امن و امان اور سیاحت کے امکانات …(آخری حصہ)

مری میں جو کچھ ہوا وہ ایک علیحدہ کالم کا متقاضی ہے۔ وہی ہوٹل مافیا کی لوٹ مار، قوم کی موج میلے کی عادت اور پنجاب حکومت کی مکمل نااہلی اور منصوبہ بندی کا فقدان‘ اوپر سے ٹویٹس کرکے بری الذمہ ہونے کے چلن نے بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے؟ کوئی سچ نہیں بول رہا، اپنی چیز کے بارے میں ایک بات بھی درست نہیں بتا رہا۔ دوسرے کو دھوکہ دے کر اپنی چیز بیجنے کا چلن ہے۔ ہوٹلوں وغیرہ کو چیک کرنے کا اول تو کوئی انتظام ہی نہیں‘ اور اگر ہوگا بھی تو یہ محض اس سرکاری محکمہ کے ملازمین اور افسروں کی آمدنی کا ذریعہ بن رہا ہوگا‘ جو ان ہوٹلوں کی چیکنگ اور انسپکشن پر مامور ہیں نہ کہ ہوٹل میں ٹھہرنے والے مسافروں کی سہولت کا ذریعہ۔ اس سلسلے میں ضروری ہے کہ ہوٹلوں کی درجہ بندی اور کیٹیگری کا کوئی باقاعدہ میکنزم بنایا جائے اور اس عمل سے گزرنے والے ہوٹلوں کو سیاحت کیلئے رجسٹرڈ کیا جائے۔ بجائے اس کے کہ ہوٹل اپنے سٹار خود طے کریں ہوٹلوں کو ان کے معیار اور فراہم کردہ سہولیات کے مطابق درجہ ایوارڈ کیا جائے۔ معیار میں کسی قسم کی کمی بیشی کو کنٹرول میں رکھنے کی غرض سے ان کی وقتاً فوقتاً چیکنگ کا نظام وضع کیا جائے اور ہر سال انہی رپورٹس کی بنیاد پر ان کی تجدید کی جائے۔ صرف ان منظور شدہ ہوٹلوں کو ہی آن لائن بکنگ کی سہولت اور اجازت ملنی چاہئے جو اس نظام کے تحت خود کو رجسٹر کروائیں۔ مزید برآں ان تمام رجسٹرڈ ہوٹلوں کیلئے سیزن کے دوران اور آف سیزن کیلئے کم از کم اور زیادہ سے زیادہ ریٹ طے کئے جائیں اور خلاف ورزی کی صورت میں اس کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔ بزنس میں وسعت اور بڑھوتری کیلئے صرف ایسے منظور شدہ ہوٹلوں کو ہی بینک سے قرض حاصل کرنے کی سہولت ملنی چاہئے۔
قارئین! معاف کیجیے یہ میں کیا کیٹیگری اور درجہ بندی کیلئے کم از کم معیار مقرر کرنے اور ان طے شدہ معیار کو قائم رکھنے کے نظام وضع کرنے کے چکروں میں پڑ گیا ہوں۔ بھلا میں یہ جو کچھ لکھ رہا ہوں کیا یہ ساری سہولتیں اور آسانیاں ان ہوٹلوں میں ٹھہرنے والوں کو مل سکتی ہیں؟ اللہ مجھے معاف کرے اور میری بدگمانی پر مجھ سے رحم والا معاملہ کرے، حالانکہ میں بنیادی طور پر ایک رجائی شخص ہوں اور ہر بات میں اچھائی اور بہتری تلاش کرتا ہوں مگر اس معاملے میں میرا خیال ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ یہ سارا نظام رہائشیوں سے زیادہ اس نظام کو چلانے والے افسروں کیلئے اور سیاحوں سے زیادہ سرکاری بابوئوں کیلئے باعث خیروبرکت ثابت ہوگا اور میری اس بدگمانی کے پیچھے اس قسم کے محکموں کی وہ کارکردگی ہے جس کا نظارہ ہم عشروں سے روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔
ادھر پاکستان میں لوگوں کا خیال ہے کہ یورپ وغیرہ سے آنے والے سیاحوں کے پاس ڈالروں اور پونڈوں سے بھرے ہوئے بیگ ہوتے ہیں اور ان کافروں کو لوٹنا شاید باعث ثواب کام ہے۔ صرف ایک ”رَک سیک‘‘ میں چند کپڑے ٹھونس کر ملکوں ملکوں اور شہروں شہروں گھومنے والے یہ آوارہ گرد ایک ایک پیسے کو بچانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی تو حیرت ہوتی ہے کہ کمر پر لادے ہوئے اتنے چھوٹے سے بیگ کے اندر بھلا کتنے کپڑے اور دیگر سامان سما سکتا ہے جس کے بل بوتے پر یہ دیوانے ملکوں ملکوں گھوم لیتے ہیں۔ دو تین سال پرانی بات ہے میں اور سید عامر جعفری فرینکفرٹ کے ریلوے سٹیشن کے باہر کھڑے تھے اور وہاں سٹیشن کے ساتھ بس سٹاپ کے شیڈ کے نیچے سوئے ہوئے ایسے ہی آوارہ گردوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ اسی دوران میری نظر ایک لڑکی پر پڑی جو ایک بند دکان کے باہر اپنی پھٹی ہوئی جیکٹ کی سوئی دھاگے سے مرمت کررہی تھی۔ اب بھلا اس قسم کے سیروسیاحت کے دیوانوں کو کتنا لوٹا جا سکتا ہے؟ سال دو سال پہلے کی بات ہے میں ملتان میں ایک معروف بس سروس کے ٹرمینل پر اپنی ٹکٹ لینے کیلئے کھڑکی کے سامنے قطار میں کھڑا تھا اور میرے آگے ایک لڑکا اور لڑکی‘ جن کا تعلق غالباً کسی مشرقی یورپی ملک سے لگ رہا تھا‘ ٹکٹ کے حصول کیلئے کھڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا اور ایئرکنڈیشنر چلنے کے باوجود یہ حال تھاکہ پسینہ آرہا تھا۔ دونوں نے ملتان سے لاہور کا کرایہ سن کر کہا کہ یہ کرایہ زیادہ ہے۔ دونوں نے تھوڑی دیر آپس میں کچھ حساب کتاب کیا اور پھر فیصلہ کیا کہ اس ایئرکنڈیشنڈ بس پر سفر کرنے کے بجائے وہ جنرل بس سٹینڈ جاکر عام بس پر لاہور جائیں گے۔ سیاحت کے فروغ کیلئے ضروری ہے کہ ہر قسم اور درجہ بندی کے ہوٹل ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ سستے ہوٹلوں میں غیرانسانی حالات ہوں اور فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہی معیارکی بات کی جائے۔ بستر اور باتھ روم کی صفائی پر توکوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ہر سیاح اور مسافر کا حق ہیں‘ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے سیاحت کو فروغ دینے کے حکومتی دعووں اور کوششوں میں درج بالا قسم کی بہتری ترجیحات میں شامل ہے؟ کیا ہم اپنے کلچر اور دستکاریوں کو اس طرح دنیا میں متعارف کر پائے ہیں جیسے دنیا بھر میں سیاحوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے اور کھینچنے والے ممالک اپنی چھوٹی چھوٹی دستکاریوں سے نہ صرف کروڑوں ڈالر کا زرمبادلہ کما رہے ہیں بلکہ یہ دستکاریاں دنیا بھر میں ان ممالک کا تعارف بن جاتی ہیں۔
سیاحت بظاہر صرف ایک شوق کا نام نہیں ہے کہ بس آپ نے پاسپورٹ جیب میں ڈالا، پیسے پرس میں ڈالے، سامان اٹھایا اور چل دیے۔ یہ ایک پوری پیکیج ڈیل ہے اور اس کے بے شمار لوازمات ہیں۔ سارے لوازمات کا اہتمام کرنا تو شاید کہیں بھی ممکن نہ ہو مگر ممکنہ حد تک ان کا اہتمام سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لیتا ہے۔ اگر رنگین شام کا اہتمام ممکن نہ ہو تو رنگین قدرتی منظرنامہ اس کمی کو پورا کرنے کیلئے کافی سے بڑھ کر ہے مگر اس قدرتی منظرنامے کے رنگ اور نک سک تو درست ہونا چاہیے۔
مجھے نیپال جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں صرف شالوں اور سکارف کی دکانیں غیرملکی سیاحوں سے بھری پڑی تھیں۔ مختلف اقسام کی اون سے تیارکردہ شالیں اور سکارف۔ کشمیری وول کی مہنگی اور یاک وول کی نسبتاً سستی شالیں اور سکارف۔ نیپال صرف اپنے خمدار گورکھا خنجر ”کھکری‘‘ کو دنیا بھر میں بیچ کر بلامبالغہ کروڑوں ڈالر کما رہا ہے۔ ہمارے پاس دنیا کی خوبصورت ترین بلیوپاٹری ہے جسے دنیا بھر میں پاکستانی ہینڈی کرافٹ کے حوالے سے فلیگ شپ آئٹم بنایا جا سکتا ہے۔ سندھ کی رِلی‘ ملتان کے اونٹ کی کھال سے بننے والے ٹیبل لیمپ، اونٹ کی ہڈی کا کام، اونیکس پتھر کی سجاوٹی اشیا کے علاوہ ہماری دیگر بے شمار دستکاریاں اس امر کی منتظر ہیں کہ ان کو دنیا میں متعارف کروایا جائے۔ وادیٔ سوات میں بدھ مت کے آثار کو وجۂ سیاحت بنایا جا سکتا ہے۔ پوٹھوہار سے لے کر تخت بھائی تک پھیلے ہوئے بدھ مذہب کے سٹوپاز اور چٹانوں پر کھدے ہوئے تصویری نقش و نگار کو بھی اجنتا اور ایلورا کی طرح سیاحوں کیلئے باعث کشش بنایا جا سکتا ہے‘ مگر مسئلہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں سوات کے بدھ مذہب کے آثار قدیمہ سے کہیں زیادہ شہرت اگر سوات کے ملا فضل اللہ عرف ملا ریڈیو کو مل جائے‘ اور وہاں چوک میں پھانسیاں دینے کی وڈیوز دنیا بھر میں ان آثار قدیمہ سے زیادہ وائرل ہوں تو بھلا وہاں سیاحت کیسے فروغ پا سکتی ہے؟ دہشت کے سائے تلے سیاحت نہ فروغ پا سکتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھ سکتی ہے۔