صرف ساڑھے تین سال

جب آپ ڈال ڈال بیٹھنے والے موقع پرست الیکٹ ایبلز کی بنیادوں پر اپنا اقتدار کا سنگھاسن کھڑا کریں گے توپھر مشکل وقت میں ایسا ہی ہوگا جیسا ہورہا ہے۔ وزیراعظم کو جن تینتیس عدد مشکوک ارکان قومی اسمبلی کی فہرست دی گئی ہے اس میں عامر لیاقت حسین سے لے کر راجہ ریاض تک ایک بندہ بھی ایسا نہیں جس نے 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملنے سے چند روز پہلے تک عمران خان کے حق میں کبھی کلمۂ خیر کہا ہو یا عمران خان پر طنز کے تیر نہ چلائے ہوں۔ میں نے ایک دن پی ٹی آئی کے اراکینِ قومی اسمبلی پر طائرانہ سی نظر دوڑائی تو دیکھا کہ اس میں سے پچاس سے زائد ارکان ایسے تھے جو 2018 کے الیکشن سے تھوڑا ہی عرصہ پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ ان میں سے اکثر ارکان نے دو یا اس سے زیادہ سیاسی پارٹیاں تبدیل کی تھیں۔ اب جن مشکوک تینتیس ارکان قومی اسمبلی کی فہرست آئی ہے اس میں صرف تین لوگ ایسے ہیں جو شاید پی ٹی آئی کی طرف سے اپنا پہلا الیکشن لڑکر اسمبلی میں آئے ہیں؛ تاہم خوشی ہوئی کہ ان تینوں کے بزرگ پارٹیاں تبدیل کرنے کا سنہرا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ ایک خاتون ہیں‘ جو خواتین کی مخصوص نشست پر پی ٹی آئی کی طرف سے قومی اسمبلی کی رکن بنی ہیں؛ تاہم اس سے قبل دو مختلف پارٹیوں کی طرف سے رکن صوبائی اسمبلی اور وزیراعلیٰ سندھ کی مشیر رہ چکی ہیں اور ایک اقلیتی رکن ہیں۔
یعنی ان مشکوک تینتیس ارکان قومی اسمبلی میں سے یہ پانچ ارکان نکال دیں تو باقی بچنے والے اٹھائیس ارکان قومی اسمبلی وہ ہیں جو کم از کم ایک اور زیادہ سے زیادہ چار پارٹیاں چھوڑ کر تحریک انصاف کا حصہ بنے تھے۔ ان لوٹوں کے ساتھ اصولاً تو وہی سلوک ہونا چاہئے تھا جو اس قسم کے لوگوں کے ساتھ مہذب معاشروں میں ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں سیاست کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ جو بندہ اپنا تھوڑا سا بھی ذاتی ووٹ بینک رکھتا ہے وہ ہوا کا رخ دیکھ کر جب پارٹی بدلتا ہے تو دوسری پارٹی اسے نہ صرف یہ کہ قبول کر لیتی ہے بلکہ اسے چھوڑ کر آنے والی پارٹی سے بہتر عہدہ بھی عطا کرتی ہے اور عزت بھی دیتی ہے۔ یقین نہ آئے تو پیپلز پارٹی چھوڑ کر آنے والے شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، فواد چودھری اور ملتان والے ہمارے عامر ڈوگر کو دیکھ لیں۔ آپ کو یقین آجائے گا کہ درج بالا چاروں حضرات جب پیپلز پارٹی میں تھے تو نہ ان کے پاس پارٹی کے اس طرح والے کلیدی عہدے تھے اور نہ ہی اس قدر سیاسی اہمیت تھی۔ پیپلز پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں آئے تو ہر طرح کی لہریں بہریں ہوگئیں۔ یہ دوچار لوگوں کی کہانی نہیں۔ ایک سیٹ والی عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید احمد پاکستان کی سب سے تگڑی وزارت سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔ آدھی سے زیادہ کابینہ پرانے پاپیوں پر مشتمل ہے اور پالیسی بنانے پر بھی وہی وزیر فائز ہیں جو سکائی لیب کی طرح اوپر سے گرے ہیں۔ اوپر سے سارے مشیر اور معاون خصوصی وہ ہیں جن کا نہ صرف پی ٹی آئی کے ساتھ اقتدار میں آنے سے دو دن پہلے تک کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ جن کا سیاست کے ساتھ ہی سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کا کبھی نام بھی کسی نے نہیں سنا تھا۔ یہ سارے ہیرے اچانک ہی بریف کیس اٹھا کر پردۂ غیب سے ظہور میں آئے اور ان میں سے اکثر مال پانی بناکر اوراپنا بریف کیس اٹھا کر بغداد کے چوروں کی مانند غائب بھی ہو چکے ہیں۔ زلفی بخاری، ظفر مرزا، ندیم بابر اور ہمارے احتساب کے جادوگر شہزاد اکبر، سب اپنا بوریا بستر لپیٹ کر ایسے غائب ہو چکے ہیں جیسے وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ لے دے کے شہباز گل باقی ہیں جو مستقبل قریب میں ویسے ہی گمنامی کی دھند میں غائب ہو جائیں گے جیسے وہ ماضی میں تھے۔ بھلا اس قسم کے حالات میں ایک سو بہتر ارکان اسمبلی کب تک ساتھ چل سکتے ہیں؟
خان صاحب کا عالم یہ ہے کہ ساڑھے تین سال حکومت میں رہنے کے باوجود ابھی تک انہیں اس بات کا علم نہیں ہوسکا کہ کس وقت کیا کرنا ہے؟ جب اتحادیوں اور اپنے ارکان اسمبلی سے ملنا چاہئے تھا تب وہ تفاخر کے قطب مینار پر چڑھے ہوئے تھے۔ نرگسیت میں شدت سے مبتلا عمران خان صاحب کا خیال تھاکہ ان کی پارٹی اور اتحادی سدا ان کی غیرمشروط اطاعت میں مبتلا رہیں گے۔ اسی خوش فہمی میں جہانگیر ترین سے معاملات بگاڑ بیٹھے اور تھوڑے سے ادھڑے ہوئے کپڑے کی بروقت مرمت نہ کرنے کا خمیازہ اب بھگت رہے ہیں۔ وہ بزدار صاحب کو وزیراعلیٰ بناکر اور منواکر اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ سب ان کے غلط سلط فیصلوں کو ہمیشہ من و عن مانتے رہیں گے۔
ایمانداری کی بات ہے کہ اگر وہ اپنی حکومت کو بھی اسی طرح میرٹ پر چلاتے‘ جس طرح انہوں نے شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی چلائی ہے تو حالات مختلف ہوتے‘ لیکن ذاتی ایمانداری کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے یہ کسی نے خیال نہیں کیا کہ نااہل لوگوں کو اونچے منصب عطا کرنا بھی خیانت ہے‘ اور یہ بدترین بے ایمانی ہے۔ میرٹ پر تو وہ عثمان بزدار کو شوکت خانم کینسر ہسپتال میں کلرک کی نوکری بھی نہ دیتے مگر انہوں نے پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے کو محض ریموٹ سے چلانے کے شوق میں ایک ایسا وزیراعلیٰ مسلط کر دیاکہ اچھے سے اچھا چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس بھی ہاتھ کھڑے کرکے رخصت ہوگیا۔ ایک سابق چیف سیکرٹری پنجاب نے مجھے خود بتایاکہ اسے ایک ملاقات کے دوران عمران خان نے انتظامی صلاحیتوں کے ناپید ہونے کے ذکر پر کہا کہ بزدار صاحب ایماندار آدمی ہیں۔ جب اس چیف سیکرٹری نے خان صاحب کو کہاکہ وہ ان کی ایمانداری کے بارے میں کسی ایجنسی سے رپورٹ لے لیں تو خان صاحب خاموش ہو گئے۔ اس چیف سیکرٹری کی فراغت سے پہلے ایک اور ملاقات ہوئی تو اس نے خان صاحب سے پوچھاکہ کیا انہوں نے بزدار صاحب کے بارے میں رپورٹ لی ہے؟ جواباً خان صاحب خاموش ہوگئے۔ بعدازاں اس چیف سیکرٹری کو مرکز بھجوا دیا گیا۔
خان صاحب کیلئے باعزت طریقے سے حکومت کرنے یا اس سے فراغت کا سب سے مناسب وقت وہ تھا جب وہ حفیظ شیخ کو سینیٹ کا رکن بنوانے میں ناکام ہو گئے تھے۔ وہ حکومت کے مستقبل کی راہیں متعین کرنے کا سب سے مناسب موقع تھا جوانہوں نے اقتدارکو طول دینے کی لالچ میں گنوا دیا۔ ان کو ساڑھے تین سال حکومت کرنے کے بعد بھی یہ ادراک نہیں ہوسکا کہ کس وقت کون سا فیصلہ کرنا اور کب کیا لائحہ عمل اختیار کرنا ہے۔ جب انہیں عوام کے سامنے جانا چاہئے تھا تب وہ اقتدار سے چمٹے رہے اور جب انہیں ایک سو بہتّر ارکان کو اکٹھا کرنا ہے‘ وہ دس لاکھ بندے اکٹھے کرنے کے چکر میں پڑگئے ہیں۔ اس موقع پر وہ دس لاکھ چھوڑ ایک کروڑ بندے بھی اکٹھے کرلیں تو بے فائدہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کو ناکامی سے روکنے کیلئے صرف اور صرف ایک سو بہتّر ارکان قومی اسمبلی کی ضرورت ہے اوراس کا فیصلہ اسمبلی میں ہوگا نہ کہ ڈی چوک پر۔ عوامی امنگوں سے لاعلمی کا یہ عالم ہے کہ حافظ آباد کے جلسۂ عام میں جہاں مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام ان کے سامعین تھے‘ فرمایا کہ میں آلو اور ٹماٹر کی قیمت کم کرنے کیلئے وزیراعظم نہیں بنا۔ اب اس پر کیا تبصرہ کیا جائے کہ خان صاحب کی ہر معاملے میں نہ صرف ٹائمنگ غلط ہے بلکہ ان کو یقین کامل ہے کہ انہیں دنیا کی ہر بات کا اکمل ترین علم ہے اور وہ کبھی غلطی بھی نہیں کرسکتے۔ ایسی خوش فہمیوں کی ہوا نکلتے صرف ساڑھے تین سال لگتے ہیں۔ صرف ساڑھے تین سال!