ایکسپورٹ شروع ہوئی چینی باون روپے سے ستر روپے تک پہنچ گئی اور چند دنوں بعد پتہ چلا کہ چینی مارکیٹ میں شارٹ ہوگئی ہے۔ انکوائری ہوئی تو پتہ چلا کہ شوگر ملز والوں نے رزاق دائود کو ماموں بنایا تھا‘ اس کا اعتراف رزاق دائود نے خود کابینہ اجلاس میں کیا کہ انہیں غلط فگرز دیے گئے تھے۔ رزاق دائود کے بھولے پن (اگرچہ یہ بھی جان بوجھ کر بھولے بنے ہوں گے) کی قیمت اس قوم نے دو شکلوں میں بھگتی۔ پہلے مقامی چینی ایکسپورٹ ہونے سے قیمت باون سے ستر روپے ہوئی اور بقول شہزاد اکبر اگر ایک کلو چینی پر ایک روپیہ قیمت بڑھے تو شوگر مل مالکان کو پانچ ارب روپے کا فائدہ ہوتا ہے۔ یہاں سیدھا اٹھارہ روپے فی کلو قیمت بڑھا کر اربوں روپے قوم کی جیب سے ان ملز مالکان نے نکلوا لیے۔ دوسری طرف تیس ارب روپے کی چینی باہر سے ڈالروں میں منگوائی گئی ۔ امید تھی کہ خان صاحب اور ان کی کابینہ 2019ء میں کئے گئے چینی اور گندم ایکسپورٹ کے غلط فیصلوں سے سیکھیں گے جو اس ملک کو باہر سے گندم‘ چینی‘ کاٹن اور دالیں منگوانے پر دس ارب ڈالرز میں پڑے ہیں‘ لیکن پچھلی دفعہ رزاق داؤد تو اس دفعہ اس ملک‘ قوم اور کسانوں کو چونا لگانے کی باری خسرو بختیار صاحب کی تھی۔ یہ سیکھا ہے خان صاحب اور ان کے نورتنوں نے!