معروف دینی سکالر سنئیر کالم نگار پیر ضیا الحق نقشبندی کے بڑے بھائی کمال مرتضی نقشبندی قضائے الہی سے نارووال میں انتقال کر گئے ہیں. ان کی نمازہ جنازہ آج 12نومبر کو 2بجے مالوکے بس سٹاپ (صادق آباد)ظفروال روڈ ضلع مزید پڑھیں
عوام اور مظاہرین آمنے سامنے؟
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ نفرت اور پولرائزیشن کی مار کہاں تک ہے تو آپ فیس بک پر چلے جائیں وہاں عمران خان کے حامی اور اس کے مخالف ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔ وزیر آباد میں کنٹینر پر ہونے والی فائرنگ اور اس حوالے سے شوکت خانم ہسپتال میں کی جانے والی عمران خان کی شعلہ بیانی پر داد و تحسین کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت کے بری طرح لتے لئے جا رہے ہیں۔ دوسرے طرف عمران خان کے مخالف ہیں اور میں نے انہیں پہلی دفعہ اتنی بڑی تعدادمیں بپھرے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ تند و تیز زبان استعمال کر رہے ہیں اور کچھ تو اس حد تک چلے گئے ہیں کہ فائرنگ کے واقعہ کے ہونے یا نہ ہونے پر دلائل کے ڈھیر لگانے میں مشغول ہیں۔ ان میں سے کچھ کہتے ہیں کہ اگر فائرنگ ہوئی بھی ہے تو وہ نہ ہونے کے برابر ہے، ملزم مسلسل فائرنگ کررہا ہو اور اس کی زد میں عمران خان کے صر ف ’’گٹے‘‘ پر چند چھرے لگیں، ناقابل یقین ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب ہڈی نہیں ٹوٹی تو زخمی ٹانگ پر پلستر کیوں باندھا گیا، پلستر تو صرف فریکچر کی صورت میں کیا جاتا ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ پہلے کہا گیا تھا کہ ایک ٹانگ پر گولی لگی ہے مگر پلستر دونوں ٹانگوں پر موجود ہے۔ ایک بات یہ کہ پلستر کے ساتھ سیدھا چلا نہیں جا سکتا، ایک نکتہ یہ بھی اٹھایا جا رہا ہے بلکہ مجموعی رائے یہ سامنے آئی ہے کہ ناکام لانگ مارچ پر فیس سیونگ کے لئے حملے کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیاجا رہا ہے، کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں اور ان کی یہ بات درست ہے کہ حقیقی تحقیقات کے بغیر ذمہ دار شخصیات پر الزام لگانا انتہائی قابلِ مذمت ہے، پہلے تحقیق ہونے دیں بعد میں جو چاہیں کہیں۔کچھ لوگوں نے عمران خان کے اس بیان پر کہ ان کے نامزد ملزمان شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور ایک اعلیٰ فوجی افسر استعفیٰ دیں تو جینوئن تحقیق ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میںکہا گیاکہ عمرا ن خان کے دور میں احسن اقبال، ابصار عالم اور دوسرے کئی اہم افراد پر قاتلانہ حملے ہوئے اس وقت تحقیق کے لئے وزیر اعظم عمران خان نے استعفیٰ دیا تھا؟ظاہر ہے نہیں دیا گیا بلکہ بلواسطہ طور پر ان حملوں کو جائز قرار دیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔
تاہم اس بحث سے قطع نظر ایک انتہائی تکلیف بات یہ ہے کہ چند شہروں میں گنتی کے چند افراد نے چوراہوں میں مظاہرے کئے اور سڑکیں بند کردیں جس کے نتیجے میں گاڑیوں میں سوار ہزاروں افراد ٹریفک میں پھنسے رہے جو لوگ اس عذاب سے گزرے ان سے پوچھئے کہ ان کے دلوں میں کیسے کیسے بھیانک خیالات آئے۔ان میں بزرگ بھی تھے، خواتین بھی، بچے بھی اور بیمار بھی۔پولیس لوگوں کو گرفتار کرنے کی بجائے اگر ٹریفک کیلئے رستہ کھولنے کی کوشش کرے تو یہ زیادہ بہتر ہے، تاہم پولیس تحمل سے کام لے رہی ہے مگر آخر کب تک؟ میں نے ایک بزرگ کو دیکھا کہ جب اس کے مثانوں نے بہت زور ڈالا تو وہ وہیں ہزاروں لوگوں کے سامنے سڑک پر ہی ’’رلیکس‘‘ ہوگیا۔ پولیس کو کوئی ایسی حکمتِ عملی ضرور بنانا چاہیے کہ مظاہرین بھی اپنا شوق پورا کرلیں، مگر عوام کو تکلیف نہ ہو۔
مجھے جس بات کا ڈر ہے وہ یہ ہے کہ فارسی محاورے’’ تنگ آمد بجنگ آمد‘‘ کے مصداق کہیں مظاہرین اور ان کے مظاہرے کی زد میں آئے ہوئے بے گناہ عوام آمنے سامنے نہ ہو جائیں ، دو چار سو لوگ لنگر لنگوٹ کس کر مظاہرین پر پل پڑیں اور وہ جنگ شروع ہو جائے جس کا اختتام ملک کو شدید نقصان کی صورت میں بھی کم کم ہی ہوتا ہے۔ آج جو لوگ یہ تماشا دیکھ رہے ہیں اور خوش ہیں کہ عوام ان کیلئےگھروں سے نکلے ہیں، اللہ کرے کہ وہ بھی یہ دن نہ دیکھیں ،جب یہ صورتحال جرائم پیشہ افراد کے جشن کی صورت اختیار کرلے۔ اس صورت میں کوئی نہیں بچے گا۔ میر ے آپ کے، دوستوں دشمنوں کے گھروں پر حملے ہوں گے، قتل و خون، ڈاکہ زنی، آبرو ریزی کے واقعات ظہور پذیر ہوں گے اور پھر ہمارا پیارا ایٹمی پاکستان، میرے منہ میں خاک، اپنا وجود بھی برقرار رکھ سکے گا کہ نہیں؟ عمران خان کے بارے میں مجھے کوئی حسن ظن نہیں۔ وزارت ِعظمیٰ سے محرومی کے بعد بھی اس کی دلچسپی پاکستان کے وجود سے رہے گی کہ نہیں؟ تاہم میری ان سے، ان کے حامیوں سے اور ان کے مخالفین سب سے مشترکہ التجا ہے کہ صورتحال اتنہائی خطرناک ہے، خدا کے لئے معتدل راستہ اختیار کریں۔ عوام اور مظاہرین کے آمنے سامنے آنے کی صورت میں سب کچھ برباد ہو جائے گا۔ حکومت کوئی لائحہ عمل تیار کرے جس سے سانپ بھی مر جائےاور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔