ہمارے رستمِ زمان‘ عطاء الرحمن

جمعہ کا دن تھا، صبح کے ساڑھے دس یا گیارہ بجے ہوں گے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ سکرین پر عطاء الرحمن صاحب کا نام ابھر آیا۔ اسے دیکھتے ہی سرپکڑ لیا، الٰہی خیر، چند روز سے ان کی خبر ہی نہیں لی… مزاج ہی نہیں پوچھا،… تفصیلی ملاقات ڈیڑھ دو ہفتے پہلے ہوئی تھی۔ وہ بستر پر لیٹے ہوئے تھے، کمزوری کی شکایت کررہے تھے، لیکن باتیں شروع ہوئیں تواٹھ کر بیٹھ گئے، توانائی آتی گئی، اپنے مخصوص لہجے میں اپنے نکات کو الفاظ دینے لگے۔ جو کچھ ہورہا تھا، اس پروہ خوش نہیں تھے، اورجس سے خوشی مل سکتی تھی، وہ ہوتا نظر نہیں آرہا تھا۔ اپنی علالت کی تفصیل بھی بیان کی، اللہ تعالیٰ نے انہیں چھ بیٹیاں عطا کی تھیں۔ سب اپنے گھروں کو سدھار چکیں، لیکن ان کے داماد بیٹوں سے بڑھ کر تھے۔ تیمارداری کو عبادت سمجھ کربجا لاتے، اوران سے دعائیں حاصل کرتے۔ اپنی اہلیہ کا ذکر بھی مخصوص اپنائیت سے کرتے رہے کہ وہ برسوں سے ان کی دم ساز تھیں۔ اپنے ادارے سے بھی مسرور و مطمئن تھے۔ وہ ذیابیطس کے پرانے مریض تھے، اوراسی کی پیداکردہ پیچیدگیوں نے مشکلات پیداکر رکھی تھیں۔ پیدل چلنے کی عادت نے ان کی صحت کو برسوںسنبھالے رکھا۔ چاچے بسّے کی برفی ان کی کمزوری تھی۔ خود کھاتے، اور دوستوں کو بھی لاد دیتے۔ مہمان نواز بلا کے تھے۔ ان کے ہاں جانا ہوتا تو دسترخوان بھردیتے۔ میں تو ان کی مزاج پرسی کیلئے گیا تھا، لیکن وہ بہت کچھ میرے معدے میں ٹھونسنے کے درپے تھے۔ ان کی ایک بیٹی کہیں راستے میں تھیں۔ اسے ہدایات دیں کہ فلاں بیکری سے فلاں فلاں چیز لے کر آنا۔ مَیں نے ہاتھ جوڑ دیے کہ اس طرح کی بدپرہیزی کا متحمل نہیں ہوں، جو خشک میوہ آپ نے سامنے رکھ دیا‘ وہ کافی ہے، لیکن وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہ تھے۔ مجبوراً دھمکی دی کہ اگر آپ ضد کریںگے تومیں پھرنہیں آئوں گا، ٹیلی فون ہی پر سلام کرلیا کروں گا۔ اِس پر ٹھنڈے پڑے، میری جان میں جان آئی، اورقومی منظرنامے نے دوبارہ ہمیں اپنے اندر جذب کرلیا۔
مرض توان کو لاحق تھا لیکن یہ مرض الموت بن جائے گا، اس کا کوئی خیال دِل میں آنے کوتیار نہیں تھا۔ گزشتہ ایک عرصے سے کشمکش میں تھے، لیکن بیماری ان کا حوصلہ نہیں توڑ سکی تھی۔ ایک وقفے کے بعد وہ چلتے پھرتے، آتے جاتے نظر آتے، اوردِل اطمینان سے بھردیتے، چلتے ہوئے لاٹھی پکڑتے رہتے، لیکن پوری دلجمعی کے ساتھ قدم اٹھاتے، اوربڑھاتے۔ اس لاٹھی کے سوا کوئی سہارا انہوں نے طلب کیا، نہ اُسکی تلاش کی بس اللہ ہی کے سہارے راستہ بناتے چلے گئے۔ اپنا نقش جماتے چلے گئے، اپنے آپ کو منواتے چلے گئے۔ اپنے دوٹوک لہجے اور جرأت مندانہ الفاظ کی وجہ سے ممتاز ہوئے، اوردِلوں میں اترتے چلے گئے۔ ایک کالم نگار، ایک ٹی وی مبصر، ایک تجزیہ کار، اور ایک ایڈیٹر کے طورپر اپنا نقش جماتے چلے گئے؎
اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہل دِل/ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا
موبائل کی سکرین پران کا نام دیکھتے ہی یہ سب کچھ میرے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا۔ معذرت کے الفاظ ڈھونڈتے ہوئے فون اٹھایا، لیکن اِس سے پہلے کہ میری زبان سے کوئی لفظ نکلے، سسکیوں بھری آواز آئی، انکل،ابو اِس دنیا میں نہیں رہے… آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھاگیا کہ انہیں اپنا پانی سنبھالنا مشکل ہوگیا تھا۔
عطاء الرحمن اچھرے کے جس مکان میں پیدا ہوئے تھے، اسی سے ان کا جنازہ اٹھا۔ انہوں نے اپنے نظریات بدلے نہ اسلوب بدلا،ماحول بدلا، نہ مکان بدلا، ان کے والد نے جو رہائش گاہ قیامِ پاکستان سے پہلے تعمیرکی تھی، اُسی میں پوری زندگی گزاردی۔ پورا علاقہ کمرشل بن چکا تھا۔ اُن کے ہاں آنا اورجانا مشکل ہوتا، بھیڑ قدم قدم پرراستہ روک لیتی، لیکن اپنے عزیزوں اور محلے داروں کے ساتھ انہوں نے رفاقت نبھائی۔ انہی کے ساتھ جئے اور اچھرے ہی کے قبرستان میں والدین کے قدموں میں جنت حاصل کرلی۔ سینکڑوں افراد نے انہیں الوداع کہا، وہ ہنستے مسکراتے عالمِ جاودانی میں جا بسے تھے۔ رخصت کرنے والوں کی آنکھیں البتہ نمناک تھیں۔ عطاء الرحمن صاحب نے ابتدائی تعلیم اسی علاقے میں حاصل کی، پنجاب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کیا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ان کے گھر سے کچھ ہی دور رہائش پذیر تھے، اوراب وہیں آسودۂ خاک ہیں، ان کی مجلس میں بیٹھنے اور ان سے فیض حاصل کرنے کے وافر مواقع ملے۔ اسلامی جمعیت طلبہ میں شامل ہوئے، جماعت اسلامی سے دِل لگایا۔ 1968ء میں یونیورسٹی سے فراغت کے بعد نیپا میں ٹریننگ حاصل کرنے لگے۔ والد کا کاروباری ادارہ تھا۔ انہوں نے اپنے ادارے کی طرف سے انہیں نامزد کرکے وہاں بھجوا دیاکہ انتظامی امور کی سوجھ بوجھ پیدا ہوجائے۔ اِسی دوران مشرقی پاکستان کے مختلف حصوں میں جانا نصیب ہوا۔ وہاں کے اہلِ سیاست اور اہلِ صحافت سے تبادلہ خیال کے مواقع بھی مل گئے۔ حصولِ رزق کیلئے دبئی بھی گئے، لیکن پھرواپس آکر کتابوں کی دنیا میں دِل لگالیا۔ شاہراہ قائداعظم کے ایک بڑے مال میں ان کا ”گوشۂ کتب‘‘ توجہ کا مرکز بن گیا۔ وہ کتابیں پڑھتے تو تھے ہی‘ فروخت بھی کرنے لگے۔ سیاسی مجلسوں میں بیٹھنے کا شوق تھا۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے نوابزادہ نصراللہ خان تک ان کو پہچانا جاتا تھا، اور ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ بحث و تمحیص کرتے کرتے، اور دوستوں کی مجلسوں میں نکتہ آفرینی کی داد پاتے پاتے انہوں نے ایک دن قلم بھی اٹھا لیا۔ بین الاقوامی سیاست پر مضمون لکھ کر مجید نظامی صاحب کی خدمت میں پیش کردیا۔ انہوں نے ادارتی صفحے پر چھاپ کرانہیں آسمان پرپہنچا دیاکہ ”نوائے وقت‘‘ کے ادارتی صفحے کا وقار اوراعتبار ان دِنوں عروج پر تھا۔ بس پھرکیا تھا، وہ سکّہ بند لکھنے والے بن گئے۔ ان کے تجزیے چھپنے اور داد پانے لگے۔ جامعہ پنجاب کے شعبۂ ابلاغیات میں وزیٹنگ لیکچرار بنے۔ سپیریئر یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغیات کی بنیاد رکھی، اور ایک زمانے تک اس کے روحِ رواں رہے۔ ہفت روزہ ”زندگی‘‘ کے ساتھ وابستہ ہوئے، روزنامہ ”پاکستان‘‘ کے ادارتی صفحات کو بھی عزت بخشی۔ یہاں تک کہ ایک نئے روزنامے کا آغاز کرنے کیلئے ان کی خدمات حاصل کرلی گئیں۔ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ یوں کیا کہ اخبار کی مانگ ملک بھرکے معروف کالم نگاروں سے بھردی۔ وہ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں اظہار خیال پر قادر تھے۔ ان کے گہرے مطالعے نے انہیں اس نتیجے پر پہنچا دیا تھاکہ پاکستان کا مستقبل دستورکی حاکمیت کے ساتھ وابستہ ہے۔ وہ سب اداروں کو اس کا تابع بنانا چاہتے تھے۔ کوئی موضوع ہوتا، کوئی مجلس ہوتی، ان کی تان اسی بات پر ٹوٹتی۔ یہی بات نئے سے نئے رنگ میں، نئے سے نیا روپ دے کر پیش کرتے چلے جاتے۔ پنجاب کے عبدالستار ایدھی، پاک ہیلپ لائن کے کرتا دھرتا جناب اخلاق الرحمن کو غصہ آ آ جاتا، لیکن وہ اس پر محبت کا پانی چھڑک کر پھراپنی بات دہرانے لگ جاتے۔ اسی بات نے انہیں مسلم لیگ (ن) کے قریب کیا اور نوازشریف کے پسندیدہ افراد میں ان کا شمار ہونے لگا۔ میاں صاحب انکی بہت عزت کرتے اور انکی بات توجہ سے سنتے تھے۔ دوسری سیاسی جماعتوں اور دانشوروں کے حلقوں میں بھی ان کا احترام کیا جاتا تھا۔ ان کی خواہشات قلیل لیکن مقاصد جلیل رہے۔ حرص میں مبتلا ہوئے نہ ہوس میں۔ دستِ سوال دراز کیا، نہ کسی کو خاطر میں لائے۔ جنرل پرویز مشرف کے عرصۂ اقتدار میں ان کا قلم تلوار بنا رہا اور اب بھی وہ اپنی بات دھڑلّے سے کہہ رہے تھے۔ جبرناروا سے مفاہمت ان کے خمیر میں نہیں تھی، لاریب، وہ ہماری قومی صحافت کے پہلوان تھے، ہمارے رستمِ زمان، عطاء الرحمن۔